تین روز قبل بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے نیا جال پھینکتے ہوئے کہا کہ کشمیر ( مقبوضہ ) کے معاملے کو حل کرنے کیلئے بھارتی خفیہ ادارے ’’ آئی بی ‘‘ کے سابق سربراہ ’’ دنیشور پرشاد شرما‘‘ کی قیادت میں ایک مذاکراتی ٹیم تشکیل دی ہے جو اس معاملے کو حل کریگی۔
اس معاملے کا قدرے تفصیل سے جائزہ لیتے مبصرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ ایک سابق انٹیلی جنس افسر کی بطور ثالث تعیناتی، زمینی حقائق اور پیشکش کے لہجے سے یہ امر عیاں ہے کہ دہلی سرکار اس ضمن میں ذرا سی بھی سنجیدہ ہوتی تو معاملات کو یوں غیر تعمیری انداز میں نہ لیتی۔ یہاں یہ امر بھی پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ مذکورہ ثالث موصوف کا تعلق بھارتی صوبہ بہار سے ہے لیکن وہ 1979 میں کیرالہ کیڈر سے پولیس میں بھرتی ہوئے اور رواں سال کے اوائل میں بحیثیت IB چیف ریٹائر ہوئے اور انھیں بھارتی NSA اجیت ڈووال کے انتہائی قریب تصور کیا جاتا ہے ۔بہر کیف اس تقرری کو محض وقت گزاری اور گجرات انتخابات میں لوگوں کا دھیان بٹانے کے ایک حربے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے ۔ وگرنہ بھارت LOC پر آئے روز کی اشتعال انگیزیاں بند کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ اپنی پیدا کردہ کشیدگی کم کر کے اس مسئلے کے حل کیلئے کوئی سنجیدہ روڈ میپ دیتا ۔
اسی پس منظر میں ماہرین نے کہا ہے کہ بھارتی حکمرانوں کا روزِاول سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ اکھنڈ بھارت اور رام راجیہ کے قیام کا خواب دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔اپنی اس مذموم روش کے زیرِاثر انہوں نے حیدر آباد دکن،جونا گڑھ اور مناور کو ہڑپ کیا، گوا اور سکم پر قبضہ کیا اور ان سب سے بڑھ کر مقبوضہ کشمیر پر اپنا نا جائز تسلط جمایا اور اسے قائم رکھنے کیلئے دہلی سرکار بد ترین قسم کی ریاستی دہشتگردی جاری رکھے ہوئے ہے اور ابھی تک ایک لاکھ کے لگ بھگ معصوم کشمیریوں کو تہہ تیغ کیا جا چکا ہے۔ روز LOC پر بھارت کی جانب اشتعال انگیزی کی جاتی ہے ۔ مگر مقبوضہ کشمیر کے نہتے مگر جری عوام اپنی لازوال جدوجہد آزادی جاری رکھے ہوئے ہیں،اسی تناظر میں پوری کشمیری قوم 27 اکتوبر کا دن ’’یومِ سیاہ‘‘ کے طور پہ منا رہی ہے۔
یاد رہے کہ 27 اکتوبر1947 کوتمام اخلاقی بین الاقوامی ضابطوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انڈین آرمی نے ریاست جموں کشمیر پر ناجائز قبضہ کر لیا اور بھارت کا یہ غاصبانہ تسلط 70 برس گزر جانے کے بعد بھی ہنوز جاری ہے۔ حالانکہ اس نا جا ئز قبضے کے بعد کئی برسوں تک بھارت یہ وعدہ کرتا رہا کہ کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کی غرض سے حق خودرادیت کا موقع فراہم کیا جائیگا بلکہ اسی ضمن میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اگست 1948ء اور 5 جنوری 1949ء کو باقاعدہ قراردادوں کے ذریعے اس امر کا اظہار کیا کہ کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دیا جائے تا کہ وہ فیصلہ کر سکیں کہ وہ بھارت کی غلامی میں رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ اپنا مستقبل وابستہ کرنا چا ہتے ہیں جسکے ساتھ ان کا مذہبی،ثقافتی رشتہ صدیوں سے قائم ہے۔
ہندوستانی حکمرانوں کی وعدہ شکنی کا تو یہ عالم ہے کہ ابتدائی برسوں میں اس وقت کے بھارتی وزیرِ اعظم نہرو نے ایک سے زائد مرتبہ واضح طور پر اعتراف بھی کیا اور کھلے لفظوں میں اعلان بھی کہ کشمیریوں کو ہر حال میں رائے شماری کا حق دیا جائیگا،مگر بھارتی حکمرانوں کی کہہ مکرنیوں کی اس سے بڑی اور بدترین مثال کیا ہو گی کہ وقت گزرنے کے ساتھ پنڈت نہرو نے مقبوضہ ریاست کی بابت ’’اٹوٹ انگ‘‘ کا راگ الاپنا شروع کر دیا ۔
بہرحال موہوم امید ہی کی جا سکتی ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے اور سول سوسائٹی یومِ سیاہ کے اس موقع پر دہلی سرکار کی جانب سے جاری ریاستی دہشتگردی کے تدارک کیلئے کوئی ٹھوس کردار ادا کریگی ۔