احمقوں کی جنت میں رہنا یا کبوتر کا بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلینا اور سمجھنا کہ خطرہ نہیں ہے جیسے محاورے بڑے عرصے سے سن رہے ہیں مگرہمارے موجودہ اربا ب اختیار اور ان کی پالیسیوں کے سامنے تو یہ سارے محاورے بھی چھوٹے لگے رہے ہیں کیونکہ وہ پاکستانی معیشت کو مستقبل میں درپیش خطرات سے بے نیاز ہوکر مختلف اداروں کے اعدادوشمار کے گورکھ دھندوں میں الجھا کر قومی معیشت کے ساتھ جو مذاق کررہے ہیں گذشتہ انہتر سالوں میں بد سے بدتر دور میں بھی اس کی مثال نہیں ملتی۔ جس طرح ایک طرف ہمارا مالیاتی خسارہ دن بدن بڑھ رہا ہے اور دوسری طرف اندرونی و بیرونی قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہورہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے مجھ جیسے ایک ادنیٰ سا تاجر وصنعتکاربھی پریشان ہے مگرہمارے معاشی اداروں میں بیٹھے ہوئے افلاطون اپنے ملک کے معاشی زمینی حقائق سے پہلو تہی کررہے ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ اقتصادی اور منصوبہ بندی کے اداروں میں بیٹھے اعلیٰ عہدیدار پچیس تیس سال سے اپنے عہدوں پر براجمان ہیں جس میں صرف وزیر خزانہ بدلتے رہتے ہیں ۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے معاشی افلاطونوں کی ترجیحات کیا ہیں مگر انکی عاقبت نا اندیش حکمت عملی کی وجہ سے ہمارے ملک کی معاشی پالیسی مسلسل صنعتی سے ہٹ کر عالمی اداروں کی مرضی ومنشاء کے تحت تجارتی ہورہی ہے ۔ دوسری طرف برآمدات میں مسلسل کمی اور اس کی مناسبت سے درآمدات میں اضافہ اس بات کا عندیہ دے رہا ہے کہ ہمارا مالیاتی خسارہ بھی مسلسل بڑھ رہا ہے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کی تقریباً 95فیصد آبادی مالیاتی خسارہ یا کرنٹ اکائونٹ کی اصطلاح سے بھی ناواقف ہے۔ مالیاتی خسارے کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ جس ملک میں ڈالرز بیرون ملک سے کم آئیں جبکہ زیادہ ڈالرز بیرون ملک جائیں تو اس کا مطلب ہے کہ اس کو مالیاتی خسارے کا سامنا ہے بلکہ عام فہم انداز میںیوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ کسی شخص کی آمدنی کم ہو مگر اخراجات زیادہ ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ اس شخص کو مالی کمی کا سامنا ہے اور اس کمی کو پورا کرنے کیلئے اس کو قرضہ یا امداد کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی ملک کو مالیاتی خسارہ کا سامنا ہو اورمالیاتی خسارہ بتدریج بڑھتا جارہا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ملک معاشی پستی و تنزلی کی دلدل میں اترتا جارہا ہے۔
اس تناظر میں دیکھیں تو ہمارا ملک معاشی تباہی کے کنویں میں گررہا ہے جس کا ثبوت موجودہ حکومت کے تین سالوں کے یہ اعدادوشمار ہیں: 2013-2014 میںہماری برآمدات 25110ملین ڈالرز اور درآمدات 45073ملین ڈالرز کے ساتھ مالیاتی خسارہ 19963ملین ڈالرز رہا۔ 2014-2015 میں ہماری برآمدات23667ملین ڈالرز جبکہ درآمدات 45826ملین ڈالرز رہیں تو ہمارا مالیاتی خسارہ22153ملین ڈالرز ہوا اور 2015-2016 میں ہماری برآمدات صرف 20802ملین ڈالرزجبکہ درآمدات 44765ملین ڈالرز رہیں اس طرح ہمارا مالیاتی خسارہ 23963ملین ڈالرزرہا۔ اسی طرح موجودہ مالی سال کے پہلے دو مہینوں جولائی اور اگست میں بھی برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ کا رجحان جاری ہے جس کی وجہ سے مالیاتی خسارہ بھی بڑھتا جارہا ہے۔مرکزی بینک کی انیس اگست 2016 کی رپورٹ کے مطابق "برآمدات اور بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات میں کمی کی وجہ سے جولائی 2016میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ پچھلے سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں 152فیصد بڑھ گیا ہے کیونکہ جولائی2015میں یہ خسارہ 591ملین ڈالرز تھا جو اب 234ملین ڈالرز ہوگیا ہے۔
جولائی2015میں درآمدات 1.757بلین ڈالرز تھیں جو اب جولائی2016میں 14.2فیصد کمی کے بعد 1.506بلین ڈالرز ہوگئی ہیں۔ اسی طرح جولائی2015میں درآمدی خدمات کی مد میں 701 ملین ڈالرز وصول ہوئے تھے مگر اب یہ 53فیصد کمی کے بعد327ملین ڈالرز ہوگئے ہیں۔ اسکے علاوہ بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات جولائی 2015 میں 1.664 بلین ڈالرز موصول ہوئی تھیں مگر اب اس میں 20فیصد کمی کے بعد 1.328بلین ڈالرز ہوچکی ہیںـ"۔ اسکے ساتھ یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود ہمارے مالیاتی خسارے میں کمی کیوں نہیں ہوئی؟ کیونکہ پیٹرولیم مصنوعات کے درآمد ی بل کی ادائیگی کیلئے پاکستان کو بھاری ادائیگی کرنے پڑتی ہے مگر تعجب یہ ہے کہ اگست2013میںبین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت 108ڈالرز فی بیرل تھی جو اب بتدریج کم ہوتے ہوئے 46ڈالرز فی بیرل ہوچکی ہیں یعنی بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں 57فیصد کمی آئی ہے مگر مالیاتی خسارے میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہورہا ہے اس لئے جب کسی ملک کا مالیاتی خسارہ بڑھ رہا ہو توپھراس کمی کو پورا کرنے کیلئے قرضوں کے حصول کی کوششیں شروع کی جاتی ہیں کشکول اٹھائے اور ہاتھ پھیلائے جاتے ہیںاوراسکے بعد اپنے اثاثے بیچے اور نجکاری کی جاتی ہے اور اسی بات کا پیش خیمہ ہے گذشتہ دس سالوں سے بیرونی قرضوں کے حصول میں 80 فیصد اضافہ ہوچکا ہے اور بیرونی قرضوں کا حصول اسی طرح جاری رہا تو 2020تک پاکستان پر بیرونی قرضہ 90بلین ڈالرز سے تجاوز کرجائیگا۔
المیہ تو یہ ہے کہ حکومت سے قبل کشکول سے چھٹکارا پانے کا دعویٰ کرنیوالی مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت کے عملی وزیر اعظم و وفاقی وزیر خزانہ محترم اسحاق ڈار صاحب بھی عالمی مالیاتی اداروں کی دہلیز پر سوٹ کیس اٹھائے کھڑے رہے اورقرضوں کا حصول بڑی شدومد سے جاری رکھا اور اب جولائی 2016 میں ہمارے اوپر 72978ملین ڈالرز کا قرضہ ہوچکا ہے۔جب ایک باردرآمدات اور برآمدات میں عدم توازن پیدا ہوجاتا ہے توپھر قرضوں کے حصول پر مجبورہونا پڑتا ہے اورقرضہ بڑھ جاتا ہے تو پھر قرض دینے والا اپنی من مانی کرتا ہے اور یہی ترقی پذیر ممالک بالخصوص پاکستان کیلئے عالمی مالیاتی اداروں اور طاقتوں کا مطمحِ نظر ہے اس لئے ہمارے ارباب اختیار کو ملک کے بہتر اور حقیقی مفاد کیلئے سنجیدہ ہوجانا چاہیے ، برآمدات بڑھانے اور درآمدات کم کرنی کی عملی اور حقیقی کوششیں کرتے ہوئے مالیاتی خسارے کو کم کرنا چاہیے، قرضوں کے حصول سے باز آجانا چاہیے اور اپنے ملک کے زمینی حقائق کے مطابق اپنی پالیسیاں بنانا چاہیے تو اسی میں ملک و قوم کی ترقی کا راز پنہاں ہے۔