کلبھوشن یادیو کا کیس اپنے انجام کو پہنچا۔ وہ ایک حاضر سروس نیول آفیسر تھا۔ اس لئے اسکا کورٹ مارشل ضروری ہوگیا اور ٹرائل ملٹری کورٹ میں کیا گیا اور اسکے لئے سزائے موت کا فیصلہ ہوا کیونکہ وہ دشمن ملک کا جاسوس تھا ۔وہ یہاں نہ صرف جاسوسی کررہا تھا بلکہ اس نے کراچی اور بلوچستان میں جاسوسی کا نیٹ ورک بھی قائم کررکھا تھا۔ باغی، ملک مخالف اور دہشتگرد لوگوں سے رابطے تھے جن کے ذریعے اس نے کراچی اور بلوچستان میں دہشتگردی کا بازار گرم کر رکھا تھا ۔میڈیا کے مطابق سانحہ صفورا جیسا افسوسناک واقعہ بھی اسی کی کارستانی تھی۔ اسکے نیٹ ورک کی وجہ سے سینکڑوں بے گناہ پاکستانی موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے ۔ایسے پاکستان دشمن جاسوس کی سزا ”محض پھانسی“ تو کم معلوم ہوتی ہے۔ اسے تو کئی بار پھانسی کے پھندے پر لٹکانا چاہیے تو پھر ہمارے دل کو سکون ملے گا۔بہر حال یہ پاکستان آرمی کا شاندار کارنامہ ہے کہ قانون کے مطابق اسکا ٹرائل کیا گیا اسے تمام تر قانونی حقوق کا حق دیا گیا اور پھر اسے سزائے موت سنائی گئی جس کی جنرل قمر جاوید باجوہ نے تو ثیق بھی کر دی ہے اور یوں یہ کیس اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔ یہاں تک تو کیس کی پیروی درست ہے ۔مگر اب اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومت پاکستان اور خصوصاً ہماری خارجہ پالیسی اس سزا پر عمل بھی کرسکتی ہے یا نہیں؟ کہا جاتا ہے کہ کپ اور ہونٹوں کے درمیان بہت کچھ ہوجاتا ہے ”جو اس کیس میں بھی ہونے کے امکانات ہیں کیونکہ بھارت نے اسے اپنا بیٹا تسلیم کرتے ہوئے سخت ترین الفاظ میں اس اندازمیں دھمکیاں دی ہیں جیسے پاکستان نیپال بھو ٹان یا سکم ہے۔ کلبھوشن کی زندگی بچانے کے لئے بھارت نے کسی بھی حد تک جانے کا عندیہ دیا ہے جسکی آخری حد جنگ بھی ہو سکتی ہے لیکن عسکری جنگ سے پہلے ہماری خارجہ پالیسی کی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ بھارت اپنے دوست ممالک ، دنیا کی بڑی طاقتوں بشمول اقوام متحدہ پاکستان پر ہر قسم کا سخت پریشر ڈلوانے کی کوشش کریگا۔ اس پریشر سے کیسے نبٹنا ہے۔ان ممالک سے کیسے ڈیل کرنا ہے۔ اپنے دوست ممالک کو کب اور کس انداز میں متحرک کرنا ہے یہ سب ہماری خارجہ پالیسی کے زمرے میں آتا ہے۔جسے اب بہت زیادہ ایکٹو ہونا پڑے گا۔
کلبھوشن کو پکڑے ہوئے ایک سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے ۔کلبھوشن نے اپنے جرائم تسلیم بھی کئے ۔وہ کافی عرصے سے پاکستان میں کام کررہا تھا۔وڈھ بلوچستان کے علاقے میں ایک تربیتی کیمپ بھی قائم کررکھا تھا جہاں وہ ڈالروں کے ذریعے نوجوان بلوچوں کو خرید کر پھر انہیں تربیت دیتا۔ہتھیار فراہم کرتا اور پھر ان سے دہشتگردی کراتا۔کراچی کے نزدیک گڈانی میں” شپ بریکرز “ کے روپ میں بھی پھرتا رہتا اور یہ سب کچھ وہ ایک جعلی پاسپورٹ پر کررہا تھا جس میں عقیدے کے مطابق وہ مسلمان تھا اور اسکا نام حسین مبارک پٹیل تھا۔ یہاں سب سے پہلا سوال جو سامنے آتا ہے وہ پھر ہماری وزارت خارجہ کی کارکردگی ہے۔ کلبھوشن کا پکڑا جانا۔اسکی دہشتگرد انہ اور پاکستان مخالف کاروائیوں کا بذاتِ خود تسلیم کرنا بھارت کی طرف سے پاکستان میں دخل اندازی کا بہت بڑا ثبوت تھا۔ بھارت کی عادت ہے کہ اسے پاکستان کے خلاف ذرا سا نقطئہ بھی مل جائے تو وہ پوری دنیا میں شور مچا کر پاکستان کو بدنام کرتا ہے۔پاکستان کیخلاف کارروائیاں کرتا ہے لیکن ہمارے پاس اتنا بڑا ثبوت ہونے کے باوجود ہم نے کچھ نہ کیا۔صرف دو ڈو زیر تیار کئے جن میں سے ایک امریکہ کو دیا اور ایک اقوام متحدہ کو ۔معلوم نہیں انہوں نے پڑھے بھی یا نہیں کیونکہ ان کی طرف سے ہمارے حق میں کوئی بیان نہیں آیا۔ پاکستان کو چاہیے تھا کہ تمام دنیا کے سفیروں کو بریفنگ دیتا۔موقعہ مناسبت کے مطابق کلبھوشن کو ان کے سامنے پیش کر کے اسکے جرائم سے پردہ اٹھاتا۔ پاکستان کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ مانگتا۔ تمام دنیا میں اپنے سفارتخانوں کو متحرک کرتا تو اسوقت تمام دنیا کی ہمدردیاں ہمارے ساتھ ہوتیں مگر افسوس کہ ہماری وزارت خارجہ نے سوائے دو ڈو زییرز بھیجنے کے کچھ بھی نہ کیا اور آج جب بھارت اپنی پرو پیگنڈہ مہم شروع کر چکا ہے تو ڈر ہے کہ کہیں ہم مدعی سے مجرم نہ بن جائیں۔اب سنا ہے کہ ایک نیا ڈوزیر بھی تیار کیا جا رہا ہے۔
بھارت اب پاکستان کیخلاف ہر قسم کی گھناﺅنی حرکات کریگا۔ مختلف چالیں چلے گا اور ہر فورم پر پاکستان کو بد نام کرنے کی کوشش کریگا۔ بھارت نے کلبھوشن کو جاسوس نہ مان کر اسے بے گناہ اور پاکستان کو مجرم ثابت کرنے کی بنیاد رکھ دی ہے۔ بھارتی بیان کے مطابق کلبھوشن ایک بے گناہ اور معصوم انسان ہے جو ایرانی ویزے پر ایران آیا اور چاہ بہار میں اپنا پرائیویٹ کاروبار کررہا تھا ۔پاکستانی ایجنسیوں نے اسے وہاں سے اغوا کیا اور پاکستان کے پاس اسکی دہشتگردی کا کوئی ثبوت نہیں۔ بھارتی وزیر داخلہ نے تو یہاں تک کہہ دیا : ” کلبھوشن جب ایرانی ویزے پر ایران میں کام کررہا تھا تو وہ پاکستان میں جاسوس کیسے بن گیا “۔قربان جائیں بھارتی معصومیت کے۔ ہمیں بھارت سے پوچھنا چاہیے کہ ٹھیک ہے وہ ایرانی ویزے پر تھا لیکن یہ ویزہ حسین مبارک پٹہیل کے نام سے تھا نہ کہ کلبھوشن یادیو کے نام سے۔ کلبھوشن اگر جاسوس نہیں تھا تو اسے جعلی پاسپورٹ اور جعلی نام کی ضرورت کیونکرپیش آئی۔ دوسرا وہ حاضر سروس نیول آفیسر تھا ۔ سروسز کے کسی بھی حاضر سروس آدمی کو پرائیویٹ کاروبار کی اجازت نہیں ہوتی تو کلبھوشن کو اس کاروبار کی اجازت کس نے دی اور وہ بھی غیر ملک یعنی ایران میں۔ تیسرا یہ کہ کلبھوشن کو ایران سے اغواءنہیں کیا گیا تھا بلکہ اسے بلوچستان کے علاقے ”مش خیل “ سے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا تھا۔ اسکے پاکستان میں دہشتگردی کے کئی ثبوت موجود ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس نے دہشتگردی کی تمام کاروائیاں خود تسلیم کی ہیں۔ اس سے زیادہ اور کیا چاہیے۔ بھارت نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ اس کے کورٹ مارشل کے لئے فوج نے سول حکومت سے اجازت نہیں لی نہ ہی اسے قانونی وکیل فراہم کیا گیا اور یہ کورٹ مارشل محض چند گھنٹوں میں مکمل کر لیا گیا۔یہ سنجیدہ الزامات ہیں جنکا پاکستان کو جواب دینا ہوگا۔
بھارتی وزیر خارجہ نے پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے ایک بہت ہی گھٹیا اور کمینی حرکت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور وہ ہے بلوچستان اور سندھ کو پاکستان سے علیحدہ کر کے بطور آزاد ریاستیں تسلیم کرنا۔ حالات تو ایسے نہیں کہ بھارت ایسا کر سکے گا یا دنیا اسے ایسا کرنے کی اجازت دیگی لیکن بھارت ایک گھٹیا اور کمینہ دشمن ہے ۔اس سے کچھ بھی بعید نہیں۔ بھارت ، امریکہ اور یورپ میں اسوقت بہت سے باغی بلوچ خصوصاً سردار نسل کے نوجوان موجود ہیں۔ بھارت ان سب کو بھارت میں اکٹھا کر کے جلا وطنی میں بلوچستان حکومت بنانے کی دعوت دے سکتا ہے جو یہ لوگ خوشی سے کرینگے۔ بلوچستان سے بھی کئی لوگ بھاگ کر انکے ساتھ مل جائینگے۔ کئی یورپی اور امریکی سیاستدان بھی انکے ہمدرد ہیں جو چاہیں گے بلوچستان علیحدہ ملک بنے۔ ان حالات میں جب بھارت ایسی حکومت بنا کر اسے تسلیم کریگا تو بھارت کے پٹھو افغانستان، بنگلہ دیش ،نیپال ،بھوٹان اور سکم وغیرہ بھی پیروی کرینگے۔امریکہ اور بھارت کی آجکل ویسے ہی گاڑھی چھن رہی ہے۔ بھارت اور امریکہ فطری اتحادی بنے ہیں۔ٹرمپ کا بھارت میں کاروبار بھی ہے اور مودی سے دوستی بھی لہٰذا بھارت کی دوستی میں امریکہ بھی بھارت کا ساتھ دے سکتا ہے اور امریکہ کی دیکھا دیکھی اقوام متحدہ اور کئی دیگر ممالک پیروی کر سکتے ہیں۔ امریکہ کو ویسے بھی بلوچستان کی علیحدگی سوٹ کرتی ہے جس کی تین بڑی وجوہات ہیں۔ امریکہ سی پیک کا مخالف ہے۔ بلوچستان میں سونے جیسی قیمتی معدنیات بہت ہیں اور تیسری اہم وجہ بلوچستان کا وہ راستہ ہے جو امریکہ کو اپنی افواج کیلئے افغانستان آنے جانے کیلئے چاہیے۔ امریکہ کے اب سنٹرل ایشیا بشمول افغانستان میں مستقل مفادات ہیں جنہیں وہ چھوڑنا نہیں چاہتا۔ بھارتی حکومت بڑی مہارت سے اپنے پتے کھیل رہی ہے۔ بھارت نے پاکستان کی دکھتی رگ پر ناخن رکھا ہے۔ ہماری وزارتِ خارجہ کس طرح اس گھٹیا حرکت کا جواب دیتی ہے یہ اسکا امتحان ہوگا۔ بہر حال ہماری تمام دعائیں حکومت کے ساتھ ہیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024