بڑے دنوں کے بعد وہ دونوں اکٹھے بیٹھے، وہی کھٹی میٹھی باتیں اور کچھ سیاسی رونے دھونے۔ زندگی کے سبھی معاملات میں اتفاق مگر سیاسی معاملات میں سدا کی پکی بے اتفاقی۔ سکندر میاں کی شائستگی اور شاہ جی کی بےباکی کو سیاسی گرو سمجھیں، نہ سمجھیں، لیکن دماغ خوب سمجھتا ہے۔ کاش اس دماغ کی یہ پاگل دل بھی سمجھے۔۔۔۔ (جی، سنئے دو دوستوں کا "غیر سیاسی مکالمہ"):
شاہ جی: ارے سکندر میاں! تاریخ تو یہی کہتی ہے کہ، جب کسی تحریک میں دینی لوگ شامل ہو جائیں تو کامیابی نے اس تحریک کے قدم ضرور چومے۔ وہ تحریک پاکستان ہو یا ماضی کی تحریک ختم نبوت۔ یار ! کیا اس بات کا ادراک عصر حاضر کی حکومت کو نہیں؟
سکندرمیاں: حکومت کو بالکل ادراک ہے، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر داخلہ پروفیسر احسن اقبال بالغ نظر دکھائی دئیے، انہوں نے کئی دن صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ لیکن تحریک لبیک والوں نے شرافت اور نزاکت سے ناجائز فائدہ اٹھایا۔ جب مسئلہ حل ہوگیا تھا۔ اور پہلا حلف نامہ بحال ہوگیا تھا، اور مان لیاگیا کہ "انا خاتم النبیین لا نبی بعدی"۔۔۔۔۔ تو شورش برپا کرنے کی ضرورت کیا تھی؟
شاہ جی: واہ، میاں واہ، پہلے کہا سرے سے غلطی سرزد ہوئی ہی نہیں۔ بعد میں کہا گیا کہ ساری جماعتوں نے مسودہ دیکھا تھا اس وقت کیوں نہ بولے۔ پھر کہا اقرار نامہ کو ماضی کا حلف نامہ ہی بنا دیا گیا ہے پس تسلی رکھیں، گویا خود ہی ظاہر کردیا کہ غلطی تو ہوئی تھی مگر تسلیمات کی جرا¿ت کا فقدان ٹھہرا۔ ارے بھئی! میاں شہباز شریف نے تو بروقت کہہ دیا تھا کہ "ذمہ دار" شخص کو سزا ملے گی۔ پھر آئیں بائیں شائیں کا کیا تک بنتا تھا۔ ایک وزیر ہی تھا ، وہ خود استعفی دے دیتا یا لینے والا لے لیتا، کون سی قیامت آجاتی؟ تاریخ سے تھوڑی سی بھی واقفےت رکھنے والا اس سے آشنا ہے کہ، ختم نبوت کے حوالے سے پاکستانی انتہائی حساس ہیں۔ مجلس احرار اسلام، علمائے دیوبند، جماعت اسلامی و سید ابو الاعلی مودودی، علمائے اہلحدیث بالخصوص مولانا ثناءاللہ امرتسری و علامہ احسان الہی ظہیر اور جمعیت علمائے پاکستان کے بزرگوں مولانا شاہ احمد نورانی اور مولانا عبدالستار نیازی کی خدمات کو کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے۔ سارا کچھ فیس بک ہی میں نہیں غرق ہوگیا، مطالعہ کا ذوق رکھنے والا آج کا نوجوان حالات و واقعات و معاملات کو سمجھتا ہے۔ ابھی شکر کریں کہ مجلس احرار اسلام یا جماعت اسلامی نے تحریکی ری ایکشن شو نہیں کیا۔ اقوام کی اصلاح یا امن کے لئے ایک وزیر کی وقعت ہی کیا ہے، اگر اسے گھر بھیج دیا جائے۔ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو، زرداری صاحب نے اپنی پوری بلوچستان حکومت کو گھر بھیج دیا حالانکہ اس کے ردعمل میں ان کی بلوچستان کی ساری پارٹی ختم ہو گئی! جنوری 2013 میں، کوئٹہ میں ہونے والی دہشت گردی میں 100 کے قریب ہلاکتوں کے بعد ہزارہ شیعہ کمیونٹی نے بطور احتجاج وزیر اعلیٰ بلوچستان کی معطلی کا مطالبہ تو وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے آئین کے آرٹیکل 234 کے تحت گورنر راج کے نفاذ کا نوٹی فیکیشن جاری کیا جو ضروری تھا، حالانکہ وزیراعلی اسلم رئیسانی نے احتجاج کیا تھا کہ دہشتگردی تو باقی 3 صوبوں میں بھی ہے، اور معاملہ سیکورٹی ایجنسیوں کا ہے، معطلی میری حکومت ہی کی کیوں؟
شاہ جی: کوئی بس شس نہیں۔ آپ یہ بہانا نہ دیں نا۔ تجربہ کار ہیں، پہلے دوحکومتیں تڑوا چکے ہیں۔ پھر، طشتری میں بہانے رکھ کر دیتے ہی کیوں ہیں؟ دھرنوں سے، ڈان لیکس، پاناما لیکس کی تازہ تاریخ سے، جنہوں نے کچھ نہیں سیکھا وہ پرانی تحریک و تاریخ سے بھلا کیا سیکھیں گے؟۔۔۔۔ پچھلے دور نواز شریف میں آپ لوگوں نے بلاوجہ و بلاضرورت جمعہ کی چھٹی کر کے اتوار کی شروع کردی، وہ جمعہ کی چھٹی جو عوامی امنگوں پر ذوالفقار علی بھٹو نے دی۔ کیا آپ کو یاد ہے عوام اور علماءکی تحریک کی بدولت اورمطالبے کے تناظرمیں ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 میں قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا تھا جبکہ یہ مطالبہ دیرینہ تھا اور 1953 میں شباب پر رہا۔ 1953 میں مولانا مودودی کو اسی مطالبے کی پاداش یعنی ”قادیانی مسئلہ" کتاب تصنیف کرنے پر موت کی سزا دی جاتی ہے۔ اس کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہو سکتی تھی تاہم گورنر جنرل سے رحم کی اپیل کر سکتے تھے۔ جبکہ مولانا مودودی نے اپیل سے انکار کردیا۔ بعد ازاں ان کی اور مولانا عبدالستار نیازی کی سزائیں عمر قید میں بدل گئیں بالاخر اس سے بھی بری ہوگئے۔۔
سکندر میاں: (غصے سے) شاہ جی آپ بھی بات کا بتنگڑ بنا دیتے ہیں۔ کہاں 1953 اور کہاں آج 2017؟ آج نہ کوئی مسئلہ، نہ کوئی ویسا مطالبہ اور نہ کوئی ایسے مطالبے کی ضرورت۔ الحمدللہ! قادیانیوں کا شمار اقلیت میں ہے۔ فرض کرو غلطی ہوئی بھی، تو سدھار لی گئی۔ اور کیا تمہیں نہیں معلوم کہ، انٹلیکچوئیل وزیر داخلہ پروفیسر ڈاکٹر احسن اقبال (انجینئر) جہاندیدہ اور مذہبی آدمی ہیں اوپر سے سابق جماعتئے بھی، ان کی نیت اور شخصیت پر شک کی گنجائش کہاں بچتی ہے؟
شاہ جی: (ہنستے ہوئے) ارے سکندر میاں! آپ بھی احسن اقبال صاحب کی طرح ضرورت سے زیادہ پڑھے لکھے ہو۔ اور میں کب کسی کو سوڈو انٹلیکچوئیل کہہ رہا ہوں۔ بابا! محض ماضی کے دریچوں سے معاملے کی نزاکت دیکھنے کی استدعا کر رہا ہوں۔ اور عرض و غرض ہے کہ حساسیت سمجھیں۔ گر سیاسی ہتھکنڈا یا باریک واقعہ بھی ہے،تو آپ اسے سیاسی بننے کا موقع ہی نہ دیں۔ مانا کہ نیت صاف ہے۔ صاف ہے،تو یہ باب بند کریں، راجہ ظفرالحق رپورٹ منظر عام پر لائیں، زاہد حامد کو چلتا کریں، دیکھئے گا سب مسائل حل۔۔۔۔ سکندرمیاں: اچھا تو آپ جناب احسن اقبال کے دفعہ 245 کے استعمال کے تحت اسلام آباد میں فوج بلانے پر طنز فرما رہے ہیں؟ شاہ جی: نہ، نہ! میں دفعہ کے استعمال پر یا فوج کے استعمال پر کچھ نہیں کہہ رہا، اور نہ اس جلاو¿ گھیراو¿ پر کسی کو طنز و مزاح سوجھ رہا ہے۔ مرثیہ نگاری سوجھ رہی ہے کہ، ایسی نوبت ہی کیوں آنے دی؟ پہلے کیوں سوئے موئے رہے؟ واللہ دکھ ہے کہ، آپ جیسے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کی بدولت اور کم نظری کے سبب ملک و ملت کا نقصان ہوا، وزرائ کے گھر اور حویلیوں کو نقصان پہنچانا بھی قابل مذمت ہے۔ لیکن۔
سکندرمیاں: لیکن ویکن کیا؟ آپ کا مطلب ہے جو جہاں سے چند سو اٹھ آئیں، تو ان کی فرمائش پر وزرائ کو گھر بھیج دیا جایا کرے؟ یا ناجائز مطالبات مان لئے جائیں؟ کیا تمہارے خیال میں حکومت اس قدر کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے؟ یہ حکومت مضبوط ہے اور ہیوی مینڈیٹ کی حامل بھی ! تمہیں معلوم ہے اگر کسی کو شک بھی تھا تو پی پی پی کا بل لانے پر اور واضح ناکامی پر نتیجہ میاں صاحب کی عدالتی نااہلی کے باوجود پارٹی صدر رہنے پر سب کی خوش فہمیاں غارت ہوئیں۔
شاہ جی: آہ تم نہ سمجھو گے بالم! پہلی بات، یہ کوئی ینگ ڈاکٹرز یا بےبس فارماسسٹوں کا مطالبہ و معاملہ نہیں ہے یہ بھولے بادشاہوں۔ دوسری بات، حکومتوں کی مضبوط بنیاد محض مینڈیٹ نہیں ہوتا۔ بلکہ (1) اخلاقی اقدار (2) آئین کی پاسداری (3) طرزتکلم اور طرزعمل میں مطابقت (4) خارجی و داخلی بلوغت، جیسے ستون ہوا کرتے ہیں۔ رہی بات اسمبلی کی عددی اکثریت کی، تو جناب ابھی اقتدار ہے ذرا دیکھئے گا اس وقت جب اقتدار کی ہما سر پر جلوہ افروز نہ ہوئی! مزید تفصیل چاہئے تو زاہد حامد نہ سہی کسی بیرسٹر ظفر اللہ یا آصف کرمانی ہی سہی سے اندر کی کہانی پوچھ لیں۔!
سکندر میاں: (آگ بگولہ ہوتے ہوئے) جاو¿ گھر کا راستہ لو، شاہ جی! کتابی باتیں نہ کرو یہاں۔ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ لوگوں کو یاد نہیں؟ یہ سڑکوں کے جال بھول گئے لوگ؟ دہشت گردی کم کس نے کی؟
شاہ جی: ہاں ہاں! موٹروے اور دوسری املاک گروی میں نے رکھوائیں نا؟ پاکستان کی تاریخ کا ریکارڈ قرضہ میں نے لیا؟ اور ساڑھے چار سال ممبران اسمبلی اور وزراءکو جناب میاں نواز شریف نے تو بہت لفٹ کرائی میں نے نہیں کرائی؟ خدا کا شکر کریں 2013 کے بعد عالمی منڈی میں پٹرول، کوکنگ آئل اور ڈالر کی قیمتیں کم ہوگئیں اور پھر سی پیک نے سہولتوں کے انبار لگا دئیے ورنہ کیا ہوتا گر عالمی حالات زرداری حکومت سے ہوتے؟ ہاں وہ زرداری سے یاد آیا، جس کو گھسیٹنا تھا آج کل اس سے بات و مذاکرات کیلئے کیوں بے تاب ہیں، جاناں!
سکندرمیاں: تمہیں کیا معلوم آج کی گڈگورننس کا، اندھا کیا جانے بسنت بہار؟
شاہ جی: پا نہ پڑھی تے وخت نوں پھڑی۔۔۔۔ عثمان ابراہیم، سائرہ افضل تارڑ، ریاض پیرزادہ، پیر صدرالدین راشدی، برجیس طاہر، رانا تنویر اور بلیغ الرحمن جیسے ریاستی و وفاقی وزرا کی کارکردگی کے پلے ہی کیا تھا اور ہے۔۔۔۔ پروفیسر وزیر داخلہ کا کس سے موازنہ کروں؟؟؟۔۔۔۔ واہ جی واہ! رحمن ملک موبائل فون بند کراتا تو کہرام مچ جاتا۔ گڈ گورننس نے تو کیبل، فیس بک، یو ٹیوب تک بند کرا دئیے!
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38