مودی بھارتی مسلمانوں کیلئے موت کا دیوتا بن چکا ہے، کالی ماتا، ناگن بن کر اپنے بچے کھا رہا ہے لیکن وہ صرف کلمہ گو مسلمان بچے چن چن کر ہڑپ کررہا ہے اور بھارت کا نام نہاد آزاد میڈیا اس پر پردے ڈال رہا ہے۔ محبت کی آشاؤں کے گیت اور پیار کے نغمے گانے والے بھارت میں جاری نامور مسلمان نوجوانوں کے قتل عام پر ناصرف خاموش ہے بلکہ گمراہ کن کہانیاں پھیلائی جا رہی ہیں۔ درندوں کے وحشی ہجوم گلی کوچوں اور بازاروں تلواریں لیکر ڈھونڈ ڈھونڈ کر مسلمان نوجوانوں کو خاک و خون میں نہلا رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں بھارت کے مشہور و معروف باڈی بلڈر نوید پٹھان عرف پپو کو دن دیہاڑے صوبے آندھرا پردیش کے جدید اور منظم شہر امراوتی (Amravati) میں دہشت گرد ھندؤوں نے تلواروں کے وار کرکے ٹکڑے ٹکڑے کردیا جس کی خبر صرف مراٹھی زبان کے اخبار مہاراشٹرا ٹائمز نے شائع کی جس میں اسے ورزش کے جم پر ہونے والا کاروباری تنازعہ قرار دیا گیا۔ نوید پٹھان کروڑوں بھارتی مسلمان نوجوانوں کا رول ماڈل تھا جس کا نام و نشان مٹا دیا گیا۔
ایک دوسرے واقعے میں ممبئی سے 280 کلومیٹر دور ایک دوسرے شہر (DHULE) گینگ وار میں ایک مسلمان نوجوان رفیق الدین عرف گڈو کو پہلے گولیاں ماری گئیں اور پھر گھسیٹ کر سڑک پر لاکر تلواروں سے اس کی نعش کا مثلہ کیا گیا۔ ان دونوں وقوعوں میں قدر مشترک مسلمان مقتول، ہندو درندوں کے تلوار بدست وحشی ہجوم ہیں لیکن مقتولین کا ایک دوسرے سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں تھا لیکن ’’محبت کی آشاؤں‘‘ والے گروہ نے اپنے آقاؤں کے اشارے پر معصوم باڈی بلڈر نوید کو مافیا چیف بنا ڈالا کہ اس کا قتل گینگ وار کا نتیجہ تھا تاکہ پاکستان میں بھارت کے خلاف عوامی سطح پر نفرت کے جذبات کو روکا جاسکے کہ محبت کی آشاؤں کے لئے سازگار ماحول بنائے رکھنا بھی تو ’’گریٹر ساؤتھ ایشیا‘‘ ایجنڈے کا حصہ ہے۔ یہ ہے سیکولر بھارت کا اصل گھناؤنا چہرہ جسے پاکستان اور پاکستانی قوم سے چھپایا جا رہا ہے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ یہ واردتیئے وزیراعظم کے اردگرد پائے جاتے ہیں اور ایک’’ گروپ‘‘ سازشوں میں پوری طرح ملوث ہے، وہ کل بھوشن کی حمایت ہو یا اب باڈی بلڈر نوید پٹھان مظلومانہ شہادت بھارتی ایجنڈے کو سرعام کھلے بندوں آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
گاؤ رکھشا کے نام مسلمانوں کا قتل عام جاری تھا، اب مختلف حیلے بہانوں سے نمایاں اور معروف نوجوان مسلمان ان کا نشانہ ہیں۔ بھارت صرف پاکستان کا نہیں بھارتی مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ سفاک مودی منظم انداز سے مسلمانوں کی نسل کشی کروا رہا ہے وہ ہمار ے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری تھا، اب تمام عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر سے آنیوالے چناب کا گلا گھونٹ چکا ہے جس میں پانی کی منہ زور لہروں کی بجائے اب ریت اڑتی ہے۔ بھارت ہمارا نرخرہ دبائے ہوئے ہے ہمارے وزیراعظم جناب نواز شریف اور عمران خان میں بھارت سے دوستی کے معاملے میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ بھارت سے موجودہ حالات میں دوستی کے رشتے بھوٹان جیسے تو ہو سکتے ہیں، آپ کو برابری کی سطح پر پروقار دوستی کے خیال سے دستبردار ہونا پڑیگا۔ امریکی ہوں یا ہمارے دیگر روشن خیال دوست، انہیں بخوبی احساس ہے کہ یکطرفہ امن کی راہ میں 20 کروڑ پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی ادارہ جاتی رکاوٹ پاکستان کی مسلح افواج ہیں۔ پاک فوج کی جنگی فلاسفی کی بنیاد دفاعی جنگ پر استوار کی گئی تھی جس کا بنیادی محور بھارت کی متوقع جارحیت کا مقابلہ اور دفاع کرنا ہے جس میں عارضی تبدیلی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران آئی، جب ڈیورنڈ لائن کے آر پار تہذیبوں کی جنگ کا ہنگامہ خیز مرحلہ شروع ہو رہا تھا۔ امریکہ اور انکے مقامی ہم نوائوں کی منظم چیخ و پکار اور شور و غوغا کو بڑھاوا دینے میں جنرل مشرف اور اس کے سویلین حواریوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا تھا لیکن اس سے بنیادی زمینی حقائق تو نہیں بدل سکتے تھے، اس لئے پاکستان کی سلامتی کو آج بھی حقیقی خطرہ بین الاقوامی سرحد کے اس پار اکھنڈ بھارت کے پجاریوں سے ہے جنہوں نے 70 سال گزرنے کے باوجود آج تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیا۔ مرحوم مشرقی پاکستان کے بعد ڈیورنڈ لائن کے آر پار آزاد پختونستان کے شوشے اور علیحدگی پسند عذاب کس کا نازل کردہ تھا۔ آج بلوچستان میں نفرتوں کی آگ کو بھڑکا کر کون شعلہ جوالا بنا رہا ہے۔ نئی دہلی سے جنیوا تک سازشوں کے جال کون بچھا رہا ہے، بلوچستان کے معدنی وسائل پر کس کی حریص نگاہیں جمی ہوئی ہیں اور کسی کو معلوم ہو یا نہ ہو ہمارے پاسبانوں اور نگہبانوں کو بخوبی اپنے دوستوں اور دشمنوں کا علم ہے۔
فوج کا غیر معمولی ادارہ جاتی ردعمل، دراصل قومی سلامتی کے معاملات سے متعلقہ تمام شخصیات کیلئے واضح اور کھلا پیغام ہے کہ مسلح افواج ملکی سلامتی پر کوئی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہیں اور تمام اداروں کو اپنی اپنی طے شدہ آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔ نریندر مودی کے گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات کی کہانی بھارت کے چپے چپے پر دہرائی جا رہی ہے، ووٹ بنک کی ہولناک سیاست کے پس منظر میں مسلمانوں کو بھارتی سماج میں اچھوتوں بدتر مقام پر پہنچا دیا ہے۔ دل کو پارہ پارہ کر دینے والی ویڈیو کلپ اور روح میں اتر جانے والی نظم کا تاثر دل دہلا دینے والی تصاویر کے ساتھ دماغ میں گہرائی تک اتر جاتا ہے۔
یہ کیسی تصویر بنا دی تم نے ہندوستان کی
خون میں ڈوبا، امن کا پیکر دیکھا ہے
زخمی زخمی ایک اکتوبر دیکھا ہے
جلتی حویلی، جلتا چھاپر دیکھا ہے
ہاں میں نے گجرات کا منظر دیکھا ہے
نام میرا مظلوم ہے، میں ایک لڑکی ہوں
جو دیکھا ہے میں نے وہ بتلاتی ہوں
گھر گھر آگ لگائی ہے غداروں نے
عزت لوٹی دھرم کے ٹھیکیداروں نے
وردی میں شیطان کا لشکر دیکھا ہے
ہاں میں نے گجرات کا منظر دیکھا ہے
شرم سے گردن خم کر لی ہے بانہوں نے
ایسا گھنائونا کھیل رچا ہے انسانوں نے
کوئی درندہ بھی نہ کرے وہ کام کیا
ماں کے پیٹ کو چیر کے بچہ مار دیا
معصوموں کو تلواروں پر ترازو دیکھا ہے
ہاں میں نے گجرات کا منظر دیکھا ہے
آئینوں کی تاک میں سب پتھر دل تھے
وردی میں بھی معصوموں کے قاتل تھے
بچے، پیر، جوانوں کے سر کاٹ دئیے
انسانوں کے خون سے دریا پاٹ دئیے
آنکھوں نے لاشوں کا سمندر دیکھا ہے
ہاں میں نے گجرات کا منظر دیکھا
جس نے دیکھا منظر آگ اگلتا ہوا
جس نے دیکھا گھر والوں کو جلتا ہوا
لے کے شعلے وہ بھی نکل آئے نہ کہیں
رخ تصویر کا الٹا ہو جائے نہ کہیں
شیشے کی آنکھوں میں پتھر دیکھا ہے
ہاں میں نے گجرات کا منظر دیکھا ہے
پاکستان کے ذرائع ابلاغ سے کامل نصف صدی تک تعلق خاطر رکھنے والے ایک بزرگ بیوروکریٹ نے بھارتی گجرات میں مسلمانوں پر مظالم کا احوال بیان کرنے والی نظم اور ظلم و ستم کی تصویری جھلکیاں دیکھنے کے بعد تحریری پیغام بھیجا ’’ان مظالم سے بے نیاز ہم، امن کی آشا کیے ہوئے ہیں اگر میڈیا کے کچھ حصے کا یہی حال رہا تو بھارت کو پاکستان کے خلاف فوجی جارحیت اور جاسوس بھیجنے کی کوئی ضرورت نہیں پڑے گی، ہم خود بخود دوبارہ ’’ایک‘‘ ہو جائیں گے میرے منہ میں خاک لیکن سفر کا رخ اسی سمت ہے۔‘‘
پاک بھارت تعلقات میں پیش رفت کیوں اور کیسے کے نازک سوال پر ہمارے اندرونی ریاستی ڈھانچے میں بڑی لے دے ہو رہی ہے کہ ہمارے اداروں میں اس حساس معاملے پر مطابقت اور ہم آہنگی کے بجائے وسیع خلیج اور تضاد پایا جاتا ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری اور نجی سفارتی شعبوں کی کوششوں اور کاوشوں کے باوجود بنیادی حقائق میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی جس میں بنیادی کردار مخصوص بھارتی رویے کا ہے جو بوجوہ تبدیل نہیں ہوسکتا کہ ووٹ کا کھیل اور جمہوری ناٹک امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر کھڑا ہے جس کا سب سے بڑا مظہر نریندر مودی جیسے خوں آشام انتہا پسند کا وزیراعظم بن جانا ہے۔ نریندر مودی کی دیوانگی کا مقابلہ کرنے کے لئے جواں سال راہول کو بھی شعلہ بیانی کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ اصل دکھ تو یہ کہ بھارت میں وقت کے ساتھ ادارے مضبوط اور مستحکم اور ہمارے ہاں کمزور سے کمزور تر ہوتے گئے ہیں۔ کیا المیہ ہے ہمارے وزیراعظم اور حکمران ٹولہ اپنے سارے ریاستی اداروں کے ساتھ دست و گریبان ہے جس سے انصاف کی سب سے بڑی عدالت کو بھی کوئی مفر نہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے اور اپنے اداروں کی نسل کشی پر تلے ہوئے ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38