وزیراعظم نواز شریف آئینی اور سیاسی بحران کے عروج پر مالدیپ کیوں گئے ہیں؟
مالدیپ برادر مسلم ریاست اور سارک کا رکن ہے لیکن اس کی اصل حیثیت بھارت کی باجگزار کالونی سے زیادہ کچھ نہیں اس لئے سارک میں بھارتی بالادستی کو ختم کرنے کے دعویٰ بے معانی قصے کہانیوں سے زیادہ کچھ حیثیت وفاقی دارالحکومت میں یہ دبی دبی سرگوشیاں جاری ہیں کہ وہ اپنے بھارتی دوستوں سے صلاح مشورے کیلئے محفوظ مقام کی تلاش میں مالے پہنچے ہیں ورنہ مالدیپ کی یوم آزادی کی تقریبات میں غالباً کسی پاکستانی رہنما نے پہلی بار شرکت کی ہے یہ وہی مالدیپ ہے جو اگلے 50 برس میں ماحولیاتی تبدیلیوں کا شکار ہوکر سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق آب ہو جائے گا۔ مشرق وسطی سے باہر یہ واحد مسلمان ریاست ہے جس نے قطر سے تعلقات منقطع کر رکھے ہیں اس پر ووٹ کے ذریعے خاندانی جمہوریت کا دور دورہ ہے۔ سابق مامون عبدالقیوم کا خاندان راج کر رہا ہے مدتوں پہلے نامعلوم بحری قذاقوں نے ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تو بھارتی بحریہ کے صرف ایک جہاز نے بروقت کارروائی کرکے منتخب جمہوری حکومت کو بچا لیا تھا۔ جناب نواز شریف کی سیاسی زندگی میں مالدیپ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ عالم اسلام اورجنوبی ایشیائی امور پر گہری نظر رکھنے والے گوشہ نشین دانشور اور چوٹی کے براڈکاسٹر جناب افضل رحمان بتاتے ہیں کہ پہلی بار وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد نواز شریف نے پہلا سرکاری غیرملکی دورہ مالدیپ کا کیاتھا اوراب آئینی اورسیاسی بحران کے عروج پر بلاضرورت مالدیپ کی آزادی کی تقریبات میں شمولیت کے لئے شاید اپنے دوراقتدار کاآخری دورہ کر کے آئے ہیں۔ مالدیپ کو حکمران خاندان اپنے لئے نیک شگون سمجھتا ہے وہ شاید واحد غیرملکی سربراہ تھے جو بنفس نفیس وہاں پہنچے تھے۔ مالدیپ کی علاقائی اہمیت اور بھارت سے تعلقات کا یہ عالم ہے بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج مالدیپ کی قیادت کے باربار اصرار کے باوجود مالے کا دورہ کرنے کے لئے وقت نہیں نکال سکیں۔ افضل رحمان صاحب لکھتے ہیں کہ تیسری بار وزیراعظم بننے کے بعد کیا یہ ان کا آخری غیرملکی ہوگا یہ خدائے مہربان ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی قدرت کاملہ سے مستقبل قریب میں کیا ظاہرکرتا ہے۔ ویسے اگر وزیراعظم نواز شریف کی سیاسی زندگی کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو مقدر کے سکندر دکھائی دیتے ہیں جو بے پناہ دولت کے سہارے اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوئے تھے 1981میں پنجاب کے وزیرخزانہ بنائے گئے۔ 1985کے غیر جماعتی انتخابات میں قومی اورصوبائی اسمبلی نشستوں پر کامیاب ہوئے 9 اپریل ()1985 کو وزیراعلی پنجاب بنے
جونیجو حکومت کی برطرفی کے بعد جناب نوازشریف جنرل ضیا کی نگران حکومت میں شامل رہے۔ پاکستان کی تاریخ کے حددرجہ دیانتدار اورشریف النفس وزیراعظم محمد خاں جونیجو سے بے وفائی کرکے جنرل ضیا کی آمریت کا ساتھ دینا جناب نواز شریف کا پہلا سیاسی فیصلہ تھا 17اگست 1988 میں جنرل ضیا کو حادثے کے بعد تشکیل دئیے جانے والے اتحاد میں میاں نوازشریف پہلی بار قومی سطح کے رہنما کے طور پر اْبھرے خفیہ فنڈز کے بل بوتے پر پیپلزپارٹی کا راستہ روکنے کے لئے تشکیل دئیے جانے والے اسلامی جمہوری اتحاد (IJI)کے مرکزی رہنما بن گئے جس کے فنڈز کا مقدمہ سپریم کورٹ سے فیصلہ ہونے کے بعد تاحال علمدرآمدکا منتظر ہے۔ 1988کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کا راستہ نہ روکا جا سکا لیکن جناب نواز شریف دوبارہ وزیراعلی پنجاب بن گئے۔ بے نظیر حکومت کی برطرفی کے بعد 1990میں اسلامی جمہوری اتحاد میں رہے تمام حریف سیاستدانوں کو پچھاڑ کروزیراعظم بننے میں کامیاب ہوگئے جن میں بزرگ سندھی سیاستدان غلام مصطفی جتوئی سب سے نمایاں تھے پہلے دوراقتدار میں جناب نوازشریف کی معرکہ آرائی اس وقت کے آرمی چیف مرحوم آصف نواز جنجوعہ سے شروع ہوگئی تھی۔ کہتے ہیں کہ جناب نواز شریف نے انہیں جرمن ساختہ (BMW)کارکاتحفہ دینے کی کوشش کی جسے قبول کرنے سے وضع دار جرنیل نے انکار کردیا جس کے بعد جناب نواز شریف کے دل میں گرہ پڑگئی اور وہ فوج کی ادارہ جاتی طاقت کو دائرہ کار میں لانے پر جت گئے۔ جنرل جنجوعہ کے دل کے دورے میں انتقال کے بعد انہوں نے بزرگ غلام اسحق خاں کی صورت میں نیا حریف تلاش کر لیا ہے جنہوں نے ان کی حکومت کو بدعنوانی کے الزامات کے تحت برطرف کردیا یہ وہی دور تھا جب وہ مبینہ طور پر اپنے بچوں کے روشن مستقبل کے لئے لندن کے متنازعہ اربوں روپے مالیت کے فلیٹس خرید رہے تھے۔ تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ نے ان کی برطرف شدہ حکومت کو بحال کردیا لیکن وہ صرف 53 دن حکومت کر سکے جس کے بعد ایک معاہدے کے تحت صدر غلام اسحق خان اور وزیراعظم نواز شریف بیک وقت مستعفی ہوگئے کہتے ہیں کہ دوسرے دور میں جناب نواز شریف نے ذہنی طور ہر بھارت کی بالادستی کو قبول کرلیا تھا واجپائی کی لاہور آمد تاریخی واقعہ تھا۔ کہتے ہیں کہ ان کے اپنے مقررکردہ سپہ سالار جنرل وحید کاکڑ بھی جناب نواز شریف کی توقعات پر پورے نہیں اترسکے تھے کہ جنرل صاحب نے غلام اسحق خان کے ساتھ محاذ آرائی میں کھلم کھلا جناب نواز شریف کا ساتھ نہ دے کر انہیں ازحد مایوس کیا تھا اس لئے فوجی قیادت کے خلاف ان کے دل میں بیٹھی ہوئی گرہ اور مضبوط ہوتی گئی۔ شہید بی بی بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور اقتدار کے دوران پاکستان میں بدعنوانی اور بے ایمانی اورقومی وسائل کی لوٹ مار کے خلاف جناب نواز شریف زور شور سے مصروف ''جہاد''رہے ‘ سچ ہے جھوٹ کہا جاتا ہے کہ عین اسی دور میں وہ نہایت خاموشی سے مشکوک ذرائع سے اکٹھی کی جانے والی بے پناہ دولت آف شور کمپنیوں کے ذریعے پاناما کے ماہرین کی مدد سے محفوظ کرتے رہے اور جائیدادیں خریدتے رہے قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے انہوں نے جناب زرداری کو اپنے مشیر حسین حقانی کی چرب زبانی کے سہارے مسٹر 10÷ بنا کر ساری دنیا میں رسوا کرادیا تھا۔
دوسری بارنوازشریف 17فروری 1997 کو وزیراعظم بنے اس دور میں انہوں نے سب سے پہلے عدالت عظمی کے اختیار کو چیلنج کیا جس کے نیتجے میں سپریم کورٹ پر حملہ کیا گیا غیرمعمولی اقدامات کرکے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کوڈنڈاڈولی کرکے عہدے سے ہٹادیا گیا۔ بعدازاں ان کاہدف صدرفاروق لغاری تھے ان کے خلاف مواخذے کی تحریک پیش کرکے انہیں مستعفی ہونے پر مجبور کردیا گیا۔ اس کے بعد اگلا نشانہ آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت بنے۔ انہوں نے ریاستی اداروں میں ہم آہنگی اور بہتر کارکردگی کے لئے قومی سلامتی کونسل بنانے کی معصومانہ تجویز پیش کردی جس پر جناب نواز شریف نے اس شریف النفس جرنیل کو وزیراعظم ہاوس میں طلب کرکے استعفیٰ طلب کیا اور جنرل جہانگیر کرامت مستعفی ہوگئے۔ جنرل مشرف کو آرمی چیف بنوانے میں معروف بینکار حمید اصغر قدوائی نے بنیادی اور اہم کردار ادا کیا تھا جنہیں کینیا میں پاکستان کا ہائی کمشنر مقرر کیا گیا تاکہ وہ چینی کی صنعت میں شریف خاندان کی سرمایہ کاری کی نگرانی کر سکیں لیکن چینی کے ایک کارخانے کے انتظامی امور سنبھالنے کی کارروائی کے دوران افریقی مزدوروں نے عملے اور شہزادگان کی پٹائی کردی جس کے بعد یہ معاملہ چوپٹ ہوگیا تھا جناب نواز شریف نے اپنے مقررکردہ آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو برطرف کرنے کی عجیب وغریب طریقے سے کوشش کی اورفوج کے اجتماعی ادارہ جاتی ردعمل کا شکار ہوکر اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے یہ پہلا مارشل تھا جو آرمی چیف کی عدم موجودگی میں لگایاگیا اورخود ستم ظریف جنرل مشرف نے بھی مارشل لا کی بجائے ایمرجنسی پلس اورچیف ایگزیکٹو کہلانا پسند کیا۔ بعد ازاں سعودی عرب جلاوطنی جناب زرداری کی مدد سے جنرل مشرف کا ایوان صدر سے اخراج اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ جاری تیسرے دور اقتدار میں ان کا جھکاؤ بھارت کی طرف ناگوار حد تک بڑھتا گیا مودی کی تقریب حلف وفاداری سے شروع ہونے والے سلسلہ مودی اور جندل کی لاہور شادی کی تقریب میں آمد تک دراز ہوتا گیا وزیراعظم نے ایک بھارتی ٹی وی چینل کو 8 چینل چلانے کا حکم دے دیا اس سے غیر قانونی اقدام کی مزاحمت پر اس وقت کے چیئرمین پیمرا رشید چودھری کو نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔ بعدازاں ساری دنیا میں بھارتی ترنگا لہرانے کا عزم رکھنے والے جندل کی بغیر ویزے مری آمد پر لے دے ہوتی رہی
تیسرے دور میں بھارت نواز عناصر ان کے قریب سے قریب تر ہوتے گئے ایک شخص پر 99 میں غداری اور بغاوت کے مقدمے بنائے گئے گرفتار کیا گیا اب کھلے بندوں پرکشش عہدے پر تعینات ہیںجو کھلے بندوں بھارتی را کے اقدامات کی حمایت کرتے ہوئے پاکستان اداروں کو پٹھان کوٹ مبینہ دہشت گرد حملوں میں ملوث قرار دیتے ہیں۔ اس وقت نامعلوم وجوہ کی بنا پر بے عملی کی وجہ سے یمن فوج نہ بھیجنے پر خادم حرمین شریفین اپنے دوست سے آزردہ ہیں اسی طرح قطری شاہی خاندان بھی ریاست کے خلاف جارحیت کے خلاف کھل کر ساتھ نہ دینے پر ناراض ہے اور اپنے ریاستی اداروں کے ساتھ حسنِ سلوک سب کے سامنے ہے ۔
مقدر کے سکندر' نواز شریف اس دور بحران میں یک و تنہا حالات کے مقابل ہے کہ قریبی ساتھی روٹھے بچوں کی طرح نخرے دکھارہے ہیں۔ چودھری نثار کی پریس کانفرنس بھی چشم کشا ہے‘ اس پر کل بات ہوگی۔ (جاری)
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024