2018 میں عالمی ساہو کاروں کا ہمیں دیئے گئے قرضوں کا ریلیف بھی ختم ہونیوالا ہے۔ سی پیک کے 46 ارب ڈالر کے سارے منصوبے قرضہ ہی تو ہیں۔ ہم کسی کے پیسے سے اپنے گھر میں کمرہ تعمیر کروا لیں تو وہ کمرہ ہماری ملکیت نہیں ہو جاتا جسکے پیسے سے بنا ہو وہ اس کمرے میں رہنے کا استحقاق بھی رکھتا ہے جب تک اس کا ادھار واپس نہیں کردیا جاتا۔ ایف آر ڈی ایل ایکٹ پر عملدرآمد مذاق بن چکا ہے 60 فیصد کی حد کب کی پار کی جا چکی ہے۔ حکومت مارچ 2017 تک 24.148 کھرب روپے کے اندرونی و بیرونی قرضوں کا بوجھ تسلیم کر چکی ہے۔ ن لیگ نے چار سال میں 12 ارب ڈالر کے قرضے واپس جبکہ 35 ارب ڈالر کے قرضے حاصل کئے۔ قرضے اتار کر بھی قرضے کم نہیں زیادہ ہوتے جا رہے ہیں قرض کے بل پر زندگی گزارنے کا چلن پکا ہو جائے تو پھر قرض بوجھ نہیں رہتا۔ گناہ بڑھتے چلے جائیں تو احساس گناہ مٹ جاتاہے۔ پچھلے ایک سال کے مقابلے میں کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ تین گناہ ہوگیا ہے صرف جولائی میں خسارے میں دو ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ تیز رفتار خسارہ ہمیں جلد یا بدیر آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر سوالی بنا کر کھڑا کر دے گا۔ 2013 سے اب تک کرنٹ اکائونٹ خسارے میں چل رہا ہے سیاسی اجتماعات میں ایک دوسرے کی دل کھو ل کر مذمت اور درگت بنائی جا رہی ہے۔ اکانومی پر کوئی بات نہیں کرتا۔ ہمارے پاس دو راستے ہیں کرنسی کو ڈی ویلیو کردیں یا پھر خوراک بیچ کر ادھار مانگتے چلے جائیں۔
دیا میر بھاشا ڈیم کی لاگت 894 ارب روپے ہے جبکہ مختصر رقم 21 ارب روپے ہے اتنی رقم میں تو ڈیم کیلئے مٹی ہی ادھر اُدھر ہوگی بھلا ڈیم کب بنے گا؟ 70 سال سے پاکستان کے ہر شہر کی گلیاں سڑکیں ہی توڑی اور بنائی جا رہی ہیں۔ پیسے کی اتنی کمی ہے کہ عباسی حکومت یا انکے بعد آنیوالی حکومت کو کشکول لیکر واشنگٹن جانا پڑیگا۔ بیل آئوٹ پیکج کے بغیر ہانڈی نہیں چڑھ سکتی۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں 4.2 ارب ڈالر کمی کے بعد ہم بارڈر لائن پر کھڑے ہیں۔ برآمدات 21 ارب ڈالر اور درآمدات 52 ارب ڈالر کی ہوں گی تو ہمیں ترقی یافتہ کون سمجھ سکتا ہے۔ ایمنسٹی سکیموں نے خزانے کا منہ کتنا بھرا ہے؟ سرکاری کارپوریشنوں کا سالانہ خسارہ 500 ارب ہے ایوان صدر، وزیراعظم ہائوس، سیکرٹریٹ، وزارتوں، ڈویژنوں، مشیروں اور خصوصی معاونوں کے اخراجات غیر ترقیاتی نہیں تو اور کیا ہیں۔ کیا کسی بھی گھر میں ہر روز اعلیٰ کھانے پکنے سے اس گھر کی ترقی ممکن ہوتی ہے۔ ترقی تو پیسہ بچانے اپنے اثاثوں پلاٹ گھر تعلیم سے ممکن ہوتی ہے بچوں کی تعلیم پر اخراجات ترقیاتی بجٹ کہلاتا ہے۔ پاکستان کی ترقی یہ ہے کہ اس کا ہر شہری خواندہ اور زیادہ تر لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں ان کا رہائشی معیار بلند ہو۔ 2015-16 تک بجٹ کا خسارہ ڈھائی کھرب روپے تھا پائوں تو شروع ہی سے چادر سے باہر نکلے ہوئے ہیں۔ ترقیاتی پروگرام کے حوالے سے وزارت منصوبہ بندی اور بجٹ دستاویز کے اعداد و شمار میں 29 ارب روپے کا فرق ہے۔ وزارت منصوبہ بندی کے نزدیک ترقیاتی بجٹ 30 جون 2017 تک 744.12 ارب ہے جبکہ بجٹ میں دکھائی رقم 715.1 ارب روپے ہے جون 2017 میں غیر ملکی کمرشل بینکوں سے ہائی ریٹ آف ریٹرن پر لئے گئے ڈیڑھ ارب ڈالر کے قرضوں نے ماہرین معیشت کے کان کھڑے کر دئیے۔ 2017-18 کا ترقیاتی پروگرام 1001 ارب روپے کا ہے ۔ جو 2016-17 سے 40 فیصد زیادہ ہے۔ 30 ارب تو عباسی حکومت نے ن لیگ کے ارکین قومی اسمبلی پر نچھاور کر دئیے ہیں۔ 2018 کے انتخابات میں ووٹروں کو منہ بھی تو دکھانا ہے۔ ترقیاتی بجٹ میں یکدم 40 فیصد اضافے کیلئے بھاری بھرکم رقم کہاں سے آئیگی۔ ترقیاتی پروگرام پر عملدرآمد کے لوازمات کیسے پورے ہونگے؟ چار سال کے دوران تو ہر سال ترقی کیلئے مختص رقم میں شارٹ فال کا سامنا رہا ہے۔ ہر سال ایف بی آر کے ریونیو میں بھی شارٹ فال دیکھنے میں آتا ہے۔ خیر ہمارے لئے فکر کی بات اس لئے نہیں کہ ہمارے سر پر چین، ایشیائی ترقیاتی بنک، اے ڈی بی اور ورلڈ بنک، آئی بی آر ڈی اور آئی ڈی اے کا ہاتھ ہے۔ بجٹ کیمطابق پراجیکٹ لونز صوبوں کے کام آتے ہیں۔ پلاننگ کمیشن کی کرسی اعلیٰ پر اب سر تاج عزیز براجمان ہوئے ہیں۔ جاری منصوبوں کی بقایا لاگت 6.6 کھرب روپے ہے جبکہ نئے منصوبوں کی لاگت 1.3 کھرب روپے ہے۔ پی ایس ڈی پی کا سائز ایک کھرب روپے ہے یوں بڑے منصوبے 7 سے 8 سال میں مکمل ہوں گے۔
وزیراعظم عباسی نے کُرسی پر بیٹھتے ہی وزیر خزانہ کے اختیارات پر چھری چلائی۔ شماریات ڈویژن کو وزارت خزانہ کے انتظامی کنٹرول سے آزاد کرایا‘ انکے زیراختیار شماریات ڈویژن کے اعدادوشمار اور آزاد اداروں کے اعدادوشمار میں فرق صاف دکھائی دینے لگا۔ انہوں نے کچھ ریٹائرڈ لوگوں کو اپنے مشاورتی بورڈ کی رکنیت دے رکھی تھی۔ تاہم ان کے ذریعے اپنے من پسند اعدادوشمار کی تشہیر کرواتے رہیں۔ ایس ای سی پی نے تو پاناما کیس جیتنے کیلئے اپنے اعدادوشمار کو اوپر سے نیچے کردیا۔ ظفر حجازی نے یہ بھی پرواہ نہ کی کہ وہ کس کے بیٹے ہیں اور انہیں عدالت‘ جیل اور ہسپتال جاتے ہوئے ماسک سے منہ کو چُھپانا اور گردن کو نیچے گرانا پڑیگا۔ چار سال سٹیٹ بینک کے درآمدات اور برآمدات کے اعدادوشمار شماریات بیورو کے اعدادوشمار سے مختلف پائے گئے حالانکہ دونوں ہی ٹاپ کے سرکاری ادارے ہیں۔ شماریات والوں نے ڈار صاحب کے چہرے پر خوشی بکھیرنے کیلئے ترقیاتی اخراجات کو اونچا اور جاری اخراجات کو نیچا رکھا۔ مالی سال 30 جون کو ختم ہوتا ہے اور بجٹ جون کے دوسرے ہفتے میں لایا جاتا ہے گویا دو تین ہفتے کے اعدادوشمار اندازوں یا خواہشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ 2017-18ء کا بجٹ تو رمضان کی آڑ لے کر مئی میں ہی پیش کردیا گیا یعنی نماز عصر کو نماز ظہر کے ساتھ ملا دیا گیا۔ 4 جون 2018ء تک 9 ماہ میں حکومت کون سا تیر مار لے گی۔ 2016ء میں حکومت پاکستان کے اخراجات اسکی آمدنی سے 662 ملین ڈالر زیادہ تھے اور اب آمدنی سے تین گنا زیادہ ہیں۔ کرنٹ اکائونٹ کے خسارہ کا اندازہ سالانہ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف نے اپنے اکتوبر 2016ء کے ریویو میں جون 2017ء تک کیلئے خسارے کا اندازہ 47 ارب ڈالر لگایا تھا لیکن آنکھیں کھول کر دیکھا تو 12 ارب ڈالر تھا۔ اتنا خسارہ تو 2020ء تک متوقع ہوسکتا تھا۔
حکومت کا کہنا ہے سی پیک کیلئے بھاری مشینری کی درآمد سے امپورٹ بل بڑھا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اس مشینری سے پیداوار بڑھے گی اور پھر برآمدات بڑھنا شروع ہوں گی۔ منی لانڈرنگ اور ٹیکس ایمنسٹی سکیم کی موجودگی میں پاکستان سے ٹیکس چوری اور کرپشن کیسے ختم کی جاسکتی ہے؟ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء ٹیکس چوری کی رقوم اور کالے دھن کو سفید کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ بینکوں کے ذریعے پاکستان منتقل کی گئی رقوم کے بارے میں ایف بی آر یا ایف آئی اے سوال نہیں کرسکتے۔ 3 سے 4 فیصد زیادہ رقم دے کر کوئی بھی ٹیکس چور منی ایکسچینج ڈیلر سے اپنی باہر سے لائی گئی رقوم کو اپنے نام کروا سکتا ہے۔ منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری ہر ملک کا مسئلہ ہے۔ پانامہ لیکس نے ہمیں ہی نہیں بہت سارے لوگوں کو بے نقاب کیا۔ بدقسمتی سے منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کی بیماری نے ہمیں دوسرے ملکوں سے کچھ زیادہ ہی مجروح کیا ہے۔ نیب‘ ایف آئی اے اور ایف بی آر میں شفافیت ہوتی تو جے آئی ٹی کی ہمت کبھی دیکھنے میں نہ آتی۔ کرنٹ اکائونٹ کے خسارے کا مطلب قرضے واپس کرنے کی صلاحیت کا کم ہونا ہے۔ امریکہ سے تعلقات میں تنائو کے باعث آئی ایم ایف کا موڈ بھی خراب ہوسکتا ہے۔ 1998ء کی مردم شماری سے اب تک آبادی میں 57 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ آبادی میں اضافے کی شرح 2.4 فیصد سالانہ ہے اس شرح سے 30 سال سے کم عرصے میں پاکستان کی آبادی دوگنی ہوجائیگی۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024