ہم قصائی کے انٹرویو کی تیاری میں اس کی دُکان پر کھڑے تھے۔ عید میں دو دن باقی تھے۔ اچانک ایک شخص بھاگتا ہانپتا دُکان پر پہنچا اور چلایا ”جلدی کریں میری گاڑی میں بکرا پڑا ہے۔ اسے کچھ ہو گیا ہے۔ اس پر جلدی سے چھڑی پھیر دیں۔ قصائی نے تھوڑی بحث کے بعد چھری پکڑی اور اس کے ساتھ ہو گیا۔ ہمارا کیمرہ مین بھی اس کے پیچھے چل دیا چند قدم دور جا کر بکرے کے مالک نے ایک پرانی چھوٹی گاڑی کا دروازہ کھولا تو ایک بکر نڈھال ہوا پچھلی سیٹ پر ہلکا سا منمنایا قصائی اور مالک نے بمشکل اسے گاڑی سے گھسیٹ کر سڑک پر پر لٹایا اور جونہی گردن پر چھری پھیرنے کے لئے ہاتھ اٹھایا تو اس کا ہاتھ ہوا میں ہی سکت ہو گیا۔ مالک چلایا، استاد جی پھیر دیں“۔ مگر قصائی نے بکرے کی ساکت آنکھوں کی طرف اشارہ کیا اور بولا ”بھائی صاحب یہ مر چکا ہے“۔ یہ کہہ کر قصائی نے ہمارے کیمرہ مین کی طرف دیکھا اور اپنی بات دہرائی۔ ”یہ مر چکا ہے“۔ بکرے کے مالک نے بھی کیمرہ مین کو دیکھا جس نے ریکارڈنگ جاری رکھے ہوئے تھی۔ بکرے کے مالک نے اپنے سر پر ہاتھ پھیرا اور زمین کی جانب گھورنا شروع ہو گیا۔ ہمارے پرڈویوسر راجہ شاہد نے مائیکرو فون اس کے سامنے کر دیا اور پوچھا کتنے کا لیا تھا؟ اس نے بتایا کہ اسلام آباد کی ایک بکرا منڈی سے دو دن پہلے ہی 28 ہزار روپے میں خریدا تھا وہ ایک کمپنی میں ملازم تھا اور اس کی تنخواہ بھی 28 ہزار روپے تھی۔ جب پوچھا گیا اب کیا کریں گے؟ تو جواب آیا کرنا کیا ہے۔ اب تو دوسرا جانور خرید کر قربان کرنا فرض ہو گیا ہے۔ قصائی نے بھی اس کی تائید میں سر ہلایا اور بولا کہ قربانی کے جانور کے مرنے پر دوسرا جانور خرید کر قربان کرنا لازمی ہوتا ہے۔ بکرے کے مالک نے ادھر ادھر نظریں دوڑاتے ہوئے قریب کھڑے لوگوں سے پوچھا یہاں کوئی سی ڈے اے کا کوڑے دان نہیں کیا؟۔ اتنی دیر میں وہ قصائی اپنی چھری سمیت چل پڑا اور ہم اس کے پیچھے ہو گئے۔ میرے ذہن میں بار بار بکرے کے مالک کا خیال آ رہا تھا اور اس کی قربانی کےلئے اپنی مذہبی ذمے داری کے احساس پر رشک ہو رہا تھا۔ ایک طرف تو قربانی سے متعلق ایسی ذمے داری والے یہ لوگ ہیں تو دوسری طرف ایک خبر نے ایک متضاد صورت حال کی منظر کشی کی۔ قصائی کے انٹرویو کے چند گھنٹے بعد ہی خبر آئی کے گجرات میں چند پولیس اہلکاروں نے آدھی قیمت پر قربانی کے جانور نہ ملنے پر ریوڑ کے مالک پر تشدد کیا اور پورے ریوڑ کو ریلوے لائن کی جانب ہانک دیا جہاں لاہور سے آئی ٹرین کی زد میں آ کر چالیس قربانی کے جانور ہلاک ہو گئے۔ تو یہ ہے ایک پولیس والے کی قربانی سے متعلق سمجھ بوجھ۔ اس کے خیال میں دھونس دھاندلی اور زبردستی سے حاصل کردہ جانور کی قربانی بھی اللہ تعالیٰ کو قبول ہو جاتی ہے۔ ان پولیس والوں کے خلاف ان کے بڑے افسر نے یہ کارروائی کی کہ انہیں معطل کر دیا۔ اب چالیس بے زبان جانوروں کے قتل پر دفعہ 302 کا مقدمہ تو درج ہونے سے رہا۔ ویسے بھی کیا معلوم کہ پولیس کے یہ اہلکار صرف اپنے لئے ہی قربانی کا جانور مانگ رہے تھے کہ اپنے بڑے افسروں کے لئے؟۔ اب بڑے افسر قربانی کے جانور کا اصل قیمت سے آدھی قیمت پر زبردستی کا سودا کرنے کا گناہ اپنے سر تو نہیں لے سکتے ناں۔ بہرحال ان مقتول جانوروں کے لئے اب سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل اعلیٰ عدالتی کمیشن بھی تو نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ تحریک انصاف نے اس سانحے پر دھرنا بھی نہیں دینا۔ اس ملک میں تو انسانوں کے خون کا حساب نہیں چکایا جاتا یہ تو محض بھیڑ بکریاںہیں۔ اس تمام واقعے کی تفصیلات میںجانے کے بعد دھیان بار بار اس بکرے کے مالک کی طرف جا رہا تھا جس نے 28 ہزار روپے میں ایک بکرا خریدا اور وہ قصائی کی چھری تلے ہی دم توڑ گیا اور اب وہ دوسرا جانور لینے پر مجبور تھا اور دوسری طرف وہ پولیس کے اہلکار جنہوں نے اپنے ایک بکرے کی خاطر چالیس بکرے مار دیئے۔ نجانے ہم لوگ قربانی کے فلسفے کو کب سمجھیں گے۔ اپنی ایک دن کی قربانی کی خاطر ہم لوگ بے دردی سے دوسروں کی خوشیوں کا گلہ گھونٹنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
بکرا منڈیوں میں سبز نمبر پلیٹوں والی سرکاری گاڑیاں بڑے صاحب لوگوں کے لئے قربانی کے جانور لے جاتی نظر آتی رہیں۔ حتیٰ کہ عوام کی حفاظت پر مامور پولیس کی گاڑیوں میں بھی بکرے ملزمان کی مانند منہ چھپاتے نظر آتے رہے۔ کچھ قربانی کے جانور تو اپنے خرچے پر ہی بڑے افسروں کے گھر چل کر پہنچ جاتے ہیں۔ یہ بڑے افسر ان جانوروں کی گردن پر چھری تو کیا ان کی زندگی میں ان پر دست شفقت بھی نہیں پھیرتے۔ مگر بات صرف افسروں کی نہیں ہمارے معاشرے میں امیر غریب، چھوٹا بڑا کمزور اور طاقتور سب ہی جس جذبے اور جوش سے جانوروں کی قربانی دیتے ہیں اسی جذبے سے باقی پورے سال ایک دوسرے کی خوشیوں پر پانی پھیرتے رہتے ہیں۔ اپنی عزیز ترین چیز کی قربانی تو دور کی بات دوسروں کی عزیز ترین چیز پر نظر رکھنا اور موقع ملنے پر اس پر ہاتھ صاف کرنا بھی ہم میں سے کچھ لوگ اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ اپنے مذہبی فرائض اس دھوم دھڑکے اور نمائش کے ساتھ پورا کرتے ہیں کہ جیسے معاملہ انسان اور خدا کے بیچ نہیں بلکہ محلے اور دنیا کے ساتھ ہے۔ چاہے رمضان میں اشیاءخورد کی اشتہار بازی اور ٹی وی پروگراموں کی لچر بازی ہو یا بڑی عید پر خوبرو دوشیزاﺅں کی بیلوں کے ہمراہ کیٹ واک۔ لگتا ہے ہم لوگ اس دنیا میں ہی اجر کے متلاشی ہیں۔ دکھاوے کے لئے ہم کیا کچھ نہیں کرتے۔ جس جس چیز سے ہمیں اسلام نے منع کیا ہے ہم نے اس چیز کے خلاف اشتہار تو چھاپ دئیے مگر پھر عملی طور پر اس کے خلاف کچھ نہیں کیا۔ اب بدعنوانی کو ہی لے لیں۔ اپنے کرنسی نوٹوں پر ”رزق حلال عین عبادت ہے“ لکھوا کر ہم بری الذمہ ہو گئے۔ تمام جرائم پیشہ لوگ انہیں کرنسی نوٹوں پر لکھی یہ تحریر کب پڑھتے ہوں گے۔ یہ لوگ تو نوٹوں کی گڈی کی گنتی نہیں کرتے اس کے باوجود "No to corruption"(رشوت سے انکار) جیسے پیغامات پر کروڑوں روپے عوام کے ٹیکس سے لگا دئیے جاتے ہیں۔ اسی طرح سرکار اور عوام کی ملکیت اربوں روپے کی اراضی پر ناجائز قبضہ کرنے کے بعد جو لوگ عظیم الشان مساجد تعمیر کرتے ہیں اور سینکڑوں بیلوں کی قربانی دیتے ہیں یا لاکھوں لوگوں کو مفت کھانا کھلاتے ہیں اسے کیا کہا جائے؟ کیا ایسا کرنے سے جنت میں ہزار گز کا کارنر پلاٹ مل جائے گا؟ اللہ کی راہ میں دی گئی قربانی تو اللہ قبول کرتا ہے مگر جب پورا سال لوگوں کے گلوں پر چھری اور جیبوں پر بلیڈ چلایا جائے تو بڑی عید پر اونٹ، بیل، بکرے یا دنبے کو گرا دینا کیا معنی رکھتا ہے۔ اس طرح جو لوگ اسلام یا ریاست کے نام پر انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی مانند قتل کریں اور پھر بھیڑ بکریوں کو خرید کر انہیں انسانوں کی مانند ذبح کر دیں تو کون سی قربانی اور کیسی قربانی۔ محض وضو کر لینے سے ہاتھوں اور دامن پر لگے انسانی خون کے دھبے نہیں مٹ سکتے خاص کر ان معصوم لوگوں کے جو کسی جنگ کا حصہ بھی نہ ہوں ۔ انسانی خون سے رنگے ہاتھ اور دامن پر قربانی کے جانور کے خون کے چھینٹے ڈال لینے سے دنیا میں تو سرخرو ہوا جا سکتا ہے آخرت میں نہیں۔ ہم سب کے اندر ذاتی مفاد کا ایک بیل اور بکرا میں میں کر رہا ہے جس کی قربانی دئیے بغیر ہم سرخرو نہیں ہو سکتے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024