مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ ہماری بعض اندرونی و بیرونی پالیسیوں نے ہی ملک کے اندرونی و بیرونی حالات کو خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ آج ملک جن حالات سے دوچار ہے، اس کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی تھی، لیکن دشمنان وطن کی ”کامیابی“ دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہاہے.... پورا ملک جام کرنے میں قصورحکومت کا ہے یا مظاہرین کا مگر ”پاکستان“ مشکل میں آگیاہے،ہماری نوجوان نسل آج کے پاکستان کے بارے میں خاصے فکرمند نظر آرہے ہیں، وہ یہ سوال کررہے ہیں کہ اُن کے لیے کیسا پاکستان چھوڑ کر جارہے ہیں .... باپ اپنے بچوں کو اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے کہ ملک میں یہ سب کیا ہورہا ہے۔
مرے خدا وطن کی سرزمین مجھ پر تنگ ہے
مری طرف اُٹھی ہوئی نگاہ سرخ رنگ ہے
(خاکم بدہن) اگر یہاں شام، عراق، افغانستان جیسے حالات پیدا کردیے گئے تو نہ ان سیاستدانوں کا کچھ جائے گا ، نہ حکمرانوں کا اور نہ ہی بیورو کریسی کا.... اگر کسی کا کچھ جائے گا تو وہ ہے عوام کا پاکستان کا.... لہٰذاخدارا ان حالات میں عقل کا دامن تھامیں اور ملک پر رحم کریں۔ کیوں کہ تادم تحریر ریاست اپنے بچاﺅ میں ملک بھر میں مظاہرین کو قابو کرنے کی اپنے تئیں کوششیں کر رہی ہے اور اسلام آباد میں فوج کی بھی غیر معینہ مدت تک تعیناتی کر دی گئی ہے۔ بڑے شہروں کے داخلی راستے بند کر دیئے گئے ہیں۔ جہاں عوام ایک شہر میں خوار ہو رہے تھے وہیں آج پورے پاکستان کے عوام محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ حکومتی رٹ کہیں دکھائی نہیں دیتی ہر کوئی اپنے اپنے حصے کی سیاست کرتا رہا ہے، اور کر بھی رہا ہے۔ موقع پر ست سیاستدان خاموش بیٹھے دھول کے بیٹھ جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔
حکومتی ہٹ دھرمی نے آج پورے ملک کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ جس ایشو پر لوگ بات کرنے سے اجتناب کرتے ہیں حکومت نے اُسے ہوا دے کر ایک مذموم ایجنڈے کی بنیاد رکھ دی ہے۔ حالانکہ جس دن ناموس رسالتکا ایشو اُٹھا تھا، اس مسئلے کی حساسیت کو اُسی دن سمجھ جانا چاہیے تھا مگر طاقت کے نشے میں چور حکومتی مشینری نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں دکھایا۔ حکمرانوں نے شاید اس مسئلے کو ہلکا لے لیا اور ایک کمیٹی بنا کر بری الذمہ ہو گئے کہ اب حالات اُن کے حق میں چلے جائیں گے۔ مذکورہ کمیٹی نے 48 گھنٹے کے اندر اس بات کا تعین کرنا تھا کہ اس مسئلے کے ذمہ داران کون کون ہیں یہ بھی وعدہ تھا کہ ”ہم اس کام میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔“ مگر کئی 48 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی اس رپورٹ کو جو راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں تیار ہوئی تھی، منظر عام نہیں کیا گیا۔
مشورہ دیا گیا کہ اس رپورٹ کو دبا لیا جائے کیوں کہ حالات اجازت نہیں دیتے کہ آپ مزید متنازع بنیں.... اسی لیے توکہتے ہیں کہ ایڈوائزر اچھے ہوں تو وہ آپ کو بحرانوں سے نکلنے کے لیے اچھے مشورے دے سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کنونشن سنٹر میں جہاں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو دوبارہ پارٹی صدر منتخب کیا گیا وہاں پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اس بات کی طرف توجہ دلائی تھی کہ ”آپ“ کے ارد گرد گاڑیوں اور جھنڈوں کی تگ و دو کرنے والے مشیروں کی فوج جمع ہوچکی ہے جن کا ساتھ اگر آپ کے ساتھ رہا تو پھر آپ کا اللہ ہی حافظ ہے۔ پھر اس کے بعد وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے زاہد حامد سے فوراََ استعفے کا مطالبہ بھی کیا تھا جسے سنا ان سنا کر دیا گیا۔
میرے خیال میں یہ وہ اقدامات تھے کہ اُسی دن صورتحال پر قابو پایا جا سکتا تھا۔لیکن کسی نے سنجیدہ نوعیت کے اقدامات کرنے سے گریز کیا۔ حکومت اسمبلیوں میں اپوزیشن کو چاروں شانے چت کرنے میں مرضی کی قانون سازی کرتی رہی اور ملک کا انتظام و انصرام اللہ توکل چلتے رہنے میں ہی عافیت جانی اور ایک حیران کن امر یہ بھی ہے کہ جس دن دھرنے کے چند سو شرکاءلاہور سے نکلے تو گوجرانولہ پولیس نے باقاعدہ اُن کے لیے لنچ کا اہتمام کیا۔ اُس کے بعد جہلم کی پولیس نے پروٹوکول کے ساتھ انہیں اسلام آباد و راولپنڈی پولیس کے حوالے کیا۔ اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ کی رضا مندی سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ دھرنے والے اسلام آباد نہ جائیں اس لیے انہیں جانے سے روکنے کے لیے راولپنڈی انتظامیہ نے بھی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیا اور انہیں ایک ایسی جگہ بٹھایا جہاں پر دونوں شہروںکی پولیس کی حدود کا تنازع ہے۔ اور بنیادی ذمہ داری کسی پر بھی عائد نہیں ہوتی۔ یعنی دونوں شہروں کی انتظامیہ نے اپنی اپنی جان چھڑانے کے لیے انہیں یہاں لا کر بٹھا دیا۔ اور اس کے بعد کسی نے ان کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات نہیں کیے۔ نہ ہی کسی نے ان کے معاملات کو حل کرنے کے لیے قدم اُٹھایا،بلکہ 342ارکان پارلیمنٹ میں سے ماسوائے میر ظفر اللہ خان جمالی کے کسی میں اتنی جرا¿ت نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی کا ضمیر جاگا کہ وہ ناموس رسالت پر بات کرسکے یا ناموس رسالت پر حکمرانوں کے کان کھول سکے۔ بہرکیف میر ظفر اللہ خان جمالی کے مشورے پر کسی نے کان تک نہیں دھرے اور جب حکمرانوں کی یہ ذہنی حالت ہو اور وزیر اعظم پاکستان پیمرا کے چیئرمین کو خود فون کرکے چینلز بند کرنے کا کہیں ۔ تو اس طرح کے حالات میں آپ کیسے تصور کر سکتے ہیں کہ ایک گڈ گورننس کی حکومت چل رہی ہے یا ایک کامیاب سیاسی جماعت ملک کے نظم و نسق کو چلا رہی ہے۔
ناموس رسالتپر جان بھی قربان ہے، لبیک یار سول اللہ کی تنظیم سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں لیکن ناموس رسالت پر کیا ہوا ایک کسی کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہے۔ جس کسی نے بھی یہ حرکت کی تھی اُس کا فیصلہ میاں نواز شریف کی 48گھنٹے کی رپورٹ کے مطابق ہو جانا چاہیے تھا۔ اور میرے نزدیک آج بھی اس حکومت کو بعض وزرا اور مشیروں کو فی الفور فارغ کر دینا چاہیے جو اس کام میں ملوث پائے گئے ہیں اور سب سے اہم یہ کہ ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر لانی چاہیے تاکہ ن لیگ خود احتسابی کر سکے اور عوام کی نظروں میں اپنے امیج کو بہتر بنا سکے کیوں کہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن سمیت بہت سی رپورٹس جس میں اس کے اپنے لوگ قصور وار ہیں انہیں سازش کے تحت دبا لیا جاتا ہے۔
میرے خیال میں تمام حکمرانوں کو قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ جنہوں نے بدنیتی کے سبب ان حالات کو پروان چڑھایا جس کا ملک متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ اور انہیں کہنا چاہیے کہ ہمیں معاف کردیا جائے اور آئندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی۔ کیوں کہ سیاست اپنی جگہ پر مگر صاحب ایمان کوئی بھی شخص ناموس رسالت کے حوالے سے کمپرومائز نہیں کر سکتا۔ اور اس حساس موضوع پر سیاست کرنے والے سیاستدانوں کے لیے بھی کوئی معافی نہیں ہے۔ ہم جمہوریت جمہوریت ضرور کرتے ہیں مگر جمہوریت کا ہر گز یہ مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے فیصلے عوام پر مسلط کرنے کی کوشش میں ملک کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیں۔ یا آپ عوامی رائے کے برخلاف فیصلے کریں۔ ہمیں یہ کہتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے کہ ہم مسلم سٹیٹ ہیں اور ہم مسلم سٹیٹ میں قرآن و سنت کے احکامات کی روشنی میں ملک کو چلا سکتے ہیں۔ مغربی دنیا سے ڈکٹیشن لے کر ملک چلانے میں بتائیں کس کا فائدہ ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ دوسری اقوام، مذاہب اور اقلیتوں کا احترام کیا جائے۔ لیکن اُن کی خوشنودی کے لیے اپنے قوانین میں تبدیلی کا کسی کو اختیار نہیں ہے۔
آج ملک میں ہونے والے واقعات عالمی سطح پر پاکستان کی رسوائی کا سامان پیدا کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کوئی بھی قوم اجتماعی طور پر پکڑ میں اس وقت آتی ہے جب معاشرے سے سچ، عدل و انصاف، انسانیت اور انسانی ہمدردی اٹھ جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہم ان تمام خصائل سے محروم ہو چکے ہیں بلکہ محروم کر دئیے گئے ہیں اور مزید دکھ کی بات یہ ہے کہ ان خصائل سے محروم کرنیوالی نیک ہستیاں وہی ہیں جو قانونی طور پر ہمارے محافظ ہیں جو معاشرے کی تعمیر، معاشرے کی اصلاح اور معاشرتی کردار کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ اچھے کردار کا پھول سب سے پہلے چوٹی پر ہی کھلتا ہے۔ جس سے ماحول معطر ہوتا ہے لیکن کیا کریں اب چوٹی پر پھول نہیں کھلتے بلکہ پورا پودا جڑوں تک کرپشن کا شکار ہوچکا ہے۔ پورا ماحول انسانی اقدارسے محروم ہو چکا ہے اور ظاہر ہے جب ایسا ماحول ہوگا تو عذاب نہیں آئیگا تو اور کیا آئیگا؟۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024