اسحاق ڈار نے استعفیٰ نہ دیا وزیر بے محکمہ رہنا قبول کرلیا بھٹو دور میں خورشید حسن میر بھی وزیر بے محکمہ تے انکی کار پر جھنڈا تو لہراتا تھا اسی طرح اسحاق ڈار کبھی پاکستان آئے اور احتساب عدالت کے ہتھے چڑھے تو واپس اپنی کالی گاڑی اور جھنڈا ضرور دیکھ لیں گے لیکن وزارت خزانہ میں قدم نہیں رکھ سکیں گے۔ وزارت بے محکمہ دراصل لالی پاپ سے زیادہ نہیں عملاً اسکی کوئی بلڈنگ اور دفتر نہیں۔ ڈار صاحب کی سرکاری کوٹھی کے گیٹ پر صرف لفظ خزانہ کو مٹا دیا گیا ہے ’’وفاقی وزیر‘‘ تو لکھا ہوا ہے۔ گارڈز چوکیدار مالی خانساماں اسی طرح موجود ہیں۔ دنیا میں ہر کسی کو کرسی سے ایک نہ ایک دن ضرور اترنا پڑتا ہے کوئی زبردستی اتار لے تو دکھ نہیں جاتا جیسے بچے سے موبائل چھیننے کی کوشش کی جائے تو وہ ناراض ہوتا اور واوایلا کرتا ہے۔ زمبابوے کے صدر موگابے 90 سال کے ہو کر اور 37 سال صدارت کا مشروب پی کر بھی سیراب نہیں ہوئے تھے، ڈنڈا دیکھ کر انہوں نے کرسی سے اترنا گوارا کرلیا اور دھرنے کیخلاف آپریشن نے ملک کو نئی صورتحال سے دوچار کردیا ہے سیاسی عدم استحکام واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے۔ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا بند کرنا اور فوج طلب کرلینا سول حکومت کی بے بسی بے چارگی مجبوری اور ناکامی پر دلالت کرتا ہے یہ بات بڑی واضح ہے کہ دینی اور سیاسی دھرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے جو عزم و استقلال اور یکجہتی دینی لوگوں اور حلقوں میں پائی جاتی ہے وہ سیاسی لوگوں میں دکھائی نہیں دیتی۔ دھرنے کیخلاف آپریشن نے مولویوں میں نیا جوش اور ولولہ پیدا کردیا دھرنے کے پہلے روز ہی زاہد حامد استعفیٰ دے دیتے تو کون سی قیامت آجاتی۔ ڈان لیکس کے موقع پر پرویز رشید کو بھی مستعفی ہونے کیلئے کہا گیا تھا کسی ایک وزیر کے استعفیٰ سے پوری حکومت زمیں بوس نہیں ہوتی اسحاق ڈار کو بچانے کی ساری تدبیریں ناکام ہوئیں۔ 28 جولائی کو میاں نواز شریف رخصت ہوئے اور آج 28 نومبر ہے تین ماہ میں نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کی وزرات عظمیٰ کا فرق بھی صاف دکھائی دے رہا ہے ملک میں آزاد خیال طبقہ دینی حلقوں سے کبھی بھی متفق نہیں ہوا۔ باپ بیٹا اور ماں بیٹی بھی ایک صفحے پر نہیں ہوتے تو دینی اور روشن خیال حلقے کیسے ایک پیج پر ہوسکتے ہیں۔
دینی حلقے کسی بھی حالت میں دین کو یتیم نہیں ہونے دینگے اگر دینی حلقوں کی مزاحمت نہ ہو تو معاشرہ بالکل مادر پدر آزاد ہو جائے۔ مسجد مدارس تبلیغی جماعتوں دینی تحریکوں اور جماعتوں کی موجودگی میں روشن اور آزاد خیال لوگوں کو مکمل طور پر من مانی کا موقع نہیں ملتا کشمیریوں کے کاز کیلئے حافظ سعید جیسی شخصیات پاکستان دشمنوں کے سینوں پر سانپ لوٹاتی ہیں 28 جولائی کے بعد سے لفظ ’’سازش‘‘ بہت کثرت سے استعمال ہو رہا ہے احسن اقبال کی دانش میں دھرنے والوں کا بھارت سے رابطہ ہے اور وہ بین الاقوامی سازشوں میں استعمال ہو رہے ہیں۔ احسن اقبال کو ملک کے اندر اور باہر سازش کا جال پھیلا دکھائی دے رہا ہے انکے نزدیک دھرنے والے اتنے سادہ نہیں، اندر کی معلومات رکھتے ہیں اندر کی معلومات بھی اندر والے ہی دیتے ہونگے اندر کی معلومات رکھنے والوں نے ہی ڈان لیکس کو جنم دیا تھا۔ نہ جانے کب حکومت سازشی تھیوری سے باہر نکلے گی۔ دھرنے کیخلاف ناکام آپریشن کی کیا وجوہات ہیں مار دھاڑ سے بچہ اور ضدی ہو جاتا ہے تو کیا سپریم کورٹ حل تجویز کرسکتی ہے نیوز چینلز کا مکمل بلیک آئوٹ ہار ماننے کے مترادف ہے چینلز کی بندش کا غیر آئینی اقدام کب تک چلے گا۔
حکومت آئے روز چھوٹے چھوٹے دھرنے والوں کی باتوں پر کان دھرنے کی بجائے انہیں دھرنا کو طول دینے کا موقع دیتی ہے۔ ینگ ڈاکٹرز سال میں ایک دو بار دھرنے پر اتر آتے ہیں انکے مطالبات پر توجہ نہیں دیتی کہ وہ دھرنے کی ضد پر نہ اڑیں اسی طرح نابینا افراد بھی دو تین بار دھرنا دے چکے ہیں۔ انکے مطالبات کے جواب میں اسی روز زبانی تسلی کرادی جائے تو دھرنا اسی وقت ختم ہوسکتا ہے فیض آباد کے دھرنے کے پہلے روز راجہ ظفرالحق جیسی معتبر شخصیت علامہ خادم حسین رضوی کو یقین دلا دیتی بلکہ دھرنے والوں سے خود مخاطب ہوتی اور ان کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کرتی تو یہ دھرنا طول نہ پکڑتا انا کی جنگ حکمرانی کا زعم صاحبان اقتدار کو سوج بوجھ کی طرف سے آنے سے روک دیتا ہے۔ جیسے خاوند اپنی آئی پر آتا ہے اور طلاق منہ پر مار دیتا ہے۔ بیوی کی ساری نیکیاں، خوبیاں محبت تعاون کو کوڑے کی ٹوکری میں پھینک دیتا ہے۔ دھرنے والے بھی پاکستانی اور عاشقان رسولؐ ہیں حکومت پاکستان کے عشق رسولؐ میں کسی کو شبہ نہیں ہوسکتا افواج پاکستان سے زیادہ عاشقان رسولؐ اور کہاں ملیں گے جو اسلام حرمت رسولؐ اور پاکستان کیلئے 24 گھٹنے سر بکف رہتے ہیں دہشت گردی ایسے سرفروشوں کی آئے روز جانیں لیتی ہے بھلا عاشق عاشق پر کیسے ہاتھ اٹھا سکتا ہے؟
دھرنے کیخلاف حکومتی انداز ہے غلط نکلے اور حکمت عملی ناکام رہی ہے تحفظ ناموس رسالتؐ کی کوئی تحریک ناکامی سے دوچار نہیں ہوسکتی فوج اور حکومت کے ایک صفحے پر ہونے کی آئے روز باتیں ہوتی ہیں ملک کا نام اسلامیہ جمہوریہ پاکستان ہے لہٰذا اس ملک میں دینی قوتوں اور حکومت کو بھی اہم معاملات میں ایک صفحے پر آنے کی خلوص نیت سے کوشش کرنی چاہئے۔ تحفظ ناموس رسالتؐ پر ایک صفحے پر نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حکومت بھی اپنی غلطیوں کی فہرست مرتب کرے کہ اس سے اسکی رٹ ہاتھوں سے کیوں نکل گئی۔ ممتاز قادری کی پھانسی نے کن لوگوں کے جذبات کو گرمایا تھا۔ ختم نبوتؐ کی بند کتاب کا نیا ایڈیشن لانے کی کوشش کیوں کی؟ اس نئے ایڈیشن سے کسی کی رضا مقصود تھی؟ کیا نئے ایڈیشن کی اشاعت سے قبل ن لیگ نے اپنے محسن و مربی مولانا فضل الرحمن سے مشاورت کی تھی؟ پی پی پی نے 18 ویں ترمیم سے پہلے مشاورت کی تھی۔ حکومت کا دوہرا معیار بھی سامنے آیا ہے۔ دھرنا ہٹائو کیلئے عدلیہ کی اطاعت شعاری اور اپنے معاملے میں یہ کہنا کہ سزا دی نہیں دلوائی جا رہی ہے اور عوام کی جے آئی ٹی فیصلے کرے گی وغیرہ وغیرہ۔ دھرنے نے شہری زندگی میں خلل ضرور ڈالا ہے لیکن اسکی بنیادی وجہ پر غور کرنا ضروری ہے یہ عمران خان کے دھرنے کی طرح گو نواز گو نہیں بلکہ تحفظ ناموس رسالتؐ کا دھرنا تھا یہ حکومتی اقدامات کیخلاف دھرنا تھا۔ دھرنے والے اپنی سوچ کسی پر مسلط نہیں کر رہے بلکہ اس عقیدے کا اظہار کر رہے ہیں جس پر اجماع امت ہے۔ طاقت اور ڈنڈے سے وقتی طور پر امن قائم ہوسکتا ہے لیکن دلوں میں لگی آگ نہیں بجھ پاتی۔ موجودہ صورتحال عسکری سیاسی اور مذہبی قیادت تینوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ تشدد، سختی زبردستی سے فکری ہم آہنگی کبھی پیدا نہیں ہوسکتی۔ ہر حکومت بات حد سے بڑھ جائے تو سنجیدگی اور حرکت کی طرف آتی ہے ایسا کیوں ہے؟