لائن آف کنٹرول پر بھارتی افواج کی بلا اشتعال گولہ باری اور سیز فائر معاہدوں کی مسلسل خلاف ورزیوں کے باوجود بھارتی آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اشتعال انگیز بیانات داغ کر لائن آف کنٹرول پر پائی جانے والی کشیدگی میں اضافہ کرنے میں کوئی کسر تو نہیں چھوڑی تاہم پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے جس طرح ٹھوس،جاندار اور متوازن انداز سے جواب دیا ہے وہ نہ صرف قوم کیلئے باعث فخر ہے بلکہ خطہ کے عوام کیلئے امن کی نوید کا درجہ رکھتا ہے ۔ انھوں نے متنبہ کیاکہ کسی بھی جارحیت کا نہ صرف منہ توڑ جواب دیا جائے گا ۔اپنے خطاب میں انہوں نے واضح کیا کہ خطہ میں پائیدار امن کے قیام کیلئے مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل ضروری ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران اقوام عالم کی توجہ سلامتی کونسل کی قرارد ادوں کی جانب مبذول کروا ئی ہے۔ عالمی برادری کا ضمیر جھنجوڑنے کیلئے دنیا بھر میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمائت میں اب تک لا تعداد مظاہرے ہو چکے ہیں۔اب لندن کے ڈفلنگر سکوائر میں ملین مارچ ہوا ہے جس سے خطاب کرتے ہوئے بیرسٹر سلطان محمود نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کشمیر یوں کو حق خود ارادیت دیں مگر بھارت نے طوطے کی طرح رٹ لگا رکھی ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ شملہ معاہدہ اور اعلان لاہور کے بعد پاکستان مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے فورم پر نہیں اٹھا سکتا۔
سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 47کی رو سے کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے بھارت کشمیر میں رائے شماری کروانے اور اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا و پاکستان (یواین سی آئی پی) سے تعاون کرنے میں ناکام رہا،کشمیر کی 95فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے جو کسی صورت بھارت سے الحاق نہیں چاہتے، کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیریوں کی مرضی کے بغیر ممکن ہے نہ ان پر کوئی ناقابل قبول حل مسلط کیا جا سکتا ہے۔کشمیر کا مسئلہ تقسیم ہند کے ساتھ ہی پیدا ہو گیا تھا جب بر صغیر میں واقع650 ریاستوں کو آپشن دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے بھارت یا پاکستان میں سے کسی کے ساتھ الحاق کر لیںیا چاہیں تو اپنا آزاد وجود برقرار رکھنے کا فیصلہ کر لیں۔وادی کشمیر کی چا ر ملین آبادی میں 95فیصد مسلمان تھے ،جبکہ جموں اور لداخ میں با لترتیب 30 فیصد اور46 فیصد مسلمان باشندے تھے۔ہر چند کہ کشمیر کے ہندو راجہ ہری سنگھ نے ریاست کا آزاد وجود برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ، مگر کشمیریوں نے بغاوت کر دی جس پر ہندو راجہ نے بھارت سے امداد مانگ لی ، بھارت نے فوجیں کشمیر میں داخل کر دیں ،قبائلی رضاکار کشمیریوں کی مدد کو پہنچ گئے جسکے نتیجے میں پاک بھارت افواج کے درمیان غیر اعلانیہ جنگ (48۔1947ئ) چھڑ گئی، راجہ ہری سنگھ نے کشمیر کے بھارت سے الحاق کا اعلان کر دیااور الحاق کی دستاویز پر دستخط کردیئے۔ بھارت نے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا جس پر20 جنوری1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر39 منظور کی جسکی رو سے کشمیر کاپر امن حل نکالنے کیلئے سلامتی کونسل نے ایک سہ رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ۔ جو کام کمیٹی کے سپرد کیا گیا وہ یہ تھا کہ کمیٹی جلد از جلد موقع پر پہنچ کر اقوام متحدہ کی اتھارٹی کے تحت کام کرتے ہوئے مشترکہ طور پر خطہ میں قیام امن کے حوالے سے بہترین تجاویزات پر مبنی سفارشات سلامتی کونسل کو پیش کریگی۔دونوں ممالک کے دلائل سننے کے بعد سلامتی کونسل نے21 اپریل 1948ء کو قرارداد نمبر 47 منظور کرتے ہوئے کمشن کے ارکان کی تعداد تین سے بڑھا کر پانچ کردی۔کمیشن کو ہدائت کی گئی کہ بر صغیر میں جا کر خطہ میں امن کی بحالی اور رائے شماری کیلئے مطلوبہ تیاریوں میں پاک بھارت حکومتوں کی مددکرے اور اس ضمن میں کی گئی ہر کاروائی سے کونسل کو ساتھ ساتھ آگاہ بھی کرے۔ رائے شماری کیلئے ماحول کو سازگار بنانے کی غرض سے قرارداد میں پاکستان سے ٹروپس کی واپسی کا کہا گیا اسی طرح بھارت سے بھی امن و امان کیلئے مطلوب نفری کے علاوہ باقی ٹروپس واپس بلانے کا کہا گیا ۔کمیشن کو ضرورت کے مطابق ابزرور مقرر کرنے کا اختیار بھی دیا گیا۔یہ غیر اعلانیہ جنگ اقوام متحدہ کے یکم جنوری 1949ء کے سیزفائر اعلامیہ پر بند ہوئی جس میں دونوں ممالک سے رائے شماری کے فیصلے پر قائم رہنے کا پابند رہنے کا کہا گیا ۔ یوں کشمیر کا کچھ حصہ بھارت کے قبضے سے آزاد کروا لیا گیاجسے آزاد کشمیر کہا جاتا ہے جبکہ باقی حصہ بھارت کے قبضہ میں چلا آ رہاہے۔اب اگر سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 39 کی روشنی میں قرارداد نمبر47 اور سیزفائر اعلامیہ کا جائزہ لیا جائے تو کوئی ابہام نہیں رہتا کہ اقوام متحدہ کے فیصلوں کی رو سے کشمیر کے مستقبل کا تعین کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق رائے شماری سے ہونا طے پا چکا ہے اور دونوں ممالک اسکے پابند ہیں۔ جہاں تک شملہ معاہدہ کا تعلق ہے۔ اس معاہدہ پر دو جولائی 1972ء کو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور پاکستانی صدر ذوالفقار علی بھٹو نے دستخط کئے۔معاہدے کی رو سے دونوں ممالک نے باہمی تعلقات میں بگاڑ اور محاذ آرائی پیدا کرنیوالے تنازعات کو ختم کرنے اور پر امن بقائے باہمی کے اصول پر دوستانہ فضاء اور ہم آہنگی پیدا کرنے اور اپنے وسائل عوام کی فلاح وبہبود کیلئے وقف کرنے کا عہد کیا۔فریقین نے تسلیم کیا کہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج اصولوں اور مقاصد کے تحت کنٹرول ہونگے۔ شملہ معاہدے میں کہیں درج نہیں کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں غیر موثر تصور ہونگی۔بھارت کس اصول کے تحت بضد ہے کہ دو طرفہ مذاکرات کے سوا کوئی دیگر آپشن نہیں۔جبکہ بھارت جب چاہے یکطرفہ طور پر مذاکرات کے دروازے بھی کسی جواز کے بغیر خود ہی بند کر دیتا ہے۔ کنٹرول لائن کی خلاف ورزیاں بھارت شملہ معاہدہ کی کونسی شق کے تحت کر رہا ہے ۔شملہ معاہدہ میں یو این چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کی پابندی دونوں ممالک پر لازم ہے ۔اس میںکوئی ایسی کلاز نہیں جو اقوام متحدہ کو مداخلت سے باز کر سکے۔ویسے بھی یو این چارٹر کے آرٹیکل103میں یہ وضاحت درج ہے کہ رکن ممالک پر یو این چارٹر کے تحت عائد ذمہ داریاں کسی بھی دو طرفہ معاہدہ سے پیدا ہونے والی ذمہ داریوں پر حاوی ہونگی اور کوئی رکن اپنے کسی ٹریٹی کو یو این چارٹر کے تحت عائد ذمہ داریوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے استعمال نہیں کر سکے گا۔ پس دانشمندی اور عدل کا تقاضہ یہی ہے کہ بھارت کو کشمیر کے حقیقت پسندانہ حل اور خطہ میں پائیدار امن کیلئے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کر تے ہوئے ہٹ دھرمی کو ترک کرنا ہوگا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024