یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہم عمومی طور پر ایک غیر مہذب معاشرے کے بے ضمیر لوگ ہیں جن کا گونگا ضمیر صدقے کے کالے بکرے کی مانند ہر روز قربان کیا جاتا ہے، یہاں انقلاب اور تبدیلی کے نعرے اور چوری‘ ڈکیتی اور قتل کے الزامات لگا کر ملزمان سے محض استعفیٰ (وہ بھی صرف تیس دن کے لئے) طلب کیا جاتا ہے دوسری طرف ہم لوگوں میں وہ اخلاقی جرات ہی نہیں کہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے اختیارات سے دستبردار ہو جائیں۔ اخلاقی پستی کا عالم یہ ہے کہ الزامات کے جواب میں عدالتی کمشن بنتے ہیں جس میں ڈھٹائی کے ساتھ ناکامیوں اور سانحات کی اخلاقی ذمے داری سے بھی انکار کر دیا جاتا ہے۔ ہماری تاریخ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کے اس رویے سے بھری پڑی ہے۔ ایوان صدر سے لے کر سرکاری و نجی شعبوں کے چوکیداروں تک اس سیاسی اور معاشرتی منافقت کا بول بالا ہے، ان اداروں میں احساس جرم اور شرمندگی تو دور کی بات چوری پکڑے جانے پر استعفیٰ مانگ کر اور دے کر اپنی قانونی ذمے داریوں سے جان چھڑا لی جاتی ہے، لکھا جاتا ہے کہ ”ذاتی وجوہات کی بنیاد پر استعفیٰ دے رہا ہوں“ شاید یہ دنیا میں بولا جانے والا سب سے بڑا جھوٹ ہے اور پاکستان میں تو یقیناً ایسا ہی ہے ایک ادارے سے بدعنوانی کے باعث نکالے گئے لوگ بھی ”ذاتی وجوہات“ کی بنا پر استعفیٰ دینے کی سہولت حاصل کر لیتے ہیں اور ایسے لوگوں کو دوسرے اداروں میں زیادہ اہم رُتبے پر ہاتھوں ہاتھوں لیا جاتا ہے اس دور میں کوئی بہت ہی ”بے سہارا“ چور یا ڈاکو ہوگا جو ”برطرفی“ یا ”استعفٰی“ کے بعد بھی بیروزگار رہا ہو‘ اس کی وجہ وہ کبھی نہ پکڑے جانے والے بڑے چور یا ڈاکو ہیں جو بڑے بڑے محکموں میں ہوتے ہوئے پکڑے جانے والے چھوٹے چوروں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے روزگار کی فراہمی کی تاک میں ہوتے ہیں۔ ہمارے میڈیا میں بھی یہ منافقت بدرجہ اتم موجود ہے جس اینکر یا صحافی کی خباثت ساری دنیا کے سامنے عیاں ہو جائے ان کو دوسرے ادارے اسی کام کے لئے زیادہ مراعات کے ساتھ اپنا لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو برطرف کرنے کے بجائے استعفیٰ دینے کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے یوں کبھی کبھی شریف لوگوں کو بھی ادارے کا مالی بوجھ کم کرنے کے لئے استعفیٰ کی راہ دکھائی جاتی ہے تو ایسے میں ایک بدمعاش ‘ بدعنوان صحافی اور ایک شریف صحافی کے استعفیٰ میں کیا فرق ہو گا؟ شاید یہی کہ ایماندار صحافی کو دوبارہ ملازمت نہ ملے۔ سوال یہ ہے کہ اس غیر منصف معاشرے میں کبھی کبھی برطرف ہونے والا ہی برطرف کرنے والے سے زیادہ بدنام کیوں ہو جاتا ہے؟ اب اگر یہی منافقت ہمیں سیاست میں بھی نظر آتی ہے تو حیرانگی کی کیا بات ہے یہ منافقت الیکشن میں ووٹ نہ ڈال کر بعد میں نعرے مارنے والے ووٹر سے لے کر الیکشن میں ہارے والے انقلابی لیڈران تک موجود ہے آخر چند ہزار دھرنے بازوں کی بارات کس حق سے وزیراعظم ہا¶س سے اقتدار کی دلہن کی رخصتی کا تقاضا کر رہی ہے؟ اور پھر کیا محض استعفیٰ دینے سے (اور وہ بھی صرف تیس دن کیلئے) نواز شریف کے وہ تمام مبینہ جرائم و گناہ دُھل جائیں گے جن کے بارے میں سُن سُن کر گھروں میں بیٹھے لوگوں کے کان پک گئے ہیں؟ مگر دوسری طرف اگر دھرنے باز باراتیوں کی کم تعداد اقتدار کی دلہن لے جانے کا حق نہیں رکھتی تو پھر 12 اکتوبر 1999ءکو محلے کے بدمعاش نے دن دیہاڑے اقتدار کی اس دلہن کو محلے والوں کے سامنے اغوا کیا اور کوئی باہر نہ نکلا تو اس کو کیا سمجھا جائے؟ اب بات کرتے ہیں تحریک انصاف کے استعفوں کی جو صرف پنجاب، سندھ اور قومی اسمبلی کے اراکین کے لئے حلال قرار دیئے گئے ہیں ان میں سے بہت سے استعفیٰ زبردستی لئے گئے ہیں اور پھر یہ کیسا خوف اور عدم اعتماد ہے کہ انصافی اراکین اسمبلی جو عاقل اور بالغ ہیں انہیں سپیکر قومی اسمبلی سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں سے روکا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ سب اراکین اپنے استعفے اجتماعی ملاقات میں دیں گے۔ حیرت ہے کہ عمران خان اپنے استعفوں پر سپیکر قومی اسمبلی کی منظوری کے ”مہر“ کے محتاج ہیں اگر یہ کام اتنا ہی اصولی تھا تو پھر اصولوں کو کسی کی ربڑ سٹمپ کی کیا ضرورت؟ عمران خان کو تو شاید جاوید ہاشمی سے بھی زیادہ سپیکر کی منظوری کا انتظار ہے اور آخر کیوں نہ ہوں جب ان کے دست راست اسد عمر استعفٰی دینے کے باوجود قائمہ کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے اپنے زیر استعمال سرکاری گاڑی ابھی تک واپس کرنے کو تیار نہیں‘ شاید وہ جانتے نہیں کہ اگر استعفٰی منظور ہوا تو پرانی تاریخ سے نافذ ہوگا جس کا مطلب ہے سرکاری گاڑی اور پٹرول کے بعد کے اخراجات قابل واپسی ہوں گے ایک باس نے جب ملازم کا استعفٰی نامنظور کر دیا تو ملازم نے کہا ”جناب میں استعفیٰ دے رہا ہوں آپ کی منظوری نہیں چاہ رہا“ دوسری طرف سپیکر قومی اسمبلی بھی مسلم لیگ نون کے لا¶ڈ سپیکر بنتے نظر آتے ہیں۔ تمام مستعفیٰ ہونے والے اراکین سے علیحدہ ملاقاتوں کا خیال آیا بھی تو ایک ماہ کے بعد‘ قانون کے مطابق استعفیٰ کی تاریخ کے ساٹھ دن کے اندر خالی سیٹ پر ضمنی انتخاب کرانا لازمی ہوتے ہیں تو آج اگر استعفیٰ منظور بھی ہو جائے تو الیکشن کمشن باقی ماندہ تیس دنوں میں ضمنی انتخاب کیسے کرائے گا۔ اس حوالے سے الیکشن کمشن کا ایک خط ابھی بھی جواب کا طالب ہے۔اور پھر سپیکر قومی اسمبلی تحریک انصاف کے اراکین سے علیحدگی میں کیا راز و نیاز کریں گے؟ مثلاً یہ کہ بھائی آپ نے اپنی مرضی سے استعفیٰ دیا ہے یا دبا¶ پر؟ اگر رکن نے کہا ”جناب اس ”طلاق نامے“ پر دستخط تو میرے ہی ہیں مگر ”مروت“ میں کر دیئے ‘ جناب کچھ ایسا حل نکالیں کہ میرا استعفیٰ بھی درست ہو جائے اور میری سیٹ بھی بچ جائے .... یعنی کہ ”سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے“ تو ایسے جواب پر سپیکر اسمبلی کیا کریں گے؟ اور ایک دوسرا مستعفٰی ہونے والا رکن یہ کہے کہ ”جی استعفٰی کے لئے دبا¶ تو نہیں تھا مگر خان صاحب میرے سر پر کھڑے ہو کر بلے کے ساتھ مسلسل ہُک کرنے کی مشق کر رہے تھے اور یوں لگتا تھا کہ ہم دونوں کے پاس وقت کم ہے اس لئے دستخط کر دیئے“ ایسے میں سپیکر کیا رولنگ دیں گے؟ اگر سپیکر نے استعفیٰ نامنظور کر دیا تو پھر وہ بےچارہ انصافی رکن اسمبلی کنٹینر پر چڑھ کر کیا کہے گا یہی کہ سپیکر نے دھاندلی کر دی ہے اور اب وہ اسمبلی کے اندر بھی اس دھاندلی کے خلاف دھرنا دینے کا اعلان کرتا ہے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ دھرنا چوک سے چند گز کے فاصلے پر موجود سپیکر سے اجتماعی ملاقات کے لئے پیدل کیوں نہیں چلے جاتے اور کیا انہیں اس کے لئے سپیکر کے دعوت ولیمے کی ضرورت ہے؟ آفرین تو سپیکر پر بھی ہے کہ ساڑھے تین سو اراکین پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو چلانے والا شخص دو درجن مستعفی ہونے والے اراکین سے ایک ساتھ ملاقات کرنے سے معذوری ظاہر کر رہا ہے۔پس واضح ہے کہ استعفوں کی بات چاہے لینے کی ہو یا دینے کی سیاست اور منافقت سے زیادہ کچھ نہیں‘ ہماری ملکی تاریخ میں بڑے بڑے المیئے آئے اور چلے گئے مگر ہماری قیادت میں سے کسی کو بھی اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے استعفیٰ دینے کی ہمت نہیں ہوئی‘ نہ تو کسی ووٹ والے نے غلطی تسلیم کی اور نہ ہی بوٹ والے نے بیلٹ اور بلٹ دونوں ہی شرمندگی کے احساس سے عاری ہیں۔ اس بے شرم معاشرے اور سیاسی نظام میں پل کر جوان ہونے والی ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نہ تو کسی سے استعفیٰ مانگنے کا حق رکھتی ہے اور نہ ہی استعفٰی دینے کی روادار ہے استعفوں کی سیاست محض منافقت ہے جس میں اصولوں کی وصولی کی جاتی ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024