آج سے نئی عسکری قیادت کا نام جنرل قمر جاوید باجوہ ہے۔ پاکستانی قوم کی خوش بختی ہے کہ 2008ءسے اب تک ملک میں جمہوریت کا تسلسل ہے۔ پیپلزپارٹی نے 2013ءتک اپنی حکمرانی کی آئینی مدت بلا رکاوٹ پوری کی تھی اور اب پاکستان مسلم لیگ (ن) اپنی مدت پوری کرنے جا رہی ہے۔ اسی طرح جنرل راحیل شریف کی عسکری قیادت نے اپنی مقررہ مدت پوری کرکے روشن روایت قائم کی۔ نئی عسکری قیادت ملک اور فوج کو درپیش چیلنجوں سے بخوبی آگاہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی پیشرو قیادت سے کتنی مختلف ثابت ہوتی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کے نزدیک دہشت گردی بھارت دشمنی سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ آپریشن ضرب عضب کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ جنرل راحیل شریف نے فوج بلکہ پاکستانی قوم کے دل میں اپنا گھر بنایا۔ انہوں نے 10 ماہ پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ وہ اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہونا پسند کریں گے۔ تمام تر قیاس آرائیوں اور مطالبات کے باوجود وہ ایک مردِ میدان کی طرح اپنے وعدے پر قائم رہا جبکہ ان کے پیشرو جنرل اشفاق پرویز کیانی چھ سال تک آرمی چیف رہے۔ انہیں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے توسیع دی تھی اور ان سے پہلے جنرل پرویز مشرف آرمی چیف کےساتھ ساتھ صدرمملکت بھی بن گئے تھے۔ جنرل راحیل شریف نے جب سپہ سالار کا عہدہ سنبھالا تو اس وقت خودکش حملوں میں شدت آچکی تھی۔ دہشت گردوں سے مذاکرات کا اہتمام ہو رہا ہے۔ دہشت گردوں نے ایسے مطالبات شروع کر رکھے تھے جوکوئی کمزور سے کمزور ریاست بھی نہیں مان سکتی تھی۔ چنانچہ آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا ساتھ ہی کراچی میں رینجرز اور پولیس نے مل کر دہشت گردوں کو بھاگنے پر مجبور کیا۔ ”را“ کا کمبل اوڑھے کراچی میں سیاست کی آڑ میں دہشت گردی کرنے والوں کو پوری طرح بے نقاب کیا اور ان کی زبان درازیاں ہمیشہ کیلئے بند کیں۔ اینٹ سے اینٹ بجانے کی بڑھک مارنے والے خود ہی ملک سے بھاگ گئے۔ جنرل راحیل شریف کے دور میں عسکری اور سیاسی قیادت کے ایک صفحے پر ہونے اور نہ ہونے کی بہت باتیں ہوئیں اور اب تو ثابت ہو گیا کہ پاکستان کی بقائ‘ سلامتی‘ ترقی اور استحکام کیلئے مذکورہ قیادتوں کا ایک پیج پر ہونا ضروری ہے۔ دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ دونوں اعلیٰ قیادتیں ایک پیج پر ہوں تو دھرنوں کی میوزک سیاست کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ نہ ہی کوئی امپائر انگلی اٹھاتا ہے۔ فوج نے تین سال میں دہشت گردی کے جو نیٹ ورک توڑے‘ اس کیلئے ٹروپس نے اپنے چیف راحیل شریف کا بھرپور ساتھ دیا۔ جنرل راحیل اندرون اور بیرون ملک رات دن متحرک رہے۔ شہیدوں کے لواحقین کی جو دیکھ بھال ان کے دور میں ہوئی‘ وہ بے مثال ہے۔ صبح ہو کہ شام‘ وہ ہر محاذ پر اپنے ٹروپس کے ساتھ دیکھے جاتے تھے۔ جنرل راحیل شریف اور کشمیر کا ذکر لازم و ملزوم ہو گئے تھے۔ انہیں 46 ارب ڈالر کے سی پیک معاہدے سٹرٹیجک معنویت کا ادراک تھا۔ انہوں نے سی پیک کیلئے 15 ہزار جوانوں پر مشتمل سپیشل سکیورٹی ڈویژن تشکیل دی۔ بھارت‘ افغانستان اور امریکہ نے مل کر بلوچستان میں سی پیک کو ناکام بنانے کا منصوبہ بنا رکھا تھا جسے جنرل راحیل نے ناکامی سے دوچار کیا۔ ان کے دور میں آئی ایس پی آر کا کردار بھی بے مثل رہا۔ جنرل راحیل نے بھارت کی جنگی ہرزہ سرائیوں کا منہ توڑ جواب دیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ ان اچھی روایات کی پیروی جاری رکھیں گے۔ تین سال پہلے والے فاٹا اور آج کے فاٹا میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ عسکریت پسند مارے گئے اور کچھ بھاگ گئے۔ آج کے بلوچستان اور تین سال پہلے کے بلوچستان کا موازنہ کر لیں۔ جب علیحدگی پسند اور فرقہ پرست دہشت گرد بے گناہ لوگوں کا خون بہا رہے تھے۔ اسی طرح آج کا کراچی تین سال والے کراچی سے بہت حد تک مختلف ہے۔ اس وقت تو کراچی پر ٹارگٹ کلرز‘ بھتہ خوروں‘ اغوا برائے تاوان کے گروہوں اور جرائم پیشہ عناصر کا قبضہ تھا۔ بیشتر قبائلی علاقے ممنوعہ بنے ہوئے تھے۔ تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی بھارت کے پانچویں کالم کا کردار ادا کر رہی تھیں۔ یہ دہشت گرد تنظیمیں چُن چُن کر ہمارے دفاعی نوعیت کے اہم مقامات کو ہدف بنا رہی تھیں۔ انہی وحشی درندوں نے آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ کیا تھا۔
انہی دنوں آپریشن ضرب عضب کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا۔ نئی عسکری قیادت کے سامنے ایک بڑا چیلنج بھارت کے جنگی جنون کا جواب دینا ہے۔ مودی کا یہ بیان کہ ”ایک ایک بوند پانی روک کر پاکستان کو اجاڑ دیں گے“ بدترین دشمنی کا اعلان ہے۔ 1960ءکے سندھ طاس معاہدے کے تحت تین مشرقی دریا بیاس‘ ستلج اور راوی بھارت کو دیئے گئے۔ ان دریاﺅں سے کچھ پانی پاکستان میں آرہا ہے۔ اسی لئے مودی نے کہا ہے کہ ہمارا پانی پڑوس میں بہہ رہا ہے۔ مودی ہمارے دریاﺅں سندھ‘ جہلم اور چناب کا پانی روکنے کی بات کرتا تو ہمارے لئے خطرہ کی بات تھی۔ بھارت کا جنگی جنون دونوں ملکوں کو خطرناک صورتحال کی طرف دھکیل رہا ہے۔ سرحدی جھڑپیں وسیع علاقوں تک پھیلتی جا رہی ہیں۔ سرحدوں کے پار شہری آبادی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حال ہی میں بھارتی فوج کی طرف سے مسافر بس اور ایمبولینس کو نشانہ بنایا گیا۔ بھارتی فائرنگ و گولہ باری کی وجہ سے وادی¿ نیلم میں ہُو کا عالم ہے۔ ہم بلاناغہ بھارتی ہائی کمشنر کے ہاتھ میں احتجاجی مراسلہ تھما دیتے ہیں جسے وہ کوڑا دان میں ڈال دیتا ہوگا۔ پاکستان کے ڈی جی ملٹری آپریشن نے اپنے بھارتی ہم منصب سے احتجاج کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ہم اس کا جواب اپنی مرضی کے مقام اور وقت پر دینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ مودی کی سوچ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ وہ انسانیت کی تمام حدیں پار کر چکا ہے۔ ایمبولینس اور ہسپتالوں پر تو دوسری جنگ عظیم کے دوران بھی حملے نہیں کئے گئے تھے۔ بھارت نے زخمیوں کو لے جانے والی ایمبولینس کو بھی نہیں چھوڑا۔ ہماری مجبوری یہ ہے کہ کنٹرول لائن کے اس جانب بھی کشمیری آباد ہیں جبکہ دوسری جانب سے ہمارے کشمیری مسلمان بھائی ہیں۔ ہم بھارتی فوجوں کی طرح اندھادھند گولہ باری نہیںکر سکتے۔ مودی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بھارت کی منڈیوں سے غیرملکی سرمایہ کار تقریباً پونے تین ارب ڈالر نکال کر چلے گئے ہیں۔ بھارتی کرنسی کی قدر بھی کم ترین سطح پر آگئی ہے۔ خاص طورپر بڑے نوٹوں کی تنسیخ سے بھارت میں زیر گردش زر اعتبار میں شدید کمی واقع ہو گئی ہے۔
بھارت کی بڑھتی ہوئی جارحیت پر اقوام متحدہ اور عالمی برادری خاموش تماشائی ہے۔ زیادہ سے زیادہ کنٹرول لائن پر کشیدگی پر تشویش ہے۔ وزیردفاع خواجہ آصف نے کر دیا ہے کہ کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی جارحیت کا سلسلہ اب زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ یہ کسی بھی وقت بڑی جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے اور پورا خطہ اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ بھارت پاکستان میں ہمارے دشمنوں کو سپورٹ کر رہا ہے اور اب لگتا ہے کہ پانی سر سے اونچا ہوتا جا رہا ہے۔ بھارت سندھ طاس معاہدے توڑ کر سنگین نتائج بھگتے گا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں بھارت‘ افغانستان اور کراچی آپریشن کے حوالے سے جنرل راحیل شریف کی پالیسیاں جاری رہیں گی اور اب شاید کوئی بھی سول‘ ملٹری تعلقات پر انگلی نہیں اٹھا سکے گا۔
یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ عمران خان کے دھرنے کے دوران جنرل قمر باجوہ کی 10 کور نے غیرجانبدار کردار ادا کیا تھا۔ جنرل باجوہ جمہوریت کے تسلسل کے حق میں تھے۔ یوں 2018ءتک اس کے بعد بھی جمہوریت مستحکم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اب عمران خان کو اپنے پرانے چلن کو بدلنا ہوگا۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کیلئے اہم کاموں میں نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد‘ فاٹا کی بحالی‘ آئی ڈی پیز کی واپسی‘ نیشنل سکیورٹی اور خارجہ پالیسی شامل ہیں۔ دھرنے پر کان نہ دھرنے کا کریڈٹ جنرل قمر کے ساتھ جنرل راحیل شریف کو بھی جاتا ہے۔ فی الحال تو ہمیں مودی کے پاکستان دشمن ایجنڈے کو کاﺅنٹر کرنا ہے۔ جتنے شواہد ہمارے پاس ہیں‘ سفارتکاروں کے روپ میں ”را“ کے ایجنٹ ہم نے پکڑ لئے۔ یہ وہی مودی ہے جس نے بنگلہ دیش میں پاکستان توڑنے کا اعتراف کیا تھا‘ تاہم ہماری سیاسی قیادت کا بھارتی قیادت کو منہ توڑ جواب دینے کے حوالے سے رویہ بہت کمزور دکھائی دیتا ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024