تحریک پاکستان کے طالب علم رہنما جناب حمید نظامی صاحب نے قائد اعظم محمد علی جناح کی ہدایت پر ہفت روزہ نوائے وقت کا 23 مارچ 1940ء کے روز ہی آغاز کیا اور اسی تاریخ کو قرارداد پاکستان منظور کی گئی جس میں برصغیر کے مسلمانوں نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر اپنے لئے علیحدہ ملک کا مطالبہ کرکے باقاعدہ اس مقصد کے حصول کیلئے جدوجہد کا آغاز کیا۔ نوائے وقت کو بعد میں حمید نظامی صاحب نے روزنامے میں تبدیل کیا اور نوائے وقت نے اپنے قیام سے 75 سال تک ہمیشہ نظریہ پاکستان اور قائد اعظم و علامہ اقبال کے افکار و نظریات کا مکمل تحفظ کیا ہے۔ نوائے وقت کی پلاٹینم جوبلی اسی سال 23مارچ کو منائی گئی جس پر خصوصی اشاعت میں نوائے وقت کی نظریہ پاکستان کے تحفظ کیلئے خدمات اور جناب حمید نظامی اور مجید نظامی مرحومین کی ملی خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا۔ برصغیر پاک و ہند میں ایسا مقام کسی اور اخبار کو حاصل نہیں ہوسکا جس نے نظریے پر قائم رہنے کیلئے کئی مشکل ادوار دیکھے اور معاشی نقصانات کا اندازہ تو لگایا ہی نہیں جاسکتا مگر ہمیشہ ادارے نے جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق بلند کیا ہے۔
جناب مجید نظامی ؒ نے ایوب خان‘ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے فوجی ادوار میں جمہوریت کیلئے اپنے قلم کا بھرپور استعمال کیا اور ان فوجی حکمرانوں کے سامنے حق بات کی جب انکے پس پشت لوگ قلم اٹھانے سے ڈرتے تھے اور اسی پاداش میں ادارے کو کئی بار اشتہارات کی بندش کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر انہوں نے اسکی پرواہ نہیں کی۔ قیام پاکستان کے بعد سے نظریہ پاکستان اور تاریخ پاکستان کا جس قدر پرچار‘ تحفظ اور فروغ جناب مجید نظامیؒ اور نوائے وقت نے کیا ہے اس کا عشر عشیر بھی کسی اور نے نہیں کیا۔ نوائے وقت اب تک اپنے اجراء کے مقاصد کے حصول میں مکمل کامیاب رہا ہے اور میں دعاگو ہوں کہ مستقبل میں بھی ادارہ نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریے کے تحفظ کیلئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہو۔
نوائے وقت نے جدوجہد آزادی کشمیر کیلئے بھی نمایاں خدمات انجام دی ہیں اور ڈاکٹر مجید نظامی ؒ کی ادارت میں ہمیشہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی خبر کو صفحہ اول پر نمایاں طور پر شائع کیا جاتا رہا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔
23 مارچ کا دن نوائے وقت کے اجراء کے ساتھ ساتھ اس وجہ سے بھی قومی اہمیت کا حامل ہے کہ 1940ء میں اسی روز مسلمان برصغیر نے 1930ء میں الہ آباد کے علامہ اقبالؒ کے خطبے میں پیش کئے گئے دو قومی نظریے کی بنیاد پر اپنے لئے علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا اور اس دن کو قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے دو قومی نظریہ پیش کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ہندو مسلم ہر لحاظ سے دو الگ قومیں ہیں۔ مسلمانوں کو الگ وطن کی ضرورت ہے۔ بہرحال وہ تمام تر حقائق و محرکات تھے جو 23مارچ کی قراداد کی بنیاد بنے۔ منٹو پارک میں 23مارچ 1940ء کی یاد میں مینار پاکستان بنایا گیا۔
23 مارچ 1940ء کے بعد مسلم لیگ ہر سطح پر تیزی سے متحرک ہوئی اور آخرکار پاکستان بننے کا معجزہ وجود میں آیا ۔23مارچ 1940ء کے تقریباً 7 سال بعد ہی مسلمانوں کی بھرپور جدوجہد اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ولولہ انگیز قیادت کے باعث برطانوی حکومت کے آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے 3 جون 1947ء کو برصغیر کی تقسیم کا اعلان کیا جو اس صدی کا بہت بڑا واقعہ تھا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن سے ملی بھگت کرکے ہندوئوں نے ریڈکلف ایوارڈ کا اعلان کرایا جس کی وجہ سے کشمیر میں مہاراجہ نے عوامی خواہشات کے برعکس ہندوئوں سے گٹھ جوڑ کرکے جموں و کشمیر کو بھارت کے ساتھ شامل کرنے کا اعلان کیا اور فوجی طاقت کی بنیاد پر عوامی رائے کیخلاف بھارت سے الحاق کا اعلان کیا گیا۔ انگریزوں نے سازش کے تحت جوناگڑھ سمیت کئی مسلم اکثریتی علاقے بھارت کے حوالے کردیئے ۔ قیام پاکستان سے اب تک مقبوضہ کشمیر کا تنازع پاکستان اور بھات کے مابین جنگوں و محاذ آرائی کا باعث ہے۔
7سال کے وقفے کے بعد جب 23مارچ کی پریڈ ہوئی تو یہ احساس ہوا کہ جنرل راحیل شریف نے سیاسی قیادت سے ملکر ملک میں زندگی کو اسی ڈھنگ پر بحال کردیا ہے جو ہماری قوم کا وطیرہ رہا ہے۔ اسکے علاوہ لاہور میں ایک عرصے بعد میلہ مویشیاں کا انعقاد‘ کوئٹہ ایوب اسٹیڈیم میں شاندار تقریب کا انعقاد اور ملک بھر کے شہروں ‘ دیہات اور قصبوں میں تقاریب منعقد کی گئیںجس پر وفاق اور تمام صوبائی حکومتیں لائق تحسین ہیں۔ 23مارچ کی پریڈ عام اور روایتی پریڈ نہیں تھی۔ یہ ایک خاص پیغام تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم ایک قوم بننے کی طرف چل پڑے ہیں۔ آج حکومت‘ اپوزیشن اور عوام ملکی مفادات کے مسئلے پر ایک نقطہ نظر کے حامل ہیں۔ اداروں نے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دینے کا عندیہ دیا ہے۔ ہمارے دفاعی اداروں نے رجعت پسندوں سے گلوخلاصی حاصل کرکے لبرل اور روشن خیال نقطہ نظر اپنایا ہے۔ وہ پوری نیک نیتی سے اس ملک کو ہر طرح کی تخریب کاری سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔ سینٹ میں متفقہ چیئرمین کا انتخاب اور اب جوڈیشل کمیشن کا قیام سیاسی استحکام کا اشارہ ہے۔ ریاست کو للکارنے والے ہر سیاسی و غیر سیاسی فرد یا تنظیم کیخلاف کارروائی پر پوری قوم متفق ہوچکی ہے اور اب وہ دن انشاء اﷲ دور نہیں جب ایسے لوگوں کا قلع قمع ہوجائے گا جو قوت کے ذریعے خود فیصلہ کرنے کی روش پر عمل پیرا ہیں۔ اگر اسی طرح سیاسی استحکام اور سول و عسکری قیادت کی ہم آہنگی رہی تو انشاء اﷲ جلد ملک میں سے دہشت گردی کا قلع قمع ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی استحکام بھی آئیگا اور پاکستان ترقی کی جانب چل پڑیگا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024