چھوٹو گینگ کا معاملہ بالاخرتمام ہوا۔ چھوٹو نے پچھلے ہفتے 13ساتھیوں سمیت فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے اور 24 یرغمالی اہلکاروں کو بھی رہا کر دیا جو بخیر و عافیت اپنے ہیڈ کوارٹرز پہنچ گئے۔ ان جرائم پیشہ بدمعاشوں کے علاوہ 24خواتین۔ 44بچے اور 4 بزرگ بھی بحفاظت فوج کی تحویل میں آ گئے۔ ان بزرگوں کو شاید تاوان کیلئے پکڑ رکھا تھا۔ یہ شاندار کارنامہ پاک فوج نے سر انجام دیا۔ چھوٹو کے ہتھیار ڈالنے سے علاقے کے لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ ان کیلئے یہ کافی عرصہ سے دہشت کی علامت بنا ہوا تھا۔ ان کامال محفوظ تھا نہ عزتیں۔ لہٰذا لوگوں نے خوشی سے رقص کیا اور پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگائے۔ لوگوں کا پاک فوج پر اعتماد بڑھا لہٰذا انکی خوشی بالکل جائز تھی کیونکہ پاک فوج نے یہ اپریشن بڑے مختصر عرصے میں مکمل کیا اور وہ بھی بغیر کسی جانی نقصان کے۔ پاک فوج کی تعداد صرف200جوان بتائی جاتی ہے جنہیں رینجرز اور پولیس کے کچھ اہلکاروں کی مدد حاصل تھی۔ رینجرز نے علاقے کو گھیرے میں لیکر چوکیاں قائم کیں اور فوج نے اپریشن کیا۔ علاقے کے لوگوں کے مطابق کچا جمال کا علاقہ 9کلو میٹر طویل اور اڑھائی کلو میٹر چوڑا بتایا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں کیمطابق اس علاقے میں جرائم پیشہ لوگوں کے کئی مزید ٹھکانے موجود ہیں جن میں اندازاً 200 بدنامِ زمانہ لوگ دہشتگردی میں ملوث ہیں۔ ان میں سندھ،پنجاب اور بلوچستان کے اشتہاری ڈاکو ، بی ایل اے اور کا لعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے بہت سے مطلوب دہشتگرد بھی شامل ہیں۔ ان کیخلاف بھی پاک فوج نے کاروائی کر کے ایک ہفتے کے اندر علاقہ کلیر کردیا۔ یہ یقیناً فوج کا شاندار کارنامہ ہے۔
چھوٹو گینگ کے ہتھیار ڈالنے کے بعد کئی سوالات سامنے آتے ہیں۔ اصل صورتحال تو بہرحال مکمل تفتیش کے بعد ہی سامنے آئیگی لیکن ان چبھتے سوالات کا جواب کسی نہ کسی صورت سامنے آنا چاہیے۔ یہاں پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت پنجاب اور خصوصاًوزیر قانون جناب رانا صاحب زور و شور سے بیانات دیتے رہے ہیں کہ پنجاب میں کوئی نوگو ایریا نہیں ہے اور نہ ہی یہاں کسی قسم کے فوجی یا رینجرز اپریشن کی ضرورت ہے۔ رانا صاحب پنجاب میں ہر قسم کے اپریشن کے خلاف تھے ان کا اعلان تھا کہ پنجاب میں کوئی فرقہ وارانہ منافرت ہے نہ ہی کسی قسم کی دہشتگردی ہے بلکہ وہ تو ہر قسم کے دہشتگرد گروپس کی موجودگی سے بھی انکاری تھے۔ انکی نظر میں پنجاب پولیس ہر قسم کی دہشتگردی ختم کرنے کی اہل ہے لیکن کچے کے علاقے میں پہلے پولیس اور پھر فوجی اپریشن نے رانا صاحب کے بیانات کو غلط ثابت کر دیا۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ رانا صاحب کو جس پنجاب پولیس پر اتنا ناز تھا وہ اس اپریشن میں کیوں بری طرح ناکام ہوئی۔ اطلاعات کے مطابق چھ اضلاع کی 1600 پولیس کی نفری نے اپریشن ضرب آہن میں حصہ لیا۔ ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس تھے۔ 7اہلکار شہید ہوگئے۔24 اہلکاروںکو ڈاکووٗں نے گھیرا ڈال کر یرغمال بنالیا۔ 18دن ٹکریں ماریں لیکن ڈاکوئوں کا بال تک بیکا نہ کر سکے۔ کہاں گئے رانا صاحب کے اعلانات اور پولیس کی اعلیٰ کارکردگی؟ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پولیس نے اس سے پہلے بھی چھوٹو گینگ کے خلاف4اپریشن کئے لیکن نتیجہ وہی نکلا جو اب نکلا ہے۔ حکومت اور خصوصاً جناب رانا صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ پنجاب پولیس مکمل طور پر سیاسی بن چکی ہے۔ سفارشی بھرتیوں اوربرائے نام تربیت کایہی انجام ہوتا ہے۔ رانا صاحب کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ڈیرہ غازی خان میں پاٹا کا1,1,535مربع کلومیٹر کا علاقہ بھی مکمل طور پر نوگو ایریا ہے۔ یہاں نہ بی ایم پی موثرہے نہ تھانے فعال ہیں لہٰذا پورا علاقہ دہشتگردوں کی جنت ہے۔ یہاں کھوسے،لغاری، بزدار، قیصرانی، لنڈ، کھیتران، مزاری، گورچانی اور دریشک قبائل کے سردار مختار کل ہیں۔
یہاں تیسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی بھی ڈاکو گینگ بغیر سر پرستی کے کام نہیں کر سکتا ہے۔ یہ سر پرستی عام طور پر علاقے کے وڈیرے، سیاستدان اور پولیس والے کرتے ہیں۔ اس کیس میں بھی پولیس والوں کی کوشش تھی کہ چھوٹو زندہ نہ پکڑا جائے ورنہ پولیس سمیت کئی بڑی پاک باز ہستیوں کا راز فاش ہوجائیگا۔ اب تک کی میڈیا اطلاعات کے مطابق12سیاستدان چھوٹو کی سرپرستی کرتے تھے جن میں سے 4کا تعلق حکومتی پارٹی سے ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر تفتیش پولیس کے ہاتھ میں نہ دی گئی اور فوج نے خود تفتیش کی تو سرپرستی کا لنک حکومت پنجاب تک پہنچے گا۔یہاں یہ سوال بھی قابل غور ہے کہ آخر لیاری گینگ یا چھوٹو گینگ پنپتے کیسے ہیں؟ وہ کونسے حالات یا کون سے اشخاص ہوتے ہیں جو اچھے بھلے معصوم لوگوں کو جرائم کی دنیا میں جانے پر مجبور کر دیتے ہیں اور پھر سرپرستی کرکے انہیں اس مقام تک لے آتے ہیں جہاں وہ علاقے کے بادشاہ بن جاتے ہیں اور عوام کی زندگی عذاب بنا دیتے ہیں۔ انسانی خون بہانا شغل سمجھتے ہیں۔ سنا گیا ہے کہ چھوٹو بنیادی طور پر ایک شریف النفس انسان تھا۔ ایک معمولی سے ہوٹل پر کام سے ابتداء کی تو علاقے کے وڈیرے اور پولیس نے اتنا تنگ کیا کہ بالآخر وہ ڈاکو بن گیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہماری پولیس اور ہماری جیلیں انسانوں کو ڈاکو بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ بہرحال چھوٹو گینگ سے بغیر کسی جانی نقصان کے ہتھیار رکھوانا اور بقیہ علاقے کو دہشتگردوں سے کلیئر کرنا فوج کا قابل تحسین کارنامہ ہے جو قابل فخر ہے۔ امن کے قیام پر عوام نے جشن منایا۔ مٹھائیاں تقسیم کیں سیکورٹی فورسز کو خراجِ تحسین پیش کیا۔
جب سے وطن عزیز میں دہشت گردی کی لعنت شروع ہوئی ہے فوج وہ واحد ادارہ ہے جو دہشتگردی سے لڑ رہا ہے۔ وطن عزیز کی سلامتی کیلئے جانیں دے رہا ہے اور انشاء اللہ ایک نہ ایک دن ملک کو اس لعنت سے پاک کر دیگا۔ فوج کا اب تک کا سب سے بڑا کارنامہ ’’ضرب عضب‘‘ میں شاندار کامیابی ہے۔ جنگی اپریشن کے لحاظ سے فاٹا اور خصوصاً شمالی وزیر ستان بہت مشکل علاقے ہیں۔ Terrainاس قسم کی ہے کہ فوج کی نقل و حرکت بہت مشکل ہے۔ پھر ہارڈ کور دہشتگردوں کی موجودگی بمعہ بھاری ہتھیار فوجی اپریشن کو مزید مشکل بنا دیتی ہے لیکن پاکستانی فوج نے بغیر کسی بیرونی امداد کے تنہا اپریشن ضرب عضب شروع کیا اور اللہ کے فضل و کرم سے شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔ اپریشن کا آخری مرحلہ اب شوال میں شروع ہے جہاں 800 مربع کلو میٹر کا علاقہ کلیئر کرا لیا گیا ہے۔ افغانستان کی سرحد کیساتھ دہشتگردوں کی کچھ پاکٹس باقی ہیں جنہیں کلیئر کیا جا رہا ہے۔ ضرب عضب پر اب تک اندازاً230بلین روپے کی خطیر رقم خرچ ہو چکی ہے جو پاکستان نے اپنے وسائل سے خرچ کی۔ دہشتگردی کے علاوہ وطن عزیز اس وقت کرپشن کا شکار ہے۔ بڑے بڑے سیکنڈلز سامنے آرہے ہیں۔ فوج اس کرپشن سے بھی غافل نہیں۔ آرمی چیف نے ٹھیک کہا ہے کہ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑے بغیر ملک میں پائیدار امن قائم کرنا ممکن نہیں۔اس سلسلے میں بھی فوج نے اپنے سنئیر افسران کیخلاف احتسابی کاروائی کر کے فرض شناسی اور حُب الو طنی کی ایک شاندار مثال قائم کی ہے۔ ہمارے اقتدار پسند حکمرانوں میںیہ جذبہ کب بیدار ہوگا؟
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024