جنابمجید نظامی کی وفات اور ان کے جنازے میں شرکت کے بعد بطور صحافی مجھے بہت سی سوچوں نے گھیر لیا ہے۔ہم صحافیوں کی زندگی بھی عجیب ہوتی ہے۔خود سے بے خبر ساری دنیا کی خبر کے پیچھے ہوتے ہیں۔ایک مجنوںکی مانند سچ کی لیلٰی کو سیاست کے تپتے ریگستانوں میں تلاش کرتے ہیں۔حقیقت کے سراب کے پیچھے زندگی کے صحرا میں اتنا دور نکل جاتے ہیں کہ جہاں سے واپسی ممکن ہی نہیں ہوتی۔یقینا سب صحافی سچ کی تلاش میں اتنے دور جاتے ہی نہیں کہ جہاں سے واپسی ناممکن ہو۔یہ کہنا بھی کسی حد تک درست ہے کہ آج کل کے زمانے میں سچ بولنا اور لکھنا اندھوں کے شہر میں سرمہ بیچنے کے برابر ہے یا پھر کسی بہرے انسان سے سر سنگیت کے بارے میں بات کرنا۔
بہت کم لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ ایک سچا صحافی بیک وقت کتنے محاذوں پر لڑ رہا ہوتا ہے۔اس کی حالت دشمن کے علاقے میں پیراشوٹ کے ذریعے اتارے گئے اس سپاہی کی ہوتی ہے جو کمر سے بھی محفوظ نہیں ہوتا۔ایک چو مکھی لڑائی جس میں ہر روز لڑ کر زندہ رہنا بڑی کامیابی ہے۔ایک طرف اس کی خبروں کے ناراض کردار تو دوسری طرف اس کی کمر میں چھرا گھونپنے والے کاروباری حلقے ،تیسری طرف اس کے ذاتی مفادات تو چوتھی جانب بکے ہوئے اس کے حقوق کے محافظ ادارے اور تنظیمیں ۔اس صورت حال میں ایک صحافی ہمہ وقت حالت جنگ میں ہی رہتا ہے ۔آخر ہمارے معاشرے میں بند آنکھوں سے سچ کی تلوار چلانے والے کا ساتھ کون دیتا ہے۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جن غریب ،بے بس،محروم اور لاچار لوگوں کیلئے ایک صحافی جنگ لڑتا ہے یہ لوگ تو اس کے جنازے پر بھی اس طرح موجود نہیں ہوتے جس طرح وہ اپنے ووٹوں کے سوداگروں کے جلسوں میں جوق در جوق آتے ہیں۔صحافی کے جنازے میں تو اس کی زندگی میں اس سے جنگ کرنے والے مفاد پرست لوگ بھی شامل ہو کر اپنی سچائی کا ثبوت پیش کرتے ہیںاور یوں دعائیں مانگتے ہیں کہ جیسے انکی گواہی کے بغیر مرحوم جنت میں بھی داخل نہ ہو پائینگے۔کسی زمانے میں محبت اور عقیدت سے بھرپور ایک ہجوم مرحوم کی عظمت کا پتہ دیتا تھا مگر آج کل تو یہ ایک مذہبی ،سماجی اور سیاسی ذمہ داری بن گئی ہے۔
ہمارے معاشرے میں صحافی کی موت سے معاشرے کے اصل نقصان کا احساس ہی نہیں کیا جاتا۔یہ وہ احساس ہوتا ہے جو ایک کال کوٹھری میں کئی سال سے بند روشنی،ہوا اور انسانی آواز کو ترستا ایک قیدی ہی کر سکتا ہے،ایک قیدی جو روشنی کی ایک کرن کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر تلاش کرتا ہے، تازہ ہوا کے ایک جھونکے کیلئے دیواروں کی دراڑوں میں منہ رکھتا ہے اور انسانی آواز کو سننے کیلئے خود ہی چیختا چلاتا ہے۔اسی احساس سے بے نیاز ہمارا معاشرہ تو کیابہت سے صحافی بھی اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کرنا گوارا نہیں کرتے۔صحافیوں پر قاتلانہ حملوں یا ان کے قتل پر عام شہریوں کی بے اعتنائی تو اپنی جگہ بہت سے صحافی بھی احتجاج میں شامل نہیں ہوتے۔جب بھی سڑکوں پر احتجاج ہوا تو ایک ہی خیال آیا کہ آخر وہ سب شہری کہاں ہیں جن کو معلومات کی روشنی ،سچ کی تازہ ہوا اور جن کے حق کی آواز بننے کے جرم میں اس صحافی نے اپنی جان دیدی۔کیا حواس خمسہ کے بغیر ہمارا معاشرہ ایک زندہ لاش نہیں ہوگا اس پر ظلم یہ کہ مقتول اور بچ جانے والے مظلوم صحافیوں سے یکجہتی تو دور کی بات ہم میں سے کچھ لوگ اور ادارے ان کو غدار اور ملک دشمن قرار دیتے ہیں اور عوام کو یہ بتایا جاتا ہے کہ اگر آزادی رائے اور سچ کی تلاش کی حوصلہ افزائی کی گئی تو عوام حواس خمسہ کے نام پر اپنی سلامتی کھو دینگے اور یوں اگر حواس خمسہ ناگزیر نہیں تو جمہوریت کیسے ناگزیر ہو سکتی ہے۔ہم بطو رمعاشرہ اور ادارے انسان اور انسانیت کی اہمیت کو کھو چکے ہیں سچے اور کھرے انسانوں کے ساتھ نفرت کرتے ہیں،ان کے لئے مشکلات پیدا کرتے ہیں،ان کی جدوجہد کا ساتھ نہیں دیتے ،ان کی خدمات کا ان کی زندگی میں اعتراف نہیں کرتے بلکہ سچ پوچھیں تو ان کے خون کے پیاسے بھی ہوتے ہیں۔مگر جب یہ سچے اور کھرے انسان اس دنیا سے چلے جاتے ہیں تو ان کی تعریف کر کے اصولوں سے اپنی محبت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہی ہمارے معاشرے اور سیاسی تاریخ کی حقیقت ہے۔فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپنی چھاتی پر قائداعظم کے میڈل سجا کر جس طرح انتخابی مہم کے دوران قائداعظم کی ہمشیرہ کی سیاسی کردار کشی کی وہ بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔مذاق ہی سہی مگر عین ممکن ہے کہ اگر آج قائداعظم زندہ ہو جائیں تو انہیں بھی مسلم لیگ کا اپنا دھڑا ہی بنانا پڑیگا یا پھر اگر وہ کچھ سال مزید زندہ رہ لیتے تو وہ بھی ایک متنازعہ سیاسی شخصیت بن جاتے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج ہم مرنے والوں کی جتنی بھی تعریف کر لیں یا ان کے اصولوں کو اپنے سیاسی بیانات کی زینت بنا لیں ہمارے سیاستدان اور فوجی آمروں نے ہمیشہ سچے صحافیوں کو دشمن جانا،ان قوتوں نے ہمیشہ عوام کو لا علمی کے اندھیروں میں رکھ کر ان کے ساتھ بھیڑ بکریوں کا سا سلوک کیا ۔علم وخبر وہ طاقت ور عوامی ہتھیار ہیں جن کے ہوتے ہوئے ملک دشمن ،عوام دشمن اور جمہوریت دشمن قوتیں اپنے ذاتی مفادات کے عوض قومی مفادات کا سودا نہیں کر سکتیں۔یہ آزاد میڈیا ہی ہے جو اپنی تمام غلطیوں اور کاروباری مفادات کے باوجود ان قوتوں کا احتساب کرتا رہتا ہے اور یوں میڈیا کے متاثرہ لوگ بھی ذاتی رنجش یا سیاسی حکمت عملی کے تحت میڈیا کا احتساب اور اسے بے نقاب کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔دونوں صورتوں میں فائدہ عوام کا ہوتا ہے جو معلومات کے ہتھیار سے لیس ہوکرمقتدر قوتوں اور میڈیا کا احتساب کرتے رہتے ہیں۔یوں عوام اور جمہوریت کی بہتری اسی میں ہے کہ میڈیا بے نقاب کرتا بھی رہے اور ہوتا بھی رہے۔دوسری صورت میں ایک کمزور اور ناقابل احتساب میڈیا مقتدر قوتوں کے ساتھ مل کر عوامی وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں حصے دار بن جاتا ہے اور طاقت ور کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔
روزنامہ نوائے وقت کے ادارتی صفحے کے ماتھے کا جھومر یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ بہترین جہاد جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔یقینا کلمہ حق سچ کا وہ بیج ہے جو بروقت بو دیا جائے تو پھر کئی نسلوں کیلئے ایک تن آور پھل دار درخت بن جاتا ہے۔اس بیج کو بونے والاکبھی اپنی زندگی میں اس پھل کا متقاضی نہیں ہو سکتا ۔اس کے برعکس گملوں میں جھوٹ کا بیج بو کر اپنی زندگی میں ہی پھل کھانے کے امیدوار بھی بہت ہوتے ہیں ۔ہماری تاریخ کا المیہ یہی ہے کہ ہمارے بہت سے مقتدر سیاستدانوں اور فوجی حکمرانوں نے مرتے مرتے بھی سچ کا بیج نہ بویا اور شائد اسی لئے آج ہماری سیاست کے درختوں پر پھل تو درکنار سایہ دار پتے بھی نہیں۔ آئیے آج ہم سب صحافی ،سیاستدان ،فوجی افسران ،بیوروکریٹ،ججز صاحبان اور عام شہری یہ عہد کریں کہ ایک خبر ،ایک کتاب،ایک مضمون،ایک کھلے خط،ایک بیان یا ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے ایک سچ کا بیج بو کر اس دنیا سے جائیں،ایک سچ کا پودا لگائیں۔مجید نظامی مرحوم نے تو اپنے حصے کا پودا لگا دیا ہے اور دوسرے ایسے پودوں کی حفاظت کرنا ہم زندہ لوگوں کا کام ہے اور سچ کے پودوں کے ان باغات سے مستفید ہونے والے عوام بھی صرف پھل کھانے کا انتظار نہ کریں بلکہ ان سچ کے پودوں کی خاطر سڑکوں پر نکلنے کیلئے بھی ہمہ وقت تیار رہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024