لاہور میں کسانوں کا دھرنا جاری۔ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان۔ حکومت کی عدم دلچسپی پر کسان ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالتے رہے۔ قارئین کرام! کسان وہ مظلوم مخلوق ہے جو 68 سالوں سے جمہور اور آمریت چکی کے دو پاٹوں میں پس رہی ہے۔ مہنگائی‘ بیروزگاری‘ بنیادی ضروریات زندگی کی ناپیدگی‘ زرعی ٹیکسوں اور یوٹیلٹی بلوں کی بھرمار نے غریب کسانوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ شہروں کی آبادی دن بدن لاکھوںکی تعداد میں بڑھتی جا رہی ہے اور دیہات خالی ہو رہے ہیں۔ میری حویلی جہاں 1947ءمیں 52 گھر آباد تھے‘ آج وہ احاطہ خالی پڑا ہے۔ دیہاتی نوجوان شہروں میں جا کر دفتروں‘ ورکشاپوں‘ کاروں‘ بسوں‘ ہسپتالوں‘ ہوٹلوں میں نوکریاں کر رہے ہیں۔ ہزاروں غیر ممالک چلے گئے۔ کلیانوں میں کام کرنے کیلئے زرعی لیبر ملنا مشکل ہو گئی۔
پنجاب کے کسانوں نے خواب غفلت سے انگڑائی لی ہے۔ سالوں کی نیند سے آنکھ کھولی ہے۔ اس ان پڑھ‘ بے زبان مخلوق کا اپنے جائز حقوق کیلئے دھرنا لانگ مارچ کی خبر پڑھ کر خوشی ہوئی اور افسوس بھی۔ خوشی اس بات کی کہ کسانوں نے اپنے حقوق کی خاطر کہیں متحد ہوکر آواز بلند کی‘ جنہیں علامہ اقبال بار بار پکارتے رہے کہ غافل کسان ....
”سحر کی ازاں ہو گئی اب تو جاگ“
اور دکھ اس بات کا کہ کسان پاکستان بننے کے بعد جمہوریت اور آمریت چکی کے دو پاٹوں میں ایسے پسا کہ اس کی بند آنکھ کھلنے نہ دی گئی۔ وہ غربت و افلاس کی گہرائیوں میں ایسے گرا کہ گاﺅں کی زندگی اس پر تنگ ہوتی گئی۔ انگریز دور میں بہ نسبت اب کے کسان خوشحال تھا۔ پاکستان کے کھرب پتی حکمرانوں نے تو انکی چمڑی ادھیڑ کر رکھ دی۔ کسی دیہات میں جا کر دیکھو‘ کسانوں کے گھروں کو دیکھو‘ وہاں انکے منتخب نمائندے اپنے کتے اور گھوڑے رکھنا بھی پسند نہیں کرینگے۔ کسان غربت کی وجہ سے اپنے بچے سکول نہیں بھیج سکتے۔ انگریز زمانے کی بچھائی ریلوے لائنیں اکھاڑ لی گئیں۔ پھر نہ بچھ سکیں۔ دیہات کے چاروں اطراف پانی کے گندے جوہڑ جہاں مچھروں کی افزائش ہوتی ہے جبکہ شہروں میں خوبصورت پارکس‘ کشادہ کارپٹ سڑکیں‘ انڈر اور اوور پاسز‘ کلب پلازے‘ پھول دار کیاریاں اور میٹرو بسیں چلائی جا رہی ہیں۔ دیہاتوں کی سڑکیں اس قدر ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں کہ ان پر رکشے پر سفر کرنا مشکل ہو جاتا ہے‘ اگر کوئی سڑک مرمت کی جاتی ہے تو 6 ماہ بعد ٹوٹ جاتی ہے۔ وہ اس لئے کہ کرپشن عام ہے۔
کسانوں پر ظلم و ستم کی کہانی پرانی ہے۔ لارڈ کرزن اپنی ڈائری (شائع ہو چکی) میں لکھتا ہے ”1857ءکی بغاوت میں باغی فوجیوں کے ساتھ وہ ہندوستانی کسان بھی مل گئے جن پر ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھاری لگان عائد کر دیئے تھے اور زرعی ٹیکسوں کی عدم ادائیگی پر کمپنی کے افسروں نے جن کی زرعی زمینوں پر قبضے کر لئے تھے۔“
زرعی زمینوں پر آج جتنے بھاری لگان اور زرعی ٹیکس عائد ہیں وہ 1857ءکے زرعی ٹیکسوں کے مقابلہ میں شاید ہزار گنا زیادہ ہوں۔ اس دور میں انگریز کمپنی زرعی زمینوں پر صرف لگان وصول کرتی تھیں‘ لیکن اب مارشل لائی حکام‘ امپورٹڈ وزیراعظموں‘ تاجر اور صنعتکار‘ سیاستدانوں اور بیورو کریٹس نے کسانوں کی غربت‘ بے علمی اور قیادت کے فقدان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اتنے لگان اور زرعی ٹیکس نافذ کر دیئے ہیں کہ انہیں درگور کرکے رکھ دیا ہے۔ دیہات جہاں سے 5 سے 12 ایکڑ کے مالک کسان اکثریت میں ہیں‘ بھینسوں کا دودھ بیچ کر گھروں کا خرچہ چلاتے ہیں۔
اس کے باوجود فیڈرل پارلیمنٹری سیکرٹری فار ریونیو رانا محمد افضل خان جو بہت بڑے تاجر‘ صنعتکار اور ہسپتالوں کے مالک ہیں‘ اعلان کرتے ہیں کہ ”گورنمنٹ نے زرعی سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔“
رانا محمد افضل خان کو شاید یہ معلوم نہیں کہ کسان 21 اقسام کے لگان اور زرعی ٹیکس ادا کر رہا ہے جن کی تفصیل راقم کئی بار اپنی تحریروں میں دے چکا ہے۔ کوئی شک ہو تو کسی پٹواری یا قانون گو کو بلا کر تصدیق کر لیں۔ وہ جان لیں کہ نہری 12½ ایکڑ اراضی کے مالک کو زرعی ٹیکس معاف تھا (پچھلے دور میں) جو آپ کی حکومت نے دوبارہ نافذ کر دیا۔ 1998ءسے زرعی ٹیکس میں 225 فیصد اضافہ کر دیا گیا۔ ڈاکٹر محبوب الحق سابق وزیرخزانہ نے کہا تھا ”پاکستان کی غربت دیہاتوں میں چھپی ہے۔ سرکاری اداروں سے وابستہ اعمال ہر سال میں غریب ملک کے عوام کا کم از کم 40 ارب روپیہ ہضم کر دیا جاتا ہے۔“ اس میں غریب کاشتکار کا بھی بہت بڑا حصہ ہے جو اسے سرکاری اعمال کو ہر ششماہی کے بعد پیش کرنا پڑتا ہے۔
حکمرانوں سے گزارش ہے کہ کبھی دیہاتوں میں جا کر اس مخلوق کی حالت دیکھیں جو فوج‘ امرائ‘ شہریوں‘ تاجروں اور حکمرانوں کیلئے مٹی میں مٹی ہوکر اناج پیدا کرتی ہے جو پچھلے 60 سال سے آدھی قیمت ہر صنعت کو خام مال مہیا کرتی ہے۔ کسان جو ملک کا سب سے بڑا ٹیکس گزار ہے۔ 1996ءکی ٹیکس کمیشن رپورٹ میں دیہاتی لوگ ملک کے کل ٹیکس کا 65 فیصد ادا کرتے ہیں جبکہ شہری آبادی باقی 35 فیصد اداکرتی ہے۔ دیہاتی کس مفلوک الحالی میں گندگی بسر کرتے ہیں‘ جہاں نہ پارک نہ پل‘ گراﺅنڈ نہ ٹرانسپورٹ‘ نہ کارپٹ روڈز‘ لوڈشیڈنگ 18 گھنٹے اور بچے عموماً ننگے پاﺅں پھرتے ہیں۔ عموماً بیٹیاں گھروں میں بیٹھی بوڑھی ہو جاتی ہیں۔ انہیں صاحب ثروت لوگ اور انکے گماشتے سانحہ قصور کی طرح بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس بدکاری میں انکے بیٹے بھی محفوظ نہ ہیں۔ ان بے چاروں کی ویڈیو فلمیں بنا کر انہیں بلیک میل کیا جاتا ہے۔ یہ سب دیہاتوں میں نادہندگی اور غربت کا ردعمل ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف خبریں آئی ہیں‘ لانچوں میں ڈالروں کے کریٹ سمگل ہوتے ہیں۔ کراچی فیس کمپنی سے کروڑوں لیڈروں کے گھروں میں ہر ماہ بھجواتے ہیں۔ ہمارے سیاسی لیڈروں اور اعلیٰ افسروں کے اربوں ڈالرز دبئی اور سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں پڑے ہیں۔ جب ملکی حالات اس معیار پر آجائیں تو اللہ ہی ہے جو ملک کو حفظ و امان میں رکھے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024