موجودہ نظام کی مکمل ناکامی کے متعلق پاکستان کی اکثریت مکمل طور پر قائل ہوچکی ہے اور اس نظام میں رہ کر ملک کے غریب عوام کو حقوق‘ انصاف اور سہولیات کی دستیابی تقریباً ناممکن تصور کی جارہی ہے۔ نظام کی تبدیلی کی بات تحریک استقلال نے اپنے 1979ء کے منشور میں کی تھی لیکن اس وقت اکثر سیاسی جماعتوں نے اسے مسترد کردیا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب وہی جماعتیں اس بات کی مکمل طور پر قائل ہوچکی ہیں کہ نظام کی تبدیلی کے علاوہ پاکستان ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتا اور عوام کا معیار زندگی بلند نہیں کیا جاسکتا۔
نظام کی تبدیلی کی جب بات کی جاتی ہے تو مختلف آراء سامنے آتی ہیں اور تحریک انصاف کے عمران خان کی جانب سے صدارتی نظام کی بات بھی کی جاتی رہی ہے۔ میرے خیال میں متناسب نمائندگی کا نظام ہی بہترین ہے جس میں پارٹی کے انتخابی نشان کو ووٹ ملتا ہے اور سیاست میں سے دولت کا عنصر مکمل طور پر ختم ہوسکتا ہے۔ متناسب نمائندگی کے نظام میں کوئی بھی ووٹ ضائع نہیں ہوتا اور جس پارٹی کو ملک بھر سے جس شرح سے ووٹ ملتے ہیں‘ اسی شرح سے اسے قومی اسمبلی میں نشستیں ملتی ہیں اور مقامی سطح پر ہر حلقے میں چند خاندانوں کی ازلی اجارہ داری سے بھی چھٹکارا ملے گا۔ متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہونیوالے الیکشن میں سیاسی جماعتوں کا فرض بنتا ہے کہ اپنے دیرینہ نظریاتی کارکنوں کو اسمبلیوں میں بھیجیں اور عام سیاسی کارکن کو آگے لایا جائے اس کے لئے الیکشن کمیشن کو زیادہ فعال کردار ادا کرنا ہوگا اور سیاسی جماعتوں کو ذاتی جاگیر کے طور پرچلانے کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی۔
سیاسی جماعتوں پر ایک خاندان کی چھاپ جب تک ختم نہیں ہوگی اس وقت تک حقیقی جمہوریت اور اس کے ثمرات سے ملک مستفید نہیں ہوسکتا۔ اس وقت تو تمام بڑی سیاسی جماعتوں میں مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔ نانا کے بعد نواسی اور بھائیوں کے بعد ان کی اولادوں کو ہی قیادت مل سکتی ہے۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور ساتھ ہی ساتھ انتخابی اخراجات کی مقررہ حد سے زیادہ کے اخراجات پر آج تک کوئی ایکشن نہیں لیا گیا جس کے باعث سیاست غریب تو کجا متوسط طبقے کی پہنچ سے دورہوچکی ہے اور اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کو سخت ترین اقدامات کرنے ہوں گے۔
نظام کی تبدیلی سے مراد صرف انتخابی نظام نہیں ہوسکتا۔ اس میں نئے انتظامی صوبوں کا قیام بہت ضروری ہے۔ دنیا بھر میں آبادی میں اضافے کی شرح سے خودکار نظام کے نئے صوبے بنتے رہتے ہیں لیکن کہیں کوئی سیاسی شعبدہ بازی نہیں ہوتی لیکن پاکستان میں صوبوں کے نام لسانیت کی بنیاد پر ہونے کی وجہ سے نئے صوبوں کے قیام کو بھی لسانی رنگ دیا جاتا ہے اسی لئے یہ اہم ترین معاملہ متنازع بنادیا گیا ہے حالانکہ پاکستان کی نسبت بہت کم آبادی والے ملکوں میں درجنوں صوبے ہیں۔
پاکستان میں فوری طور پر ہر ڈویژن کو انتظامی صوبہ بنادیا جائے اور صوبوں کا نام کسی بھی صورت میں لسانیت کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہئے۔ ہر انتظامی صوبے کا اپنا ہائی کورٹ بنایا جائے اور سپریم کورٹ کے ہر انتظامی صوبے میں ڈویژن بنچ قائم کئے جائیں جہاں کم از کم ہفتے میں 2 دن سپریم کورٹ کے ججز سماعت کریں۔ ہر یونین کونسل کی سطح پر عدالتوں کا قیام ہونا چاہئے اور ہر ضلع میں متعلقہ ہائی کورٹ کا ڈویژن بنچ تشکیل پائے۔ اس وقت پاکستان میں انصاف کی فراہمی تقریباً ناممکن بنادی گئی ہے اور مقدمات میں 3 نسلوں کے بعد بمشکل فیصلے ہوتے ہیں اور ان فیصلوں کے حصول کے لئے مدعی کو اپنی جائیدادیں فروخت کرنی پڑتی ہیں۔ صادق آباد میں رہنے والے عام آدمی کو چھوٹے چھوٹے کام کے لئے بسوں میں 12 گھنٹے کا سفر طے کرکے لاہور جانا پڑتا ہے اور پھر سماعت کے بغیر اگلی تاریخ دے دی جاتی ہے۔ انصاف کے موجودہ نظام میں تبدیلی کے لئے ججوں کی تعداد‘ عدالتوں کی تعدا د میں فوری طور پر اضافہ بہت ضروری ہے اورمجوزہ نظام سے کسی حد تک عام آدمی کو اس کی دہلیز پر انصاف کی فراہمی ممکن ہوسکے گی۔
ہرڈویژن کو انتظامی صوبہ قرار دیکر اس میں اپنا پولیس نظام تشکیل دینا بہت ضروری ہے۔ موجودہ صوبے رقبے کے لحاظ سے اس قدر بڑے ہیں کہ پولیس سے متعلق عام آدمی کی درخواست متعلقہ آئی جی تک پہنچانا جوئے شیرلانے کے مترادف ہے۔ ہر ڈویژن کو انتظامی صوبہ بنانے سے عام آدمی کی پولیس کے اعلٰی ترین افسران تک نہ صرف رسائی آسان ہوجایگی بلکہ چھوٹے چھوٹے انتظامی یونٹوں میں امن و امان کا قیام زیادہ آسان ہوجائے گا۔ اسی طرح ہر انتظامی صوبے کی اپنی اسمبلی ہونے سے مقامی مسائل کے بہتر حل کے لئے موثر قانون سازی نہایت آسان ہوگی اور ہر انتظامی صوبہ مالی لحاظ سے خود کفیل ہونا چاہئے تاکہ وہ اپنے علاقے میں آزادانہ ترقیاتی کام کرانے کے ساتھ ساتھ عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی ممکن بناسکے۔ہمارے اکثر دانشور دیگرترقی یافتہ ممالک کی ترقی کی مثالیں دیتے ہیں لیکن ان ممالک کے ترقی یافتہ ہونے کے اصل اسباب یہاں رائج کرانے کے لئے کوئی بھی مخلص نہیں۔
بلدیاتی نظام کے متعلق ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے کہ بلدیاتی انتخابات ملک بھر میں ہر صورت اپنے مقررہ وقت پر ہوں اور خدانخواستہ جنگی حالات میں بھی حکومت کو بلدیاتی نظام روکنے کا اختیار حاصل نہیں ہونا چاہئے۔ بلدیاتی اداروں کو مالی و انتظامی خودمختاری دینا بہت ضروری ہے۔ وفاق کے پاس صرف 4 محکمے وزارت خزانہ‘ خارجہ ‘ مواصلات اور وزارت داخلہ ہونی چاہئے باقی تمام امور انتظامی صوبوں کے سپردکئے جائیں اور صوبے بھی اسی طرح گنتی کے چند امور اپنے پاس رکھ کر باقی تمام امور مقامی بلدیاتی حکومتوں کے سپرد کریں اور بلدیاتی حکومتوں کو اپنے اپنے علاقے میں ترقیاتی کام‘ بنیادی سہولتوں کی فراہمی سمیت زیادہ سے زیادہ اختیارات تفویض ہونے چاہئیں۔ دنیا بھر میں عوام کے بنیادی مسائل ان کی دہلیز پر بلدیاتی نظام کے تحت حل ہوتے ہیں لیکن یہاں الٹا نظام ہے۔ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں قانون سازی کے بجائے بلدیاتی امور میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں کیونکہ مالی اختیارات صرف بلدیاتی معاملات میں ہی حاصل ہوتے ہیں اور ٹھیکوں میں کمیشن کی غرض سے بلدیاتی امور اراکین پارلیمنٹ نے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں جس کے باعث ملک کا سارا نظام درہم برہم ہوچکا ہے۔
سرکاری ملازمتوں کے لئے پبلک سروس کمیشن کے ساتھ ساتھ این ٹی ایس کے اداروں کو ایسا شفاف اور بہترین بنایا جائے کہ کسی بھی صورت میں میرٹ پر پورا اترنے والے نوجوانوں کی حق تلفی ممکن نہ ہوسکے اور کسی بھی سطح کے عوامی نمائندے کے پاس ملازمتوں‘ تعلیمی اداروں میں داخلوں کا کسی صورت کوٹہ نہیں ہونا چاہئے اور ہر معاملے میں میرٹ کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ جب تک اہل‘ باصلاحیت‘ عام پڑھے لکھے‘ ہنرمند نوجوان کو میرٹ پر تعلیمی اداروں میں داخلوں اور ملازمتوں میں اسکا حق نہیں ملتا اس وقت تک سرکاری اداروں کے ماحول اور ان کی کارکردگی میں بہتری ممکن نہیں۔ سرکاری ملازمتوں پر براجمان ایسے افراد کے خلاف سخت کارروائیوں کا آغاز بہت ضروری ہے جو کسی بھی قسم کے جرائم میں ملوث ہیں۔ پورے ملک کے نظام میں موجود خامیوں کی نشاندہی اور ان کے فوری خاتمے کیلئے انقلابی اقدامات بہت ضروری ہیں اور اسی میں ملک کی ترقی و عوام کی خوشحالی کا راز مضمر ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024