رپورٹ میں مسلمانوں کی حالت زار بہتر بنانے کیلئے کم و بیش 72 سفارشات پیش کی گئیں تھیں جن میں 42 پر حکومت نے کام کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن 2013 میں انڈین روزنامہ ہندو کی ایک رپورٹ کیمطابق سچر سفارشات پیش کئے جانے کے چھ سال بعد بھی اِن سفارشات پر عمل درآمد نہیں کیا گیا ہے چنانچہ کانگریس حکومت کی جگہ نریندر مودی سرکار کے آنے کے بعد سچر رپورٹ مزید تعطل کا شکار ہو گئی ہے۔ ایک اور انڈین اخبار نیشن کی حالیہ رپورٹ کیمطابق بھارتی اقلیتی امور کی وزارت نے امیتابھ کندو کی سربراہی میں قائم سچر رپورٹ کی جائزہ کمیٹی کے کام کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے اِس میں نئی رکاوٹیں پیدا کر دی ہیں ۔اِس سے قبل سچر کمیٹی کی رپورٹ شائع ہونے پر انتہا پسند ہندوئوں کی نمائندہ جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور سنگھ پریوار کی شدت پسند تنظیمیں اِس رپورٹ کو کانگریس کی جانب سے مسلم ووٹ حاصل کرنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے سخت تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں یہاں تک کہ جسٹس راجندر سچر کے والد کو پاکستانی ایجنٹ قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا گیا ۔
سچر رپورٹ آج کے جدید دور میں بھارتی مسلمانوں کی جس زبوں حالی کا تذکرہ کرتی ہے ۔ماضی میں نوجوان بیرسٹر محمد علی جناح کو ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار کا قدرے ادراک تھا چنانچہ جناح نے ابتدائی طور پر ہندو اکثریت کے مقابلے میں مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی بحالی کی جدوجہد کو ممکن بنانے کیلئے پہلے کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور پھر اکتوبر 1913میںآل انڈیا مسلم لیگ کے سیکریٹری سید وزیر حسن کے کہنے پر مسلم لیگ کی رکنیت بھی حاصل کی چنانچہ قائد کی سیاسی بصیرت کے سبب 1916 میں لکھنو میں منعقد ہونے والے مسلم لیگ اور کانگریس کے اجلاسوں میں لکھنو پیکٹ کے ذریعے مسلمانوں کے سیاسی حقوق تسلیم کرنے کا اعلان کیا گیا جس کے باعث ہندو مسلم سیاسی کشمکش میں قدرے توازن پیدا ہوا۔ لیکن ایک عشرہ گزرنے کے بعد ہی ہندو قول و فعل میں تضاد کے سبب بالآخر کانگریس کی ہندو قیادت نے انتہا پسند ہندو تنظیم ہندو مہا سبھا اور 1925 میں جنم لینے والی ہندو دہشت گرد تنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ RSS کے دبائو پر پنڈت موتی لال نہرو کی بدنام زمانہ نہرو رپورٹ کے ذریعے 1928 میں لکھنو پیکٹ کو پس پشت ڈالتے ہوئے مسلمانوں کی نمائندگی کیلئے مخصوص نشستوں اور جداگانہ انتخاب کے مطالبات مسترد کر دئیے۔ قائداعظم نے آل پارٹیز کانفرنس میں اِس صورتحال کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے آئینی اصلاحات کے حوالے سے مرکز میں مسلمانوں کو ایک تہائی نمائندگی اور مسلم اکثریتی صوبوں میں آبادی کے تناسب سے نمائندگی اور مناسب اختیارات دینے کا مطالبہ کیا لیکن ہندو سیاسی قیادت نے اکھنڈ بھارت کے مقابلے میں کسی بھی تجویز کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔اندریں حالات، قائداعظم نے ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی سمت متعین کرنے کیلئے مارچ 1929 میں مسلم لیگ کونسل کے دہلی کے اجلاس میں نہرو رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے تاریخی 14 نکات پیش کئے جس میں ہندوستان کے نئے آئین میں تمام صوبوں کو خود مختاری دینے ، سندھ کو بمبئی سے الگ صوبہ بنانے ، ملازمتوں میں مسلمانوں کو مناسب حصہ دینے ، اسلامی تہذیب و تمدن اور اُردو زبان کو آئینی تحفظ فراہم کرنے ، مستقبل کی کسی بھی مرکزی کابینہ میں ایک تہائی مسلمان وزراء رکھنے اور ایسے کسی بھی مسودۂ قانون کو منظور تصور نہ کرنے جسے کسی بھی اقلیتی فرقہ کے تین چوتھائی نمائندے قبول کرنے کیلئے تیار نہ ہوں لیکن ہندو قیادت لکھنو پیکٹ سے ہٹنے کے بعد مسلمانوں کے کسی مطالبے کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تھی لہذا قائداعظم نے ہندو قیادت کے قول و فعل میں بدترین تضاد اور معاہدوں کی ناپاسداری کا انتہائی قریب سے مطالعہ کرنے کے بعد برطانوی حکومت ہند کی متحدہ ہندوستان کی پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے 1938 میں مسلمانوں کو ایک قوم کی حیثیت سے مستقبل کی سیاسی جدوجہد کیلئے تیار کرنا شروع کیا۔ 1940 میں لاہور کے تاریخی اجلاس میں قرارداد لاہور کے ذریعے ہندوستان میں دو قومی نظریہ کی بنیاد پر مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کیا گیا ۔ قائداعظم نے تحریک پاکستان کے دوران متعدد مرتبہ دو قومی نظریہ کے حوالے سے مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ مملکت کے فلسفے کی توضیح کی۔ اُن کا فکری فرمان تھا کہ محمد بن قاسم کی آمد پر ہندوستان میں جب پہلا ہندو مسلمان ہوا تو پاکستان بن گیا۔ دسمبر 1943 میں قائداعظم نے مشہور برطانوی صحافی بیورلے نکولس کو انٹرویو دیا (اِس انٹرویو کی نہ صرف برطانیہ اور ہندوستان میں تشہیر ہوئی بلکہ یہ انٹرویو بیورلے نکولس نے اپنی کتاب ورڈکٹ آن انڈیا میں بھی سیاق و سباق کیساتھ شائع کیا ) بیورلے کا سوال یہ تھا کہ آپ مسلمانوں کو ایک قوم کہتے ہیں تو کیا آپ کے پیش نظر مذہب ہوتا ہے یا کچھ اور۔ قائداعظم نے وضاحت سے کہا کہ " جب میں مسلمانوں کو ایک قوم کہتا ہوں تو زندگی کے تمام شعبے اور ضروریات پیش نظر ہوتی ہیں ۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام صرف عبادات یا اعتقادات کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک مکمل طریق زندگی ہے ۔ ہر اعتبار سے ہماری تاریخ علیحدہ ہے ، ہمارے ہیرو علیحدہ ہیں ، ہمارا آرٹ مختلف ہے ، ہمارا فن تعمیر ، ہماری موسیقی ، ہمارے قوانین اور ہمارا آئین سب کچھ یکسر مختلف ہے ۔
درج بالا تناظر میںحقیقت یہی ہے کہ ذات پات و سماجی اونچ نیچ کے نظام میں جکڑی ہوئی ہندو قوم انسانی مساوات اور بنیادی جمہوری حقوق کے موجودہ دور میں بھی جنوبی ایشیاء میں ہندوازم کی بالا دستی کے خواب دیکھنے کے عمل سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں ہے۔
ہندوسماج کے دانشوروں کی یہی وہ فکری جھنجھلاہٹ ہے کہ ہندو سماج نے ماضی کی تمام وسط ایشیائی اور یورپی طاقتوں کو تو اپنے اندر جذب کر لیا لیکن مسلمان ہندوستان میں اقلیت میں ہونے کے باوجود نہ صرف اپنی علیحدہ حیثیت برقرار رکھنے میں کامیاب رہے بلکہ ہندوازم کے لاکھوں ماننے والوں کو بھی اُنہوں نے دین اسلام میں سمولیا ہے ۔یہی جھنجھلاہٹ سقوط ڈھاکہ کے موقع پر ہندوستان کی ایک سابق وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کے خطاب میں جھلکتی نظر آتی ہے جب اُنہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش بنا کر اُنہوں نے ہندوستان پر مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ لے لیا ہے لیکن یہ دعویٰ بھی بے معنی ہی نظر آتا ہے کیونکہ بنگلہ دیش آبادی کے لحاظ سے آج بھی ایک آزاد مسلمان ملک ہے ۔ بھارت میں نریندر مودی کی موجودہ انتہا پسند ہندو قیادت کے بر سر اقتدار آنے کے بعد ہندوازم کی سامراجی فکر میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
بہرحال یہ حقیقت اپنی جگہ قائم و دائم ہے کہ قائداعظم کی بے لوث قیادت نے ہندوستان کے مسلم اکثریتی منطقوں میں پاکستان حاصل کرکے جو موجودہ دور میں ایک موثرایٹمی طاقت ہے مسلمانوں کو جنوبی ایشیا میں مکمل تباہی سے بچا لیاہے ۔ (ختم شد)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024