ریاستی ادارے پاکستانی ریاست کے خلاف اسلحہ نہ اٹھانے والے عسکریت پسند گروہوں کو اگر نام نہاد مرکزی دھارے میں لانے کا تجربہ کرنے پر بضد ہیں توپھر جمہوری اداروں پر لازم ہے کہ وہ سیاسی عمل میں انکی شرکت کے قواعد کو واضح اور جمہوری بنائیں۔ عسکری گروہوں کو مرکزی سیاسی دھارے میں لانے کا حالیہ خفیہ انداز ناقابل قبول ہے۔ تضادات سے بھرپور اداریے کا طرزِ استدلال ملاحظہ فرمائیں "اسلحہ نہ اٹھانے والے عسکریت پسندوں" کی انوکھی اصطلاح گھڑ کر قارئین کی آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے اور کس دیدہ دلیری سے کھلے بندوں ہونے والے انتخابی عمل میں ریاستی اداروں کو گھسیٹا جارہا ہے۔ ملی مسلم لیگ نے ضمنی انتخاب میں کچھ ایسے اندازمیں شرکت کی کوشش کی جیسے عمومی سیاسی جماعتوں پر لاگوہونے والے ضابطوں کا اس پر اطلاق نہیں ہوتا۔ درحقیقت ملی مسلم لیگ اور اس طرح ابھرنے والے دیگر گروہوں پر خصوصی قواعد نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ دیکھئے کس خوبصورتی سے اللہ اور اسکے نام لیواو¿ں کےلئے خصوصی قوانین کی تشکیل کے مشورے دئے جارہے ہیں آغاز میں عوامی سطح پر دہشت گردی، عسکریت پسندی اور انتہاء پسندی سے لاتعلقی اور آئینی جمہوری عمل کے ناقابل تنسیخ ہونے کا اعلان کیاجائے۔ریاستی ادارے تجربہ کےلئے سیاسی عمل کو مرکزی دھارے میں شمولیت کے غیرتصدیق شدہ اور غیرآزمودہ نظریہ کی بھینٹ نہیں چڑھایا جاسکتا۔ سیاسی عمل کا حصہ بنانے کی اجازت دینے کی صورت میں ریاست ایسے گروہوں کی مسلسل پڑتال کویقینی بنائے۔لبیک یارسول اللہ اور ملی مسلم لیگ نے این اے 120میں مساجد کو انتخابی مہم کے مراکز کے طورپر استعمال کیا۔الیکشن کمشن کو ایسی سرگرمیوں سے متعلق اپنے قواعد پر نظرثانی کرنی چاہئے اور مقامی سطح پر نفاذ قانون کے ذمہ داروں کی مساجد، مدارس اور سماجی بہبود کے مراکزکی مسلسل نگرانی کرنا ہوگی تاکہ پرتشدد نظریات اور انتہاءپسندی کے فروغ کو روکنا یقینی بنایا جائے۔ جمہوری عمل کا دروازہ کھلا ہے اورمتنوع سیاسی افکار کو گنجائش دے رہا ہے لیکن یہ آزادی ان گروہوں کو نہ دی جائے جو اسے پاکستان میں قانون کی حکمرانی، دستور اور جمہوریت کی تباہی کیلئے استعمال میں لائیں۔ عسکریت پسندی ترک کرنے پر آمادہ عسکریت پسندوں کیلئے واضح پالیسی کی ضرورت ہے لیکن جمہوری عمل میں خفیہ انداز میں ان کی گنجائش پیدا کرنا کسی طورپر بھی درست نہیں ہوسکتا۔
عمرانی اور لسانی علوم کے استاد پروفیسر سلیم منصور خالد فلسفہ انتہاپسندی پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ فکری اور نظری اعتبارسے ہر نظریہ ہی انتہاپسندی پر استوار ہوتا ہے کہ وہ اپنی بنیاد پر پختہ یقین رکھتا اور دوسرے کومنفی نظر سے دیکھتا ہے۔ جس طرح کہ جمہوریت خود بھی، آمریت کو انتہا پسندی ہی سے دیکھتے ہوئے اسکی ہر خوبی کی نفی کردیتی ہے۔ علاقائی قوم پرست کی نظر میں دوسری قومیت رکھنے والا گردن زدنی ہوتا ہے، کہ جس طرح بلوچستان میں بے نوا پنجابی مزدوروں کو صرف اس لئے بسوں سے اتار کر قتل کردیا گیا کہ وہ محض پنجابی تھے۔ اس مثال کو آپ پھیلاتے چلے جائیں تو آج ٹی وی پر منہ بھر بھر کے مذہبی لوگوں پر تبریٰ کرنیوالے نام نہاد دانش ور بھی درحقیقت یک رخی انتہا پسندی کی دلدل میں لتھڑے نظرآتے ہیں، لیکن جادو¿ئی میڈیا کے زور پر وہ روشن خیال کہلاتے ہیں اور ان کانشانہ بننے والے ذلت ونفرت کا شکار رجعت پسند قرار پاتے ہیں۔
اس طرح انتہا پسندی کا پورا فلسفہ ہی اضافیت کا مظہر ہے۔ یارو، یہ کیسی’ غیر انتہاپسندی‘ ہے کہ چند ملزموں کو پکڑنے یا مارنے کے نام پر لاکھوں انسانوں کو مار دیا جائے؟ باقی جہاں تک مذکورہ دودینی پارٹیوں کا تعلق ہے تو یہ انتہا پسندی کے بجائے، عوامی میزان پر زیادہ ذمہ داری کے سانچے میں ڈھلنے کی راہ پر آئی ہیں۔
جنہیں نفرت کا نشانہ بنانے کے بجائے دیکھنا اور پرکھنا چاہئے۔ یہ کام عوام کرلیں گے اگر وہ انتہاپسند ایم کیوایم اور بلوچ قوم پرستوں کومنتخب کرکے، رفتہ رفتہ ، ان کے زہر کو نکال سکتے ہیں، تو یہاں بھی افراط وتفریط کے خاتمے کی سبیل پیدا ہوسکتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے وابستگان کی انتہاپسندی بلکہ ذہنی غلامی کےلئے کیا کبھی کسی نے غور کیا ہے انتہاپسندی کے خلاف عالمی سطح پر جاری مہم بارے امریکی وزیر خارجہ نے چونکا دینے والے عزائم ظاہر کیے ہیں امریکی وزیر خارجہ ریکس وائین ٹیلرسن نے دعوی کیا ہے کہ سعودی عرب کے تعاون سے دارالحکومت ریاض میں دینی کتب سے انتہاپسندی پر مبنی مواد نکالنے کےلئے کام شروع کردیا گیا ہے جس کے بعد سعودی عرب اور ساری دنیا میں انتہاپسندی سے پاک کتب پڑھائی جائیں گی جبکہ آئمہ مساجد کو نئے نصاب کے تحت براہ راست امریکی نگرانی میں تربیت دی جائیگی۔ اسلامی دنیا انتہا پسندانہ نظریات کا مقابلہ کرنے کےلئے بنیادی کردار ادا کر رہا ہے جس کےلئے'مرکز اعتدال ' کا نام تجویز کیا گیاتھا جس کا 12 رکنی بورڈ آف ڈائریکٹرز ہے مرکز اعتدال کا افتتاح صدر ٹرمپ اور شاہ سلمان نے اتوار 21مئی 2017 کو کیا تھایاد رہے کہ اس موقع پر صدر ٹرمپ نے مسلمان ممالک کے سربراہوں سے بھی خطاب کیا تھا کہا جاتا ہے کہ اس نامسعود موقع پر شاہ سلمان نے صدر ٹرمپ اور اس کی اہلیہ کو بیش قیمت تحائف بھی پیش کئے تھے ریاض سے صدر ٹرمپ سیدھے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب اترے تھے ۔ اس گروہ ستم گر کی دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ جب چاہے الفاظ کے مفہوم و معانی بدل کر رکھ دے۔ مثلاً بلوچستان کے باغیوں کیلئے جو مسلمہ اور مصدقہ اطلاعات اور دستاویزی ثبوتوں کے مطابق بھارت اور دیگر عالمی طاقتوں کی شہ پر بے گناہوں کے لہو سے خون کی ہولی کھیل رہے ہیں بلوچستان کو بندوق کے بل بوتے پر پاکستان سے چھیننا چاہتے ہیں پاک فوج کےخلاف خون ریز جنگ کر رہے ہیں انہیں کمال پر کاری سے"ناراض بچے" قرار دے کر قومی سیاسی دھارے میں واپس لانے کی اپیلیں کی جاتی ہیں یہاں بغاوت کا مفہوم ناراضگی بنا دیا جاتا ہے جبکہ پاکستان کے قلب میں ضمنی انتخاب میں حصہ لینے کے جمہوری عمل کو دائیں بازو کے عناصر کی انتہاپسندی کا فروغ بنا دیا جاتا ہے قلندر صفت غزل گو شاعر جناب حسرت موہانی نے مدتوں پہلے کہا تھا خِرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خِرد جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے اور آج یہ نام نہاد ترقی پسند بڑی ڈھٹائی اور دیدہ دلیری اپنی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر الفاظ کے مفہوم و معانی بدل رہے ہی۔ اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے چوٹی کے عالمی براڈکاسٹر اور گوشہ نشیں بزرگ دانشور جناب افضل رحمن نے کہا تھا کہ لفظ اسلام کو دہشتگردی کا مترادف بنایا جا رہا ہے جبکہ آنےوالے دنوں میں حکیم الامت' شاعر مشرق علامہ اقبال کی شاعری کو انتہا پسندی کے فروغ کا ماخذ قرار دیا جائےگا۔ اب براہ راست امریکی نگرانی میں بننے اور چلنے والا مرکز فتنہ و فساد' یہ اعتدال سنٹر کیا گل کھلائے گااس کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے اور ہمارے کور چشم روشن خیال جمہوریت پسندوں کوان شاہی فرامین پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا کہ جو ان کے عالمی ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔
حرف آخر یہ کہ اگر پاکستان کے خدمت گذار صرف مودی کی پیروی میں انتہاپسند قرار پائیں گے اور ناموس رسالت کے مقدس علم بردار بلا جرم و خطا بلڈوز کئے جائیں گے تو پاکستان کا اللہ حافظ ہے!
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024