1995ء میں شوکت خانم میموریل ہسپتال کے افتتاح کے موقع پر عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ وہ کبھی سیاست کے میدان میں قدم نہیں رکھیں گے کیونکہ وہ اپنے آپ کو سماجی کاموں کیلئے وقف کر چکے ہیں۔ یقیناً وہ درست کہہ رہے تھے کیونکہ انہوں نے ہسپتال کی افتتاحی تقریب میں کسی حکومتی شخصیت اور کسی بھی سیاسی پارٹی کے بڑے سیاستدان کو مدعو نہیں کیا تھا تاہم یوسف صلاح الدین، جان جمالی جیسے دوسری صف کے سیاستدان عمران خان کے ذاتی دوست یا ایچی سن کے کلاس فیلو کی حیثیت سے موجود تھے۔ مگر مجھے شوکت خانم میموریل ہسپتال کی چندہ مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والوں میں کئی ایسے افراد اور پریشر گروپ ضرور نظر آتے تھے جو کسی خفیہ ہاتھ کے پُراسرار ایجنڈوں پر عمل پیرا ہونا باعثِ اعزاز خیال کرتے تھے اور اس کے بدلے انہیں کچھ نہ کچھ مالی اعانت مل جاتی تھی۔ بہرحال عمران خان سے مشورہ کئے بغیر ان کے پُراسرار حمایتیوں نے شوکت خانم میموریل ہسپتال کے افتتاح کے اگلے روز فورٹریس سٹیڈیم لاہور میں ایک بہت بڑے ہجوم کو اکٹھا کر لیا اور عمران خان کے بارے میں بار بار یہ نعرے بلند کئے گئے ’’شوکت خانم کا احسان، عمران خان عمران خان‘‘ اور بہت سارے مقررین نے عمران خان کو پاکستان کا نجات دہندہ قرار دیا اور اُن سے مبہم انداز میں سیاست میں آنے کو کہا مگر اُس وقت انتہائی کم گو اور شرمیلے عمران خان نے اُن کی تعریف اور ستائش کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور صرف یہ کہا کہ وہ شوکت خانم کی فنڈ ریزنگ کیلئے اپنی زندگی وقف کر چکے ہیں اور اب وہ پہاڑوں کی تنہائی میں رہنا چاہتے ہیں اور کچھ وقت شکار کھیلنے میں گزاریں گے۔ اِن دنوں وہ ہمیں سادہ لباس اور اپنی عزت نفس کے تحفظ کیلئے ڈاکٹر علی شریعتی کی باتیں بتاتے تھے۔ ایک دفعہ وہ کوئٹہ سے اسلام آباد آئے تو میں اُنہیں لینے ائر پورٹ پہنچا اور گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کیلئے کہا تو انہوں نے کہا کہ میں تو فرنٹ سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھوں گا۔ میں نے کہا ایسا کس لئے؟ تو کہنے لگے ایران میں یہ رواج نہیں ہے کہ ڈرائیور گاڑی چلائے اور صاحب پچھلی نشست پر براجمان ہو۔ وہ بار بار فنڈ ریزنگ کیلئے عاشق حسین قریشی کے ہمراہ اسلام آباد تشریف لاتے اور شوکت خانم ہسپتال کے رضاکاروں سے انتہائی نرمی، محبت اور عزت سے پیش آتے مگر ہجوم میں اگر کوئی اُن کے ساتھ چپکنے کی کوشش کرتا تو اس کا سخت بُرا مناتے۔
ایک دفعہ کراچی سے اسلام آباد تشریف لائے تو انہوں نے تھوڑی تھوڑی سیاسی باتیں شروع کر دیں اور وہ جنرل حمید گل اور جنرل مجیب الرحمن مرحوم سے ملنا شروع ہو گئے اور بار بار اقبال کے شعر کا یہ فقر دہراتے ’’ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مناجات‘‘ پتہ چلا کہ جسارت کے ایڈیٹر صلاح الدین کو شہید کر دیا گیا ہے اور عبدالستار ایدھی نے بھانڈا پھوڑ دیا کہ عمران خان اور مجھے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف سیاسی پریشر گروپ بنانے کیلئے مجبور کیا جا رہا ہے۔ سیاسی پریشر گروپ بنانے کے فلسفے کے داعی ہمارے انتہائی قابل احترام جنرل حمید گل صاحب تھے اور آج بھی وہ ایسا ہی سوچتے ہیں کہ حکومت کو سیدھی راہ پر رکھنے کیلئے سیاسی پریشر گروپس ہونے چاہئیں، چاہے وہ انتخابات میں حصہ نہ لیتے ہوں۔ انہی دنوں جنرل حمید گل صاحب نے قاضی حسین اور دوسری دینی جماعتوں کو اتحاد کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ عمران خان کو اپنا لیڈر بنا لیں تو قاضی حسین احمد مرحوم نے کہا کہ نواز شریف کو آئی جے آئی کا لیڈر بنانے کے بعد ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ قوم چاہے قبول کرے نہ کرے اب داڑھی والا لیڈر ہی دائیں بازو کی جماعتوں کی قیادت کرے گا لہٰذا اگر عمران خان سیاست کرنا چاہتے ہیں تو وہ شباب ملی کے سربراہ بن جائیں۔ انہی دنوں عمران خان نے جمائما گولڈ میئر سے شادی کر لی جبکہ ہم سب کا خیال تھا کہ وہ کرسٹینا بلکر سے شادی کریں گے کیونکہ وہ عمران خان کی وجہ سے نہ صرف مسلمان ہو گئیں بلکہ انہوں نے میڈیا اور ٹی وی کی گلیمریس زندگی کو مکمل خیر آباد کہہ دیا تھا اور آجکل وہ حجاب اوڑھتی ہیں اور اسلام کی حقانیت کی تبلیغ کرتی ہیں۔
میں نے انہی دنوں اپنے ساتھی شاہد پرویز گیلانی کے ساتھ مل کر عمران خان کو اپنے تعلیمی ادارے کے سالانہ فنکشن پر اسلام آباد میریٹ ہوٹل میں مدعو کیا۔ عمران خان سکردو میں تھے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کو مکمل یقین ہو گیا تھا کہ اسٹبلشمنٹ عمران خان کو آگے لا رہی ہے۔ پہلے تو عمران خان کی سکردو سے فلائٹ کو کینسل کیا گیا، میرے بار بار رابطے پر عمران خان 15 گھنٹے کا بائی روڈ سفر کرنے کے بعد اسلام آباد پہنچے تو وہ جونہی ہوٹل کے گیٹ پر آئے تو کچھ طلبہ و طالبات نے عمران خان وزیراعظم کے نعرے بلند کر دئیے لیکن پاس سے آصف زرداری (جو اس وقت محترمہ بے نظیر بھٹو کے سر چڑھے خاوند تھے) گزرے تو انہوں نے فوراً ایس ایس پی اسلام آباد میجر امتیاز کو حکم دیا کہ فنکشن بند کروائوں۔ آج تک ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ کس طرح ہوٹل کے اندر ایک پرائیویٹ کالج کی معمولی تقریب جس کی تمام ادائیگی ہوٹل انتظامیہ کو کر دی گئی ہے اچانک پولیس کی مدد سے تقریب کو زبردستی بند کرا دیا گیا اور تمام طلبہ و طالبات اور اُن کے ماں باپ کو ہوٹل سے زبردستی ڈی ایس پی جمیل ہاشمی کے ساتھ آئی پولیس فورس کی مدد سے نکال دیا گیا۔ ہم حیران اور پریشان ہیں کہ آج جمہوریت کے چیمپئن بنے آصف زرداری اس وقت کس قدر تنگ نظر تھے حالانکہ ہمارے طلبہ و طالبات کے والدین میں سے اکثر اعلیٰ ترین بیورو کریٹس تھے انہوں نے وفاقی وزیر داخلہ سے کالج کی تقریب کو روکنے کی وجہ پوچھی تو بس یہ بتایا گیا کہ بہت اوپر سے حکم ہے۔ میرے ساتھ برادرم اسلم خان اور فاروق فیصل خان عمران خان سے ملنے نسیم الرحمن کے گھر گئے جہاں وہ قیام پذیر تھے، دونوں نے عمران خان کو بار بار اصرار کیا کہ وہ پریس کانفرنس کریں اور پیپلز پارٹی کی حکومت سے پوچھیں کہ وہ کس طرح ایک پرائیویٹ کالج کی پرائیویٹ ہوٹل میں تقریب کو منعقد کرنے سے روک سکتے ہیں۔ کیا یہ جمہوریت ہے؟ مگر وہ صلاح الدین کے قتل اور عبدالستار ایدھی کے ڈر کر پریشر گروپ کا بھانڈا پھوڑنے اور (غالباً اس وقت ان کے سیاسی استاد جنرل حمید گل بھی جلال آباد گئے ہوئے تھے) وہ کسی قسم کا مذمتی بیان دینے پر تیار نہ ہوئے، بس یہ کہا کہ میں پریس میں ایک مضمون لکھوں گا اور اس میں ذکر کروں گا۔ میں نے بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑا ہم طالب علموں سمیت شوکت خانم ہسپتال لاہور چلے گئے وہاں تقریب کی اور وہیں پر معراج خالد مرحوم بھی عمران خان کو ملنے آ گئے اور انہوں نے کہا کہ عمران خان کی طرح میں بھی اس ملک کو بدلنے کا عزم اور ارادہ رکھتا ہوں مگر ایک تو میں بوڑھا ہوں اور دوسرا میری خاص پہچان نہیں ہے اگر تم یہ کام کرو تو تم پاکستان میں سے کرپشن اور ناانصافی کا خاتمہ کر دو گے۔ مگر عمران خان نے کہا میں تو نیشنل ایجوکیشن موومنٹ شروع کر رہا ہوں۔ عمران خان نے مجھے اِس کام کو راولپنڈی میں شروع کرنے کیلئے اپنی جیب سے ایک لاکھ روپے کا چندہ دیا مگر بعد میں عمران خان کے چمچوں نے خصوصاً نسیم الرحمن نے عمران خان کو تعلیمی تحریک کا آغاز کرنے نہ دیا ورگرنہ فتح اللہ گولن کے ترکی اور مسلمان ممالک میں قائم شدہ تعلیمی اداروں کے نوجوانوں نے ترکی میں فوجی آمریت اور سیکولر ازم کی جڑیں اکھاڑ کر پھینک دیں۔ اگر عمران خان ملک میں ہزاروں تعلیمی ادارے قائم کر دیتا تو آج اس کے پاس تربیت یافتہ پاسدارانِ انقلاب ہوتے نہ کہ Yuppies کا ہجوم ہوتا۔ عمران خان تعلیمی تحریک شروع کر رہا تھا کہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کا فاروق لغاری نے خاتمہ کر دیا اور معراج خالد کی کیئر ٹیکر حکومت نے یہ فیصلہ کرنے کی کوشش کی کہ نواز شریف چونکہ بینکوں کے نادہندہ ہیں لہٰذا وہ الیکشن لڑنے کے اہل نہیں ہوں گے تو پنجاب سے عمران خان لیڈر بن کر ابھرے گا۔ چنانچہ راتوں رات عمران خاں کے ارد گرد خش خشی ہیئر سٹائل رکھنے والے افراد نے تحریک انصاف بنا دی۔ نواز شریف نے عمران خان کو اتحاد کی پیشکش کرتے ہوئے تیس سیٹوں کی آفر دی اور لاہور میں تین سیٹوں پر ایڈجسٹمنٹ آفر کی مگر عمران خان کے ارد گرد اس کے برگر کلاس کے دوستوں نے عمران خان کو یہ آفر قبول کرنے سے منع کر دیا۔ میاں نواز شریف نے فاروق لغاری کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لی اور اسٹبلشمنٹ نے عمران خان کی سیاست کو آغاز ہی میں پری میچور ڈلیوری کرا دی تاہم عمران خان نے پاکستانی عوام میں کرپشن، ناانصافی اور میرٹ کی باتیں کر کے عوام کے شعور کو اُسی طرح بڑھایا جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے غریب مزدوروں اور ہاریوں کو جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا حوصلہ دے دیا آج یہی کام عمران خان نے کر دیا ہے اور کر رہا ہے، اُس کا نام، اس کا مقام، اس کا مرتبہ وزیراعظم سے بلند تر ہے وہ ساری دنیا میں ایک ہیرو کے طور پر جانا جاتا ہے مگر اس کے ساتھی اس کو ہیرو کے درجے سے گرانے میں لگے ہوئے ہیں جس طرح پیپلز پارٹی میں اقتدار کی ہوس رکھنے والوں نے بے نظیر بھٹو کو پاکستان آ کر بیک وقت اسٹبلشمنٹ اور طالبان کے سامنے کھڑا کروا کے شہید کروا دیا۔ آج عمران خان کے چاہنے والوں کو یہ معلوم کرنا ہو گا کہ وہ کون لوگ ہیں جو عمران خان کو اسٹبلشمنٹ کے لکھے ہوئے سکرپٹ پر چلاتے ہیں تاکہ فاسٹ باؤلر مسلسل ٹیسٹ میچ میں باؤنسرز اور بمپرز مارتا چلا جائے اور جب اس کا مسل پُل ہو جائے اُس کے ارد گرد بھیڑیے اس کی اٹھارہ سالہ سیاسی جدوجہد کا ثمر سمیٹنے کیلئے بے تاب ہیں۔ کیا اس ملک میں بھٹو، نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور عمران خان جیسے پاپولر سپورٹ والے وزیراعظم اسٹبلشمنٹ کو گوارا کر سکتی ہے؟ اسے تو شوکت عزیز، ظفراللہ جمالی اور چودھری شجاعت جیسی کٹھ پتلیاں چاہئیں۔ تحریک انصاف میں عمران خان کس کا نام پیش کریں گے۔ غور کریں کون بھٹو کے انداز میں عمران خان کے دھرنے میں پُرجوش تقریر کر کے عمران خان کی چمک کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38