پشاور سانحہ کے بعد پاکستان کی بہادر فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے بڑے دلگیر لہجے میں کہا تھا کہ دہشت گردوں نے ہمارے دل پر حملہ کیا ہے ہم کسی صورت بھی ان کو نہیں چھوڑیں گے اور ہر جگہ ان کا پیچھا کرینگے اور ان کو نیست و نابود کرینگے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے سپہ سالار اپنے الفاظ پر ثابت قدم ہیں اور ہماری فوج پوری تندہی اور استقامت سے ضرب عضب اور آپریشن خیبر پی کے جاری رکھے ہوئے ہے اور اسکے ساتھ ساتھ ایپکس کمیٹیوں کے ذریعے رینجرز نے کراچی میں سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کیخلاف جو سخت کارروائی شروع کی ہے اس پر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب اس ملک میں ہر طرح کی مذہبی، لسانی، سیاسی اور علاقائی دہشت گردی کا نہ صرف خاتمہ ہو گا بلکہ معاشرے میں جرائم پیشہ افراد کی بھی بیخ کنی ہو گی۔ اس سلسلے میں ملٹری اور سول اسٹیبلشمنٹ کی مکمل یکسوئی اور ہم آہنگی بھی بے حد قابل تحسین ہے۔ مثلاً میاں نواز شریف کا یہ عزم کہ کراچی میں امن و امان قائم کرنے کیلئے کسی بھی قسم کے سیاسی دبائو کو قبول نہیں کیا جائیگا جبکہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے صاف صاف کہہ دیا کہ اب کسی اچھے اور برے طالبان میں کوئی امتیاز نہیں برتا جائیگا جو گروہ ریاست کیخلاف عسکری کارروائیاں کریگا جو بھی مذہبی اور غیر مذہبی، سیاسی اور غیر سیاسی عناصر اپنے معاشی اور سیاسی مفادات کی خاطر ان دہشتگردوں کی سرپرستی فرمائیں گے انہیں بھی قرار واقع نتائج کا سامنا کرنا ہو گا۔ اس سلسلے میں دو اہم پیشرفت پوری قوم کیلئے باعث اطمینان ہیں۔ پشاور آرمی پبلک سکول پر حملہ کرنیوالے اہم منصوبے ساز اور دہشتگردوں کو موبائل فون پر براہ راست ہدایت جاری کرنے والا عسکریت پسند کمانڈر خالد خراسانی کی اپنے ساتھیوں سمیت ایک آپریشن میں ہلاک ہو جانا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہمارے محافظوں کے بازوئوں میں ابھی دم خم باقی ہے کہ اگر وہ تہیہ کر لیں تو وہ ہر قسم کے دہشت گردوں اور وطن دشمنوں کا خاتمہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔
ہمارے ایک قانون دان دوست اعجاز احمد ایڈووکیٹ ہمارے انٹیلی جنس اداروں کی صلاحیتوں کے بے حد معترف ہیں وہ ہمیشہ اس بات کا اعادہ کرتے رہتے ہیں کہ ہماری آئی ایس آئی اس قدر فعال اور وطن دشمن تنظیموں کے اندر تک سرایت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے کہ اگر ہماری سول قیادت اور سیاستدان اپنی مصلحت پسندی کو ترک کر دیں تو کراچی میں چند دنوں میں امن قائم کیا جا سکتا ہے اور مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنیوالوں کے سرپرستوں کو ختم کرکے اس ناسور کو بھی ہمیشہ کیلئے ختم کیا جا سکتا ہے بلکہ وہ تو یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر ہمارے سکیورٹی ادارے یہ تہیہ کر لیں کہ اس ملک میں بجلی اور گیس کا بحران نہ ہو، سمگلنگ، بلیک مارکیٹنگ اور بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتوں کو بڑھانے والے مافیاز کا خاتمہ کر دیا جائے تو یہ بھی انکے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ وہ مکمل طور پر ان حقائق اور عوامل سے باخبر ہیں کہ کون کونسی سیاسی جماعتیں، کون کون سے مذہبی گروہ اور کون کون سے کالادھن کمانے والے اس ملک کے عوام کا بری طرح استحصال کر رہے ہیں۔ جب میں نے اپنے دوست سے یہ پوچھا کہ وہ ایسا کیوں نہیں کرتے ہیں؟ تو وہ بڑے معنی خیز انداز میں مسکرانے لگے کہا جب کوئی سول حکمران انہی کی طرح ملکی مفادات کے تحفظ کا سوچے گا اور پاکستان کی سالمیت کیلئے ہر طرح کی قربانی دینے پر تیار ہو گا تو ان اداروں کی سفارشات پر عملدرآمد کریگا تو پھر لازماً وہ وقت جلد آئیگا جس کا خواب ہمارے آبائو اجداد نے لاکھوں جانوں کی قربانیاں وطن عزیز کے حصول پر نچھاور کرنے کے بعد دیکھا تھا کہ جس میں انکی اولادیں مکمل آزادی اور بغیر کسی جبر اور خوف کے اپنی زندگی بسر کرینگے۔
تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان جوڈیشل کمیشن کے قیام اور ضرب عضب اور ایپکس کمیٹیوں کے ذریعے ملکی امن و امان قائم کرنے کے قومی ایکشن پلان کا دائرہ کار سندھ کے علاوہ دوسرے صوبوں تک بڑھانے کا عزم یہ ظاہر کر رہا ہے کہ اگر ملک میں سیاسی استحکام اور امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے سے حکومت اپنے وعدوں کے مطابق توانائی کے بحران پر قابو پانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر معاشی صورتحال میں بہتری کے آثار پیدا ہونے سے ریاست کے واضح اہداف کا تعین ہو جائیگا۔
جہاں جمہوریت کو بہتر سے بہتر بنا کر کرپشن اور اقربا پروری کا خاتمہ کرکے قانون اور میرٹ کی حکمرانی قائم کرنے کے امکانات کو بعید القیاس نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ وطن عزیز کی سالمیت کو اندرونی اور بیرونی محاذ پر شدید خطرات ہیں۔ ہندوستان کی بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی واضح سرپرستی، مشرق وسطیٰ میں شیعہ سنی فسادات اور سعودی عرب کا یمن پر حملہ اور عراق ایران کی مخالفت کی وجہ سے پاکستان کو خارجہ محاذ پر بڑے غور و فکر کے بعد اپنی خارجہ پالیسی کو ترتیب دینا ہو گا۔ ہمیں روس، چین، عراق اور سنٹرل ایشین ممالک کے ساتھ مضبوط سیاسی اور معاشی تعلقات قائم کرکے خطے سے ہر قسم کی دہشتگردی کا خاتمہ کرنے کے اقدامات اٹھانے ہیں چاہے اس سے امریکہ اور ہندوستان کے مفادات پر کیوں نہ ضرب پڑتی ہو۔ کیونکہ 11ستمبر کے واقعات کے بعد اسرائیل کے دبائو کے تحت امریکہ مسلمان ریاستوں کیخلاف ایک لمبی جنگ میں الجھا ہوا ہے۔ پاکستان کی حکومت کیلئے یہ موزوں نہیں ہے کہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کی ہر واردات کیخلاف محض اپنی مخصوص ’’تشویش‘‘ کا اظہار کر دے اس سے عوام میں شدید ردعمل جنم لیتا ہے جیسا کہ یوحناآباد میں گرجوں پر خودکش حملوں کے بعد مسیحی عوام کے ردعمل سے دو بے گناہ انسانوں کو آگ میں زندہ جلا دیا گیا اور لاہور کے میٹرو بس سٹیشنوں کو بری طرح نقصان پہنچایا گیا حالانکہ لا اینڈ آرڈر صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ ہر واردات کو دہشت گردی قرار دے کر اپنی ذمہ داری سے فراریت حکمرانوں کی عادت بن چکی ہے جو کسی بھی صورت میں عوام کیلئے اس لئے قابل قبول نہیں ہے کہ حکمرانوں، بیوروکریسی اور انتظامیہ نے تو اپنے لئے تمام تر حفاظتی اقدامات کر رکھے ہیں مگر نہتے عوام کے تحفظ اور حفاظت کیلئے سکیورٹی کے خاطر خواہ انتظامات کہیں نظر نہیں آتے ہیں۔
جب پاکستان کے تمام سول اور سکیورٹی اور انٹیلی جنس ادارے بغیر کسی دبائو اور مصلحت کے قومی ایکشن پلان کے نفاذ میں خفیہ رپورٹوں کا اور معلومات کے باہمی تبادلے کے علاوہ ایک مشترکہ حکمت عملی کے تحت دہشتگردوں اور انکے ہمدردوں اور انکی نظریاتی تربیت گاہوں پر حملہ آور ہونگے تو پھر یقیناً پاکستان کے عوام کو دہشتگردی کیخلاف جنگ میں فتح حاصل ہو گی …؎
اب بھی خزاں کا راج ہے لیکن کہیں کہیں
گوشے رہ چمن میں غزل خواں ہوئے تو ہیں
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024