جس طرح چند فوجی جرنیلوں اور آمروں کی آئین سے سنگین غداری کی سزا پوری فوج یا ادارے کو نہیں جاسکتی اسی طرح چند بدعنوان ناہنجار سیاست دانوں کے کالے کر توتوں کی سزا آئین ، پارلیمنٹ ، سیاسی نظام اور جمہوریت کو بھی نہیں دی جاسکتی ۔ جس طرح ایوب خان ، جنرل یحییٰ ، جنرل ضیاءالحق اور جنرل مشرف جیسے فوجی آمر اپنے ناپاک سیاسی عزائم کا گناہ پاک فوج جیسے مقدس ادارے پر نہیں ڈال سکتے اسی طرح آصف زرداری ۔ الطاف حسین ، نواز شریف ، چوہدری شجاعت اور دوسرے سیاستدانوںکی مبینہ نااہلی اور بدعنوانی کو جواز بنا کر جمہوریت اور پارلیمنٹ کابوریا بسترا گول نہیں کیا جاسکتا ۔ ہمیں شخصیات اور اداروں میں فرق کرنا ہو گا ۔ بدقسمتی سے کراچی اور سندھ کی سیاسی صورتحال میں چند قوتیں ، سیاسی نابالغ و یتیم اور موقع پرست عناصر سیاسی نظام اور جمہوریت کو ناکام ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور اسکی مثال آصف زرداری کی مبینہ بدعنوانی اور الطاف حسین کی جماعت کی مبینہ غداری دی جارہی ہے ۔ یہ بھی بدقسمتی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں خود بھی شخصیت پرستی کی انتہا کو چھو رہی ہیں ۔ چند خاندانوں نے سیاسی جماعتوں اور اداروں پر یوں قبضہ جما رکھا ہے کہ جیسے کہہ رہے ہوں ۔ ”ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے “ اگر ان شخصیات نے اپنی سیاسی جماعتوں میں جمہوریت متعارف نہ کرائی اور فیصلہ سازی کی بنیاد وسیع نہ کی تو بعید نہیں کہ یہ خاندان اپنے بنائے ہوئے اقتدار کے محلات کی گرتی چھت تلے دب کر مر جائیں گے اور لوگ انہیں قبرستان لے جانے سے بھی انکاری ہونگے ۔ بہرحال بات اتنی ہے کہ یہ سیاست دان محض شخصیات ہیں اور سیاسی نظام یا جمہوریت نہیں کہ جسے ناکام قرار دے کر فوج اور اس کے ذیلی اداروں کو حکومت سنبھالنے کی ناجائز ترغیب دی جائے ۔ کراچی میں رینجرز کی کارروائیوں نے جو عام شہریوں کے لیے امید کی فضا پیدا کی ہے چند لوگوں نے اسے جمہوریت کی ناکامی اور فوجی آمریت کی ضرورت سے تشبیہ دی ہے ۔ ایسی سوچ رکھنے والوں کی عقل پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے ۔
” سیات نہیں ریاست بچاﺅ “ کی پڑیا بیچنے والے ایسے لوگ ایک بار پھر اپنا ٹھیلہ سجانے پاکستان آرہے ہیں ۔ تحریک انصاف کی ایک خاتون لیڈر نے سماجی ویب سائٹ پر اپنے ایک پیغام میں نیا پاکستان کا ایک نیا خاکہ پیش کیاہے ۔ ٹو ئیٹر پر ایک پیغام میں انھوں نے کہا کہ دہشت گردوں ، دھوکہ بازوں اور ملک لوٹنے والوں کے خلاف کاروائی کے لیے فوج کے پاس یہ بہترین وقت ہے ۔ یہ پیغام انھوں نے فوج کے ترجمان کو بھی بھیجا ۔ یقینا سب سیاسی خواتین ایسا نہیں سوچتی ۔ پارٹی لیڈر کی سفارش پر مخصوص نشستوں کے لیے کوشاں خواتین میں ایسی سیاسی بالغ بھی ہیں جنہیں اپنی سیاست اور عوامی مینڈیٹ پر ناز ہے ۔وہ پرائے باغ میں اقتدار کا پھل ٹوٹ کر جھولی میں کرنے کا انتظار کرنے کی بجائے اپنے زور بازو اور سیاسی مشقت سے اپنا باغ لگانے کا عزم اور صلاحیت رکھتی ہیں ۔ فوج کو تمام حکومتی کام کرنے کی ترغیب دینے والے سیاست دان دراصل اپنی سیاسی قائدانہ صلاحیتوں پر خود ہی عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں ۔ یہ وہ موقعہ پرست اور سیاسی مردانگی سے عاری شخصیات ہوتی ہیں جو جمہوری عمل اور اقتدار میں آنے کے لیے مخصوص نشستوں کی محتاج رہتی ہیں ۔ ” ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ آئے چوکھا “۔ مخصوص نشستوں پر براجمان یہ سیاسی شخصیات ان سیاسی کارکنوں کی قربانیوں کی تاریخ پر ایک کالا دھبہ ہیں جنھوں نے پاکستان کی خواتین کے حقوق اور جمہوریت کی خاطر سڑکوں پر جدوجہد کی اور جیلیں کاٹیں ۔ نہر والے پل پر بیٹھ کر اقتدار کے ماہی کا انتظار کرنا انکا مشغلہ بن گیا ہے ۔ آخر فوج کو تمام حکومتی نظام سنبھالنے کی ترغیب دینا اور اپنا پیغام فوج کے ترجمان کو بھی بھیجنا اور کیا معنی رکھتا ہے ۔ ایسے پیغامات کی بروقت حوصلہ شکنی کرنا انتہائی ضروری ہے ۔ فوج کو حکومت کا نظام سنبھالنے کی دعوت عام سے ادارے کی عزت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا ۔ بلکہ جنرل راحیل شریف جیسی پیشہ ور شخصیات کے لیے ایسی سیاسی تجاویز ادارے کی توہین کے مترادف ہیں ۔ ایک پیشہ ور سپاہی نشان حیدر جیسے عظیم ترین اعزازات کا رکھوالا اور وارث ہوتے ہوئے اس عزت اور مقام کو چند بدعنوان اور گھٹیا سیاسی کرداروں کی ناکامیوں پر قربان نہیں کر سکتا ۔ ایسے میں فوج کے ترجمان کو بھی ایسے سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کی حوصلہ شکنی کرنا چاہیے جو یہ سمجھتے ہیں کہ جنرل راحیل شریف فوجی مداخلت کی تجاویز پر غور بھی کرتے ہونگے ۔ سیاسی اور جمہوری نظام پر بے اعتمادی پیدا کرنے والی چند دوسری قوتیں وہ ہیں جو اس سیاسی نظام کو ” مغربی جمہوریت “ ہونے کا طعنہ دیتی ہیں ۔ ان میں کچھ مذہبی حلقے اور خفیہ ادارے کے چند ریٹائرڈ فوجی سابق سربراہان شامل ہیں جو ان مذہبی حلقوں کو جمہوریت اور سیاسی نظام کے خلاف بخوبی استعمال کرتے رہے ۔ سابق فوجی افسران پر مشتمل یہ گروہ بڑے منظم انداز میں خود کو اس احتساب سے بچاتے رہے جس کی توقع پر نئی منتخب جمہوری حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد کی جاتی رہی ۔ اس کے علاوہ ہر منتخب حکومت کو اپنی ریشہ دوانیوں کے ذریعے دباو¿ میں رکھنے کا کام بھی یہ بخوبی کرتے رہے جس میں انہیں مذہبی اور شدت پسند تنظیموں کی مدد بھی حاصل رہی ۔ ان شخصیات نے ان خفیہ معلومات کا سیاست دانوں کے خلاف میڈیا کے ذریعے خوب استعمال کیا
جو انہوں نے باوردی نوکری کے دوران ریاستی راز کی صورت حاصل کیں۔ مگر اب شاید فوج اور فوج کے سربراہ کے لیے ان عناصر کی چاپلوسانہ اور عیارانہ سازشوں کا حصہ بنا ممکن نہ ہو گا ۔ سیاست دانوں کے احتساب کا علم اٹھانے والوں کو کالوں کے ساتھ خاکی بکرے بھی قربان کرنا ہونگے ۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر بطور قوم ہم سیاسی زیرو پوائنٹ پر کھڑے ہونگے ۔
رینجرز کی کارروائی سے عوام کی بڑھتی ہوئی توقعات پر پورا اترنے کے لیے بلا تفریق احتساب نہ ہوا تو سیاسی نظام اور فوج کے ادارے کی ساکھ دونوں متاثر ہونگی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ رینجرز قانون کے دائرے میں رہ کر تمام کاروائیاں کریں مگر خود کو فوج کو جوابدہ ظاہر کرنے کی بجائے قانون کے مطابق وزارت داخلہ کا ادارہ ظاہر کریں۔
رینجرز کی کارروائی اور اس بارے میں کورکمانڈروں کو بریفنگز کا رجحان قانونی حلقوں میں بہت سے خدشات پیدا کر رہا ہے ۔لگتا ہے کہ سیاسی نظام کا زخمی جسم سڑک کنارے پڑا ہے ۔ سیاسی گدھ لاش نوچنے کے لیے منڈلارہے ہیں ۔ ایک غیرت مند شکاری کبھی کسی اور کاشکاریا مردار نہیں کھاتا ۔سیاست دان ہمیشہ اپنے اور عوام کے زور بازو سے اقتدار کا شکار کرتا ہے جبکہ سیاسی گدھ کی نظر کسی اور کے چھوڑے ہوئے شکار پر ہوتی ہے۔ اقتدار کا مردار کھانے والے یہ سیاسی گدھ ایک بار پھر پاکستان کی تاریخ دوہرانا چاہتے ہیں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024