بڑی چھوٹی حلوائی کی دکانوں میں سجی اور سنہری کاغذ میں لپٹی خوشبو دار اور رسیلی مٹھائی دیکھ کر انسان کی رال ٹپک جاتی ہے۔چھوٹے محلوں کی دکانوں میں غریب کا ہاتھ ذائقہ چکھنے کیلئے بے ساختہ مٹھائی کی جانب بڑھتا ہے تو بڑے برانڈ کی بیکریوں میں امیر کا ہاتھ جیب سے پیسے نکالتا ہے۔بہت کم لوگ ہیں جو ان مٹھائیوں کی تیاری کے عمل سے نا واقف ہونگے جو ا ن بیکریوں کے پچھواڑے اور خفیہ کارخانوں میں سر انجام دیا جاتا ہے۔ میڈیا کے ایسے چند کارخانوں پر چھاپوں کے مناظر دیکھ کر عام شہریوں کو کراہت ہوتی ہے مگر پھر وہی شہری محض آنکھ بند کر کے کہتا ہے "یار کیا دیکھ لیا ۔اب کئی ماہ مٹھائی نہ کھا سکوں گا"۔مٹھائیوں کے ایسے غلیظ کارخانوں پر میڈیا کے چھاپے اپنی جگہ مگر جو مٹھائی میڈیا خود بیچ رہا ہے اسکو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ہمارے معاشرے میں شکر خوروں کی مجبوری اس مجبوری سے مختلف نہیں جس کا شکار ہمارے ٹیلیوژن کے ناظرین اور اخباروں کے صارفین ہیں۔جو حلوہ اور مٹھائی ہم میڈیا والے اپنی اپنی بیکریوں میں سجا کر بیچتے ہیں اگر اس مال کی تیاری کے کارخانوں کے مناظر عام عوام کی نظروں میں آ جائیں تو وہ بھی ہمارا میٹھا کھانا چھوڑ دیں۔مگر"۔ ہائے رے یہ مجبوری۔ اب تو عوام ہماری مٹھائی کھانے پر بھی مجبور ہیں۔غریب عوام کی اکثریت اس میٹھے جھوٹ کے باعث ذیابیطس کی ایسی مریض بن چکی ہے کہ اب اپنے علاج سچ کی کڑوی گولی کھانے کو بھی تیار نہیں۔ ہمارے قومی ادارے اور فیصلہ ساز قوتیں غلاظت سے بھرپور ماحول میں جو مٹھائی تیار کر رہی ہیں اس کو "میڈیا بیکرز والے خوب بیچ رہے ہیں۔ٹیلی وژن اسکرینوں کے شیشوں میں سجی اور اخبارات کے سنہری کاغذوں میں لپٹی اس مٹھائی کو خوبصورتی سے روزانہ بیچا جاتا ہے ۔ مال بیچنے والوں کی ہمت نہیں کہ کارخانوں کے مالکان سے حفظان صحت کے معاملات پر پوچھ گچھ کر سکیں۔ چائے کی پیالی میں تیرتی مکھی کوئی بڑی بات نہیں،یہ مکھی کس خوبصورتی سے تیر رہی ہے یہ بڑی بات ہے۔ ایان علی کیس کی میڈیا میں رپورٹنگ اس کی ایک معمولی مثال ہے۔بڑی مثالیں بھی بہت ہیں ۔
ضرب عضب آپریشن میں ہر روز ہمارے جنگجو پائلٹ حضرات تا ک تاک کرکنوارے اور بے ا ولاد دہشت گردوں کو جہنم واصل کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف دونوں کا امریکہ کا دورہ اتنا کامیاب رہا کہ خو د امریکی بھی حیران ہیں۔ خصوصی عدالت نے جنرل مشرف کے خلاف آئین سے سنگین غداری کے مقدمے میں تقریبا دو سال کی سماعت اور جرم کے آ ٹھ سا ل بعد معاملے کی ا ز سر نو تحقیقات کا حکم دے دیا ہے جسکے بعد مشرف کے تین ساتھی ملزمان سابق وزیر اعظم شوکت عزیز ، سابق وزیر قانون زاہد حامد اور سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے خلا ف بھی آئین سے سنگین غداری کا مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔تاہم ابھی تو تحقیقات شروع ہونا بھی باقی ہیں اور اس بات کا بھی امکان نہیں کہ ایف آئی اے کے نئے تفتیشی افسران جنرل مشرف کے تین نومبر کے غیرآئینی فرمان سے متعلق جی ایچ کیو سے وہ دستاویزی ریکارڈ حاصل کر لیں گے جو پرانے تفتیشی افسران حاصل کرنے کی ہمت نہ کر سکے۔کچھ مٹھائیاں تو کالے کوٹوں کے کارخانوں میں بھی تیار ہو رہی ہیں۔سپریم کورٹ نے زین رؤف قتل کیس میں مقتول کی اور دو بیٹیوں کی مجبور ماں کو انصاف دلانے کی یقین دہانی کراتے ہوئے ملزمان کی بریت منسوخ کر دی ہے جس کے بعد اب ملزم کے بچنے کی کوئی امید نہیں ۔شاید وقت زیادہ لگ جائے مگر انصاف "جلد آ رہا ہے" ۔ملک میں بد عنوانی کیخلاف احتساب کا علم بلند کرنیوالے ادارے قومی احتساب بیورو یعنی نیب نے بھی سابق صدر آصف علی زرداری کی کرپشن کے ایک بڑے تاریخی مقدمے میں بریت کا "سخت نوٹس ‘‘ لیا ہے ۔ سترہ سال تک تجسس اور رومانس سے بھرپور اس جلیبی کہانی کا شکر خوروں کو اتنا عادی بنا دیا گیا تھا کہ اسکے اختتام پر عوام کا شوگر لیول خطرناک حد تک نیچے آگیا ہے۔محلات ، قیمتی زیورات اور سوئس بینک اکائونٹس کی اس کہانی میں بہت سے کردار بے نقاب ہوئے مگر پھر بھی پکڑے نہ گئے ۔ احتساب عدالت نے سابق صدر آصف زرداری کو محض اس لیے بری کر دیا ہے کہ نیب کے شواہد کا اصلی دستاویزی ریکارڈ کہیں کھو گیا ہے۔ اب اسے باعزت بریت کہیں یا بے عزت بریت ، میڈیا بیکرز کے گاہک ناظرین اس جلیبی کی عدم دستیابی پر حیران و پشیمان ا ور قطار بنائے منتظر ہیں۔مارکیٹ میں ایک ایسی مٹھائی بھی ہے جو عوام کیلئے ضروری سہی مگر قیمتََا پہنچ سے باہر بتائی جاتی ہے۔کیا عوام ،حکومت اور عدلیہ سینئر صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملے کے پیچھے اصل محر کات جاننے کی قیمت ادا کرنے کو تیار ہے۔اٹھارہ ماہ گزر چکے ہیں اور سپریم کورٹ کے تین معزز جج صاحبان مل کر بھی کوئی ایسی خوراک تیار نہیں کر سکے جو میڈیا بیکرز کے صارفین کیلئے بہت زیادہ کڑوی یا بہت زیادہ میٹھی نہ ہو۔ذرائع کے مطابق اس مٹھائی کے ذائقے سے متعلق ایک جج نے ابھی اپنی حتمی رائے نہیں دی جس کے باعث شکر خوروں کو ابھی مزید انتظار کرنا ہو گا۔اسی طرح ڈاکٹر عاصم حسین کے کیس میں بھی بظاہر کاروباری مقابلے کے رجحان کے پیچھے اپنی اپنی نااہلی اور کمزوری سے عوام کی توجہ ہٹانا مقصود نظر آتا ہے۔ نوے دن تک اپنی تحویل میں رکھنے کے باوجود ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف ٹھوس شواہد پیش نہ کرنے سے متعلق وضاحت کی بجائے میڈیا بیکرز پر سندھ حکومت کے وکیل اور رینجرز کے وکیل کے درمیان 14 اور 4 دن کے ریمانڈ کی مدت پر باہمی اختلاف کی ریوڑیاں خوب بیچی گئیں۔
حلوائیوں کی ایک پوری مارکیٹ ہے جہاں ایک دوسرے کے مال سے متعلق ہوش ربا انکشافات کر کے اپنا اپنا کاروبار چمکایا جا رہاہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مال سب کا بک رہا ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سی دکانوں پر فراہم کیا جانے والا مال ایک ہی کارخانے میں تیار کیا جاتا ہے اور جہاں مزدور بھی وہی لوگ ہیں جو دوسرے کارخانوں میں "ڈبل شفٹ " لگاتے ہیں۔یہ سب حلوائی اور بیکری والے بظاہر تو ایک دوسرے سے معیار کے مقابلے میں ہیں مگر صارفین کے حقوق کے خلاف یہ سب ایک یونین کے جھنڈے تلے متحد ہیں۔
مذہبی تہواروں اور انتخابی موسموں میں مٹھائی کھانا اور بانٹنا تو امیر غریب عوام سب کی مجبوری ہے ۔ یہ مٹھائی بنتی کیسے ہے ا ور کس ماحول میں تیار ہوتی ہے اگر ہم زیادہ سوچیں گے تو ہمارا شوگر لیول بہت ڈائون ہو جائیگا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024