ایک معصوم مزدور کرسچن جوڑے کو بھٹہ خشت کی آگ میں جھونک دیا جاتا ہے۔ وزیر اعلیٰ متاثرہ خاندان کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ ننھے معصوم یتیم بچوں کو پیار دیتے ہیں۔ امداد کیلئے 50 لاکھ روپے اور دس ایکڑ اراضی کا اعلان کرتے ہیں۔ اور یقین دلاتے ہیں کہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا کر آپکو کما حقہ انصاف نہیں دلاتا۔ کتنے ہی ایسے درد ناک کیس ہیں۔ مگر سزائے موت پر پابندی برقرار ہے۔ یہ پابندی پیپلز پارٹی نے لگائی۔’’ن‘‘ لیگ نے اسے ختم کرنے کا اعلان کیا۔ مگر بوجوہ کر نہیں سکی۔ تو پھر کما حقہ انصاف اور مجرموں کو کیفر کردار تک کیسے پہنچایا جائیگا۔ نتیجتاً مجرم بے خوف دندناتے پھرتے ہیں قتل اور دیگر سنگین جرائم کو زبردست فروغ مل رہا ہے۔ ہزار ہا کیس لٹکے ہوئے ہیں دوسری طرف یہ بحث چل رہی ہے کہ مہذب ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی پھانسی کی سزا ختم کر دینی چاہئے۔اس متنازعہ موضوع پر اظہار خیال کی اجازت چاہتا ہوں۔ ماضی قریب میں گریٹر پنجاب میں مہاراجہ نجیت سنگھ بڑے پایہ کے حکمران تھے۔ مگر انکے بعد حکومت کا ایسا شیرازہ بکھرا۔ کہ لا اینڈ آرڈر تباہ ہو کر رہ گیا۔ بد امنی کا دور دورہ تھا۔ طوائف الملوکی تھی۔ ڈاکے قتل اور راہزنی کے واقعات عام تھے۔ اس دور کو ’’ سکھا شاہی ‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ انگریزوں نے پنجاب میں تسلط قائم کیا۔ تو لاء اینڈ آرڈر پر سب سے زیادہ توجہ دی۔پولیس کو قتل ڈاکے اور راہزنی کی وارداتوں کو آہنی ہاتھ سے ختم کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ جس تھانیدار (ایس۔ ایچ۔او) کے تھانہ کی حدود میں قتل یا ڈاکے کی واردات ہو جاتی۔ اسکی نیند حرام ہو جاتی واردات کی سپیشل رپورٹ آئی جی پنجاب تک جاتی اور دفتر اسکی پراگریس پرکڑی نگرانی رکھتا ۔ تھانیدار کو اس وقت تک چین نہ آتا۔ جب تک یہ وقوعہ کو ٹریس کر کے ملزموں کو گرفتار نہ کر لیتابلکہ عدالت میں بھی ملزم کو سزا دلوانے تک کیس کا پیچھا کرتا۔ ہمارے ہاں مقتول پارٹی کی طرف سے بے گناہ افراد کو ملوث کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ اس زمانے میں تھانیدار ایف آئی آر درج کرنے سے قبل بڑی چھان بین کرتے مقتول کے وارثان کو بھی ڈانٹتے کہ خبردار غلط لوگوں کو شامل نہ کریں تا کہ اصل ملزموں کو سزا دلوانے میں آسانی رہے۔اس دور میں قتل کی وارداتیں شاذو نادرر ہی ہوتی تھیں بلکہ جب کبھی سرخ آندھی چلتی تو یہ باور کیا جاتا تھا کہ ضرور کہیں نہ کہیں ’’خون‘‘ ہوا ہے اور جب کوئی ایسی خبر مل جاتی تو اسے سرخ آندھی سے جوڑ دیتے تھے۔ ابتدائی چھان بین کے بعد جب مقدمہ سیشن کی عدالت کے سپرد ہوتا۔ تو دہائی پڑ جاتی کہ فلاں شخص ’’سیشن‘‘ لگ گیا ہے۔ یعنی اب اس کا بچنا محال ہے۔ قتل کی سزا پھانسی تھی۔ البتہ جہاں مقدمہ میں رعائیت کی گنجائش ہوئی۔ تو مجرم کو ’ ’کالے پانی‘‘ کی سزا دی جاتی ۔ مجرم کو بحر ہند کے جزائر انڈیمان میں عمر قید (14سال) با مشقت کاٹنی پڑتی۔
قتل کے مقدمات میں مدعی سرکار یا سٹیٹ ہوتی تھی۔ جرم نا قابل راضی نامہ تھا مقتول کے وارثان کو قاتل کو معاف کرنے یا کوئی معاوضہ وصول کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ اس دور میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کی اتنی دہشت تھی کہ یہ مشہور تھا کہ اگر ہرے بھرے درخت کے تنے پر یہ ہندسہ 302 کندہ کر دیں ۔ تو وہ خوف سے سوکھ جائیگا۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد جب قتل کا جرم’’ پبلک سیکٹر‘‘ سے پرائیویٹ سیکٹر میں منتقل ہوا۔ شریعت کے تحت مقتول کے شرعی وارثوں کو قاتل کو معاف کرنے اور دیت وصول کرنے کا اختیار مل گیا۔ تو اس صورتحال کا سخت نا جائز فائدہ اٹھایا جانے لگا۔ مقتدر لوگ اپنی قوت اور دولت کے بل بوتے پر وارثان سے زبردستی قاتل چھڑوائے جانے لگے۔ قریبی رشتہ داروں کو دھڑا دھڑ قتل کرنے کا ایسا رواج ہوا کہ تھمنے میں نہیں آ رہا ہے۔ پسند کی شادی یا کسی اور معمولی بات کو غیرت کا نام دیکر بیٹیوں۔ بہنوں کو انکے معصوم بچوں اور شوہروں سمیت تہ تیغ کر دیا جاتا ہے۔ ماں نے نشے کیلئے پیسے نہیں دیئے۔ ٹھاہ۔سگے بھائی اسکی بیوی اور پانچ بچوں کو جائیداد کے لالچ میں ذبح کر دیا، چھوٹے بچے کی عمر فقط 6 ماہ تھی۔ قاتلوں کو معافی اور راضی نامے کا یقین ہوتا ہے جنوبی پنجاب سے ایک جوڈیشنل آفیسر نے واقعہ سنایا۔کہنے لگے وہاں بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ دینے کا رواج نہیں ۔ ایک گریجویٹ لڑکی نے اپنے دو بھائیوں سے حصے کا مطالبہ کیا، بھائیوں نے انکار کر دیا اور سمجھایا کہ بی بی ہمارے ہاں یہ نئی رسم نہ ڈالو۔ وہ بضد رہی تو اسے ٹھکانے لگانے کا منصوبہ بنا لیا۔ اپنے ہاتھوں قتل کرنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ ایک خاکروب کی خدمات حاصل کیں۔ کافی عرصہ پولیس کو سمجھ نہ آئی شک کی بنا پر جب خاکروب کو شامل تفتیش کیا اور اپنے انداز میں پوچھ گچھ کی تو اس نے اقبال جرم کر لیا۔ آلہ قتل بھی برآمد کر لیا گیا۔ مقدمہ چلا تو بھائیوں نے بطور شرعی وارثان ملزم کو بہن کا قتل معاف کر دیا۔ مسلسل چار بیٹیاں ہو گئیں ہیں بیٹا نہیں ہو رہا۔ سب کو نہر میں پھینک دو کون پوچھ رہا ہے۔ہزاروں درد ناک مثالیں ہیں پاکستان میں قتل کے جرم اور 302کے ہندسے کو مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ قتل کے مقدمے فیصلے تک ہی کم پہنچتے ہیں۔ پھانسی کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے۔؟ شرعی وارثوں کے پاس قاتل کو معاف کرنے کے اختیار کو قریبی رشتہ داروں کے علاوہ مقتدر طبقوں نے خوب کیش کیا۔ اسکی بد ترین مثال کراچی کے ڈی، ایس، پی کے اکلوتے بیٹے شاہزیب کا بہیمانہ قتل ہے‘ ساری سول سوسائٹی کی ہمدردیاں مقتول کے خاندان سے تھیں۔ میڈیا نے پورا ساتھ دیالیکن انصاف دلانے کا اصل رول سپریم کورٹ نے کیس کا از خود نوٹس لیکر ادا کیا۔ ورنہ تو ملزموں کا گرفتار ہونا ہی مشکل تھا شاہ رخ جتوئی تو بیرون ملک فرار ہو چکا تھا۔ نہ صرف ملزم گرفتار ہوئے بلکہ نابالغی کاعذر بھی کامیاب نہ ہوا۔ استغاثہ کے گواہوں نے رسک بھی لیا۔ جرأت بھی دکھائی۔ عدالت نے کوئی پریشر قبول نہیں کیا۔ ملزموں کو پھانسی کی سزا ہوئی۔ کیا سزا سن کر مجرمان سہم گئے۔ پریشان ہوئے نہیں! وہ انگلیوں سے وکٹری کے نشان بناتے قہقہے اور نعرے لگاتے عدالت سے نکلے ان کے اندر طاقت اور دولت بول رہی تھی۔ مقتول کے وارثوں کے پاس معافی کا اختیار ایک ایسی کمزوری تھی۔ جس پر سکندر جتوئی کی نظر تھی انجام کیا ہوا والدین کو پیارے بیٹے اور بہنوں کو پیارے بھائی کے قاتلوں کا خون ’’معاف‘‘ کرنا پڑا اور خود ملک بدر ہونا قبول کر لیا۔ (جاری)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024