پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں پانی کی قلت کا مسئلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید شدت اختیار کرتا جارہا ہے ۔ 1950ء میں ہمارے ہاں پانی کی فی کس دستیابی 5000 کیوبک میٹر تھی جو 2010ء میں کم ہوکر صرف 1000کیوبک میٹر رہ گئی۔ بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ یہ پاکستان میں پانی کی قلت قدرتی آفت نہیں بلکہ ہماری اپنی سستی اور نااہلی کی وجہ سے ہے ۔ہر سال ملک میں بارشیں اور برفباری وافر ہوتی ہے لیکن چونکہ ہمارے پاس یہ پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم بہت کم ہیں لہذا ہر سال تقریباً 3.5ملین ایکڑ فٹ پانی کسی بھی استعمال میں آئے بغیر سمندر کی نذر ہوجاتا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں کئی ملین ہیکٹر زرخیز زمین پانی نہ ہونے کی وجہ سے بیکار پڑی ہو، پانی کی قلت کی وجہ سے تھرپارکر جیسے بدترین سانحات جنم لے رہے ہیں وہاں اس قدر بڑی مقدار میں پانی کا ضیاع کفرانِ نعمت نہیں تو اور کیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پچھلے پچاس سال کے دوران پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں 26فیصد سے زائد کمی ہوئی ہے جبکہ ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت مسلسل بہتر کررہا ہے۔ جو ممالک پانی کی اہمیت اور مستقبل کی ضروریات کا ابھی سے ادراک کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ بڑے ڈیم تعمیر کررہے ہیں اس سے انہیں دُہرے نہیں بلکہ تہرے فائدے حاصل ہورہے ہیں۔ اوّل ذخیرہ شدہ پانی سے سستی ترین اور وافر بجلی کا حصول، دوسرا زرعی شعبوں کو تمام موسموں میں وافر پانی کی بلارکاوٹ فراہمی اور تیسرا سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچت اور اگر جائزہ لیں تو یہی تین ہمارے سب سے بڑے مسائل ہیں۔ ہمارے پاس سستی اور بجلی میسر نہیں جس کی وجہ سے ملک بھر میں لوڈشیڈنگ ہورہی ہے، زرعی شعبے کو پانی کی قلت کا سامنا ہے اور ہر سال بدترین سیلاب کی وجہ سے ہمیں اربوں ڈالر کے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ماضی میں مستقبل کی ضروریات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کالاباغ ڈیم کے انتہائی اہم منصوبے کا آغاز کیا گیا جو اگر وقتِ مقررہ پر مکمل ہوگیا ہوتا تو آج ملک کو اربوں ڈالر کا فائدہ دے رہا ہوتا لیکن اس منصوبے کا آغاز ہوتے ہی اُن لوگوں نے اپنی دکانداری چمکانے کی خاطر اِس کی مخالفت شروع کردی جو رہتے تو پاکستان میں ہیں لیکن اُن کی تمام تر ہمدردیاں اور وفاداریاں پاکستان کے دشمنوں کے ساتھ ہیں۔ اِن کی زبانوں نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف زہر اُگلا اور پاکستان کے لیے فائدہ مند منصوبوں میں مداخلت کی ہے جس کی سب سے بڑی مثال کالاباغ ڈیم ہے۔
چند سال قبل لاہور ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت کو کالاباغ ڈیم کے متعلق مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کا حکم دیا تو یہ ملک دشمن شرپسند عناصر پھر میدان میں اتر آئے اور ملکی معیشت کو درپیش خطرات کو قطعی نظر انداز کرتے ہوئے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کیخلاف کمربستہ ہوگئے۔ اِن عناصر کی حُبّ الوطنی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوںنے آج تک مسئلہ کشمیر کے حل یا بھارت کی جانب سے متنازعہ ڈیموں کی تعمیر کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا لیکن جب کبھی بھی کالاباغ ڈیم کی بات ہوئی انہوں نے یوں واویلا مچانا شروع کردیا جیسے ان کے ڈیتھ وارنٹ پر سائن کردئیے گئے ہوں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خیبرپختونخواہ کی ایک سیاسی جماعت کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں بہت پیش پیش ہے جس کی نظر میں کالاباغ ڈیم بننا دراصل ایٹم بم چلنے کے مترادف ہے جس سے ناقابلِ بیان تباہی و بربادی پھیلے گی حالانکہ حقیقت اِس کے برعکس ہے۔ خیبر پختونخواہ ہی کی ایک معتبر شخصیت ، سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ اور سابق چیئرمین واپڈا انجینئر شمس الملک کالاباغ ڈیم کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے اسے پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے ناگزیر قرار دے رہے ہیں۔ اُن کے مطابق کالاباغ ڈیم کی مدد سے صوبہ سرحد کی 8لاکھ ایکڑ زمین کو زیرِکاشت لایا جاسکے گا جو دریائے سندھ کی سطح سے تقریباً150 فٹ بلند ہے۔ یہ زمین صرف اُسی صورت میں زیر کاشت لائی جاسکتی ہے جب دریا کی سطح بلند ہو اور یہ کام کالاباغ ڈیم کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ اس کامتبادل ذریعہ دریا کے پانی کو پمپ کرکے اوپر پہنچانا ہے جس پر 5ہزار روپے فی ایکڑ سالانہ لاگت آئے گی جبکہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے بعد نہر کے ذریعے پانی ملنے سے یہ لاگت صرف 400 روپے فی ایکڑ سالانہ رہ جائے گی۔
ڈیٹا کے مطابق گذشتہ 75سالوں کے دوران دریائے سندھ میں اوسط پانی 146ملین ایکڑ رہا ہے جبکہ سالانہ اوسطاً 30ملین ایکڑ فٹ سے زائدپانی سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے حالانکہ پاکستان کاشمار آبی قلت کے شمار ممالک میں ہورہا ہے۔ پانی کی کمی کی وجہ سے ہمارا زرعی شعبہ اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے جس کی وجہ سے ہم سبزیاں دیگر ممالک سے درآمد کرنے پر مجبور ہیںجو اس وقت گوشت کے بھائو بک رہی ہیں جبکہ بھارت کا صرف ایک صوبہ پنجاب اپنے ملک کو اجناس کی ضروریات کا 57%فیصد سے زائد فراہم کررہا ہے۔ملک میں 9ملین ہیکٹر زمین زرخیز ہونے کے باوجود پانی نہ ہونے کی وجہ سے بیکار پڑی ہے جبکہ بھارت نے پاکستان کے حصے میں آنے والے دریائوں پر بھی ڈیم بناکر راجھستان کی لاکھوں ایکڑ اراضی آباد کرلی ہے ۔دوسری طرف پانی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے تھر اور چولستان کے تقریباً ایک کروڑ ایکڑ رقبے پر خاک اڑ رہی ہے۔ اگر صنعت کی طرف نظر دوڑائیں تو وہ بھی شدید مشکلات کا شکار نظر آتی ہے۔ بجلی تمام صنعتوں کے لیے روح جبکہ مصنوعات کے لیے خام مال کا درجہ رکھتی ہے لیکن ایک طرف تو روزانہ دس دس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے اور دوسری طرف بجلی کے نرخ خطے کے دیگر ممالک کی نسبت کہیں زیادہ ہیں جس کی وجہ سے ہماری مصنوعات معیاری ہونے کے باوجود عالمی منڈی میں مقابلہ نہیں کرپارہیں۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے مختصراً فوائد یہ ہیں کہ موجودہ آبی ذخیروں کی گنجائش میں پیدا ہونے والی کمی دور ہوگی جبکہ دریائے سندھ سے فصلوں کو آبپاشی کے لیے پانی بروقت مہیا ہوگا، ملک میں وافر توانائی پیدا ہوگی جو صنعت اور عوام کو سستے داموں مہیا ہوگی، دریائے سندھ سے فصلوں کو آبپاشی کے لیے بروقت پانی فراہم کیا جاسکے گا جس سے پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ دریائے سندھ میں آنے والے سیلاب پر قابو پاکر تباہی کی روک تھام کی جاسکے گی جس سے سالانہ ایک ارب ڈالر سے زائد کا فائدہ ہوگا۔ مزید یہ کہ کالا باغ ڈیم خود پانی استعمال نہیں کرے گا بلکہ اس میں سیلاب کا پانی ذخیرہ کیا جائے گا جو آبپاشی کی غرض سے تمام صوبوں کو سارا سال فراہم کیا جائے گا۔ سرحد ، سندھ اور بلوچستان کو وافر پانی دستیاب ہوگا جس سے یہ صوبے زرعی دولت سے مالا مال ہو جائیں گے توپھر یہ کیوں نہ سمجھا جائے کہ کالاباغ ڈیم کے دشمن پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے دشمن ہیں۔ بجلی کے بڑھتے ہوئے بحران اور پانی کی قلت کے پیش نظر سال 2020ء تک پاکستان کو کم از کم تین بڑے ڈیموں کی ضرورت ہے جن میں سب سے اہم کالاباغ ڈیم ہے جو نہ صرف زرعی شعبے میں انقلاب لائے گا بلکہ ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی میں بھی بہت اہم کردار ادا کریگالہذا حکومت بلاتاخیر کالاباغ ڈیم پراجیکٹ پر کام شروع کرے۔ موجودہ حکومت صنعت و تجارت کی بہترین کے لیے بہت اہم اقدامات اٹھارہی ہے جس کے بہت اچھے نتائج نظر بھی آرہے ہیں لہذا توقع ہے کہ آئندہ وفاقی بجٹ میں کالاباغ ڈیم کے لیے خاطر خواہ فنڈز مختص کرکے روشن مستقبل کی بنیاد رکھ دی جائے گی۔
یران-اسرائیل کشیدگی اور مہنگائی کی لہر
Apr 15, 2024