یار یہ ”محبت“ بھی عجیب چیز ہے، مرنے دیتی ہے نہ جینے دیتی ہے لیکن وہاں کیا ہو گا جہاں عارضہ محبت کے ساتھ ساتھ شہرت کی انفیکشن بھی ہو، یہ دو بلائیں عام طور پر عام آدمی کو نہیں، سیاستدان کو چپکتی ہیں، ہاں، یہ محبت اور شہرت کی دو چڑیلیں سیاستدان کے علاوہ جرنلسٹ، بیوروکریٹ اورکبھی کبھی ٹیکنو کریٹ کے رگ و پے میں گھر کر لیتی ہیں، ستم تو یہ ہے کہ محبت اور شہرت کی چڑیلیں جب ایک دماغ میں سوتنوں کی طرح رہ رہی ہوں تو پھر اس ذہن و قلب کا اللہ ہی حافظ ہے۔
اسے زہریلی خوشبوﺅں کے رنگین ہار دیتا ہوں
میں جس سے پیار کرتا ہوں اسی کو مار دیتا ہوں
بقول غالب ”حیران ہو، دل کو روﺅں کہ پیٹوں جگر کو میں۔ مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں“ کہ یہ جو ہنگامہ حسین حقانی کے ”واشنگٹن پوسٹ“ کے مضمون سے برپا ہوا۔ اس سے سدا بہار حکمران پارٹیاں یعنی مسلم لیگ ن اور پی پی پی نکالنا کیا چاہتی ہے؟ میڈیا کو کس چیز کی تلاش ہے؟ اسٹیبلشمنٹ کے لئے اس ذکر خیر میں کیا خیر ہے؟ اگر کوئی مذہب کی آڑ لے کر سیاست کرنے کا عادی ہے تو اسے اس قصہ غم سے کیا ملے گا؟ وفاقی وزیر خواجہ محمدآصف پارلیمانی کمیٹی بنا کر یا بنوا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ اپوزیشن لیڈر نے قومی اسمبلی میں پلک جھپکتے اپنے پرانے ساتھی کو غدار کیوں کہہ دیا؟ سابق وزیراعظم سید یوسف گیلانی نے پہلے ایک بار کہا کہ یہ حقانی اتنا بھی اہم نہیں میں لب کشائی کروں اور پھر پریس کانفرنس میں ذکر یار کو مضمون بنا ڈالا، آخر کس لئے؟ اور یہ میڈیا ہے کہ بال کی کھال اتارتا چلا جا رہا ہے آخر کس کے لئے؟ کوئی مجھے بتا دے کہ یہ قومی خدمت، جمہوری خدمت، اسلامی خدمت یا سیاسی خدمت ہے یا پھر کوئی حب عملی نہیںیہ محض ایک معاملہ بغض معاویہ کی شاہراہ پر ہے؟ اے کاش جانتا نہ تری رہ گزر کو میں!
ہو سکتا ہے پرانے مر چکے ہوں لیکن جو لوگ اپنے آپ کو سیاستدان، قائدین عمائدین اور زاہدوعابد کہلاتے ہیں اور 1985ءسے اسمبلیوں اور حکومتوں میں رونق افروز ہیں، کیا انہیں نہیں معلوم کہ یہ واقعہ ہے یا سانحہ؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ موٹی موٹی بات ہے کوئی باریک معاملہ اور باریک بینی پر مشتمل تحقیق نہیں؟ وہ جو زبان زد خواص ہوتا ہے وہ ہی بعد میں زبان زد عوام ہوتا ہے۔ راقم نے نوائے وقت کالم (20 مارچ 2017) ”آﺅ بحث سمیٹیں حسین حقانی کی“ میں عرض کیا تھا کہ پیاز کے چھلکے تمہیں اتارنے کا ”منصب“ سنبھالنا ہے یا جنرل ایوب خان و جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیاءالحق و جنرل پرویز مشرف کے دوار میں دیئے گئے اڈوں کو نوجوان نسل کی لب پر لا کر اور دماغ میں بٹھا کر برین ڈرین کو تیز تر کرنا ہے؟ چلئے دم خم ہے تو مہذب ممالک کی طرح پھر کلاسیفائیڈ یا حقائق پر مبنی رازوں اور خبروں کو مہذب انداز میں باقاعدہ سرکاری انداز سے باہر لے آئیں۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح، مادر ملت فاطمہ جناح، قائد ملت لیاقت علی خان، حمود الرحمن کمیشن رپورٹ، بھٹو جوڈیشل قتل، نظریہ ضرورت عدالتی کیس، اوجڑی کیمپ، ضیاءطیارہ کیس، اصغر خان کیس، بے نظیر قتل کیس، بگٹی کیس، میمو گیٹ سکینڈل اور اسامہ انکوائری کو لے آئیں سربازار!!
وہ جو میرے سمیت جو سبھی دبے لفظوں میں اسامہ بن لادن کے آنے، جانے اور رہنے کی بات کا تذکرہ کرتے تھے۔ آخر یوسف رضا گیلانی نے بھی وہ مطالبہ کر دیا، جو شاید پہلے اس بات کو زیر لب مسکراہٹ میں رکھنا چاہتے تھے۔ اسامہ بن لادن کے حوالے سے اب کئی سوال اٹھنے کے درپے ہیں۔ بہرحال میں تو کنفیوژ ہوں کیا واقعی کوئی اونٹ کو کسی کروٹ بٹھانے کے موڈ میں ہے؟ سچ تو یہ بھی ہے کہ حکومت اور پی پی پی مخالفین نے جو کیا سو کیا خود پوری پارٹی میں سے گیلانی صاحب سمیت کسی کے پاس حقانی مضمون کے تناظر میں اٹھنے والے غیر ضروری شوروغل کا صحیح جواب نہ تھا۔ اپوزیشن لیڈر بھی چاروں شانے چت ہوئے۔ آخر آصف علی زرداری نے کچھ کہی اور کچھ ان کہی رکھی۔ تھوڑی سی دلیری اور ذرا سی ذہانت سے اہل نظر کے لئے سب کہہ بھی دیا، کچھ مان بھی لیا، بہت سنبھال بھی لیا گویا OWN بھی کیا۔ اب؟ سب خوش؟؟
قارئین با تمکین!! چلو ایک بات زیب داستان ہی سہی مگر تھوڑی سی دستک اور ذرا سی کسک برداشت کر لیں کہ وہ سیاستدان جو اقتدار کی محبت میںاندھا، وہ بیوروکریٹ جو اختیار کی محبت میں اندھا وہ جرنلسٹ جو صاحب اقتدار کے پکوان اور اڑان کی ہم سفری کی الفت میں گرفتار ہو اور وہ ٹیکنو کریٹ جو دیہاڑی کی زلف کا اسیر ہو اور پھر ان سب کے رگ و ریشے میں شہرت کی مرض بھی ہو تو ملک و ملت سے ان کی محبت اور عشق کا عالم کیا ہوگا؟ (بس، بس! بے شک بولیں نہ مگر سوچیں)
پہلے صرف حقانی آرٹیکل تھا اب معاملہ ”محبت نامہ“ بھی ہے جو ویزوں کے لئے گیلانی صاحب نے لکھا۔ میری ذاتی طور پر حسین حقانی صاحب سے ٹیلی فونک گفت و شنید بھی ہوئی۔ اس سے قبل میں آرٹیکل اور خط پڑھ چکا تھا۔ پھر مجھے وہ بھی یاد ہے جب 2011ءمیں آج کے وزیراعظم نے اسامہ کمیشن میں تاخیر پر اس وقت کی حکومت کو بہت طعنے دیئے تھے۔ آج میاں صاحب وہ کمیشن رپورٹ عیاں کیوں نہیں کر دیتے؟ دکھ تو یہ ہے کہ ہم نے یہ ضرور سننا تھا یا سننا ہے کہ امریکی ویزے حکماً بھی لینے کی استطاعت رکھتے رہے ہیں اور رکھتے ہیں، عرضاً ہی نہیں!! ہم آئیں بائیں شائیں کے بجائے اپنے پاﺅں پر کھڑے ہونے کا عزم کیوں نہ کر لیں اور اب جبکہ فساد کو رد کرنے کا ارادہ ہے، تو یہ دو ٹوک فیصلہ کر کے دہشت گردوں اور دہشت گردی سے جان چھڑا کیوں نہیں لیتے؟ واقعہ ایبٹ آباد کو باہر لانا پڑ گیا! موضوع تو اب آرٹیکل اور خط نہیں بلکہ ویزہ بھی نہیں، ایبٹ آباد آپریشن بن گیا، نا، محسوس ہوتا ہے ویزے سسٹم سے جاری ہوئے، ایمبیسڈر اور سفارت خانے کو ویزے دینے کی اجازت تھی۔ انٹیلی جنس کی مداخلت میں بہرحال تھی۔ اب مسلم لیگ ن اور پی پی پی سسٹم کو ڈسکس کرے حسین حقانی کے تذکروں پر وقت کا ضیاع نہیں۔
آخر جو زرداری صاحب نے کہہ دیا، وہی بنتا تھا اور بنتا ہے۔ پی پی پی اپنی ڈگر پر رہے فی زمانہ سرکاری اختیارات کا قانونی استعمال گناہ نہیں۔ پی پی پی اپنے وقار کے لئے ٹھنڈا نہیں گرم اور اصولی کھیل کھیلے۔ قربانی کے بکروں کے ذریعے سیاست نہیں ہوتی، ٹھوس موقف نہیں تو سیاست کیا؟ پی پی پی کی ڈگر اگر عوامی نہیں تو یہ کچھ بھی نہیں۔ ادھوری محبتیں جینے دیتی ہیں نہ مرنے گویا انہیں عشق میں بدلیں ورنہ ملتان شان چھوڑیئے، رہنے دیں لاہور وغیرہ بھی اور دوبئی چلو! مشورہ تو کہتا ہے کہ بی بی کی سیاسی جھلک بلاول کو بھٹو اور بی بی کی ڈگر سیکھنے دیں اور چلنے دیں لیکن پھر بھی خیال آتا ہے کہ مرشد نے درست کہا تھا زرداری مردِ حر ہے اور زمانہ کہتا ہے سیاسی پنڈت بھی، نہیں یقین آتا، تو میاں صاحب سے پوچھ لیں....!!
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024