خان صاحب نے پوری ”اپوزیشن“ کو ایک طرف چھوڑ کر حکومت کیخلاف سات اگست سے سڑکوں پر آنےکا اعلان کردیا ہے ، اب پھر وہی اگست ہے اور ساون کی حبس بھری گرمی بھی‘ وہی پوری قوم ہے وہی میڈیا ہے اور وہی سکیورٹی کے ادارے ہیں ۔ پوری قوم سوال کر رہی ہے کہ اب کی بار کیا ہوگا؟ کیونکہ اپنی نوعیت کا پاکستان کا پہلا بڑا اور طویل ترین دھرنا عوام بالخصوص نوجوان طبقے کےلئے ملکی سیاست میں محض ”انوکھا تجربہ“ ہی ثابت ہوا اور ”دھاندلی “ پرجوڈیشل کمیشن کی ”شفاف “رپورٹ کے بعد ڈیڑھ سال کی محنت بھی بظاہر ”بے ثمر“رہی ،پچھلے کچھ ماہ سے پے درپے ملکی اور غیرملکی واقعات نے میڈیا کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا اور چار وناچار پاکستانی عوام بھی اس کا شکار رہے،اب تک پاناما لیکس سرفہرست ہے،اسی ٹی آر اوز کو لےکر متحدہ اپوزیشن کا آخری اجلاس بھی دیڑھ گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوا کیوں کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اعلامیے سے متفق نہیں تھی۔ اس میں مسئلہ یہ تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو یہ شکایت تھی کہ تحریک انصاف نے ٹی آر اوز کا فیصلہ ہوئے بغیر آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کر دیا ہے۔ لہذا ایک ایسی جماعت کے ساتھ چلنا ممکن نہیں ہے جس کے قول و فعل میں تضاد ہو،اس حوالے سے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ ہم نے 2014ءمیں بھی ملک میں دھرنا سیاست دیکھ لی تھی جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا، اور ہم کسی بھی صورت جمہوریت کو ڈی ریل نہیں کرنا چاہتے۔ ایم کیو ایم نے کہا کہ وہ کراچی میں اکیلے مصائب کا شکار ہیں انہیں کسی سیاسی جماعت کی طرف سے کوئی ہمدردی نہیں ملی اور نہ کسی نے ان کا ساتھ دیا ہے۔ اگر اپوزیشن اسی کا نام ہے کہ کسی کے مسائل کیلئے کوئی کھڑا ہونے کیلئے تیار نہیں ہے تو ہم سے بھی یہ توقع نہ رکھی جائے کہ ہم کسی کے مفاد کی خاطر لڑیں گے۔
اے این پی نے کہا کہ عمران خان جس طرح کی حکمرانی خیبر پختون خواہ میں کر رہے ہیں اسی طرح کی حکمرانی کیلئے ہم اس جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔عوامی تحریک اور وحدت المسلمین سمیت دیگر جماعتوں کے قائدین نے بھی اسی قسم کے ملتے جلتے رد عمل کا اظہار کیا۔ اسکے بعد ڈیڑھ گھنٹہ تک طویل جدوجہد کیساتھ یہ کوشش کی گئی کہ ایک ایسا علامیہ ترتیب دیا جائے جو فیس سیونگ کا کام بھی کرے اور تمام اپوزیشن عوام کے سامنے جائے تو اسکے پاس دلائل سے بھرپور ٹی آر اوز کی شکل میں حتمی دستاویزات ہوں۔
میرے خیال میں جس اپوزیشن نے عمران اور باقی سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کی تو کیا یہ لوگ نواز شریف کو حکومت سے علیحدہ کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں؟ کیا یہ مستقبل کے کل کی آگاہی رکھ سکتے ہیں؟
میری ناقص رائے میں کیا یہ تمام سیاستدان مل کر پارلیمنٹ کے ذریعے آئندہ بہترین احتساب، مضبوط الیکشن کمیشن اور انصاف کے نظام کیلئے کام نہیں کر سکتے؟ اگر یہ سب متفق ہو جائیں اور ان تین کاموں کیلئے حکومت پر دباﺅ ڈالیں تو اس پارلیمنٹ سے یہ قوانین پاس کروالیں تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ یہی قوانین ان حکمرانوں اور سیاستدانوں کیلئے پھندا بن جائینگے۔ اور آئندہ انہیں بہترین طرز حکومت اختیار کرنا پڑےگا۔ انہیں ایسا نظام بنانا پڑےگا جس میں خود بخود احتساب کا عمل شروع ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی تیار نہیں ہے کہ کرپشن کے خلاف کسی حتمی نتیجے پر پہنچا جائے۔ تمام سیاسی جماعتیں ملکی مفاد کے بجائے ذاتی مفادات کی سیاست کو فروغ دے رہی ہیں لہذا یہ منافقت اور جھوٹ کی سیاست ہے اس سے ملک میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی ہے اس لیے اگر نواز شریف کرپٹ ہیں تو توقع رکھیں کہ نواز شریف اسی طرح آگے بڑھتے رہیں گے اور یہ لوگ اسی طرح اپنی اپنی سیاسی دکان داری کرکے سیاست کو چمکانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔
اور رہی بات عمران خان کی سولو فلائیٹس کی تو بلاشبہ عمران خان موجودہ حکومت کی ”واحد“ اپوزیشن ہیں ،وہ شاید واحد سیاست دان ہیں جن کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں ،یہ اعزاز بھی انہی کا ہے کہ وزیراعظم ،کابینہ اور”ن “ کے تمام ارکان پارلیمنٹ کی توجہ اور تنقید کا ”فوکس“ صرف عمران خان ہیں ،وہ سوشل میڈیا پر ملک بھر میں سب سے زیادہ ”پسند“ کئے جانیوالے رہ نماﺅں میں بھی سر فہرست ہیں،،، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جس ”اسٹیٹس کو“ کو انہوں نے چیلنج کیا ہے اسکے بڑے ”پردھان“ انکے دائیں بائیں، آگے پیچھے اور دور تک ”صفوں“ میں ”ایکٹو“ نظر آتے ہیں، خان صاحب جس طرز سیاست پر ہروقت لعنت ملامت کرتے رہتے ہیں اس کا ”عملی مظاہرہ “ان کی خیبرپختونخوا میں قائم حکومت میں واضح نظر آتاہے، جس میرٹ ، شفافیت، ایماندارانہ اور خود احتسابی کا نعرہ وہ شد مد اور باآواز بلند بار بار لگاتے ہیں، اس کی ہر سطح پر ”دھجیاں“ اور خلاف ورزیاں انہیں اپنے ہرطرف اورآس پاس ہر روز دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں، نوجوان طبقے کو سامنے لانے اور نیانظام بنانے کا مشن شاید ”متروک “ہوچکاہے، پارٹی کے اندر دھڑے بازی اور ٹوٹ پھوٹ پہلے دھرنے سے قبل قومی اسمبلی کی سطح پر اور اب دوسرے ”دھرنے“ کی کال سے پہلے صوبائی سطح پر شروع ہوچکی ہے، پہلے ”کامیاب “ دھرنے کے بعد کنٹونمنٹ بورڈز، بلدیاتی انتخابات ،کے پی سمیت اہم قومی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات میں بدترین شکست اور اب آزادکشمیر میں دگنے ووٹوں سے ہار ،یہ سب ہوچکاہے، لیکن عزم اور استقامت میں لغزش نہیں آئی اور عمران خان پھر حکومت کو چیلنج کرنے نکل کھڑے ہوئے،
کیا ہی اچھا ہو کہ عمران خان سولو فلائیٹ کے بجائے ابھی سے اپنی ”احتجاجی تحریک“ کو ”انتخابی تحریک“ میں تبدیل کردیں اور عوام کو سڑکوں پر لانے کی بجائے انکے پاس خود پہنچ جائیں شاید عوام کو انکے ”خوابوں“ کی تعبیر بھی مل جائے اور شاید خان صاحب کا وزیراعظم بننے کا خواب بھی سچ ثابت ہوجائے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آج کل جو مشیران خاص انہیں مفید مشورے دیتے نہیں تھکتے یہ انہی کی وجہ ہے کہ لوگ اب عمران خان کی تقریروں پر کان نہیں دھرتے اور نہ ہی انہیں خاطر میں لاتے ہیں ۔کہتے ہیں سیانا وہی ہوتا ہے جو کم گو ہو اور جب وہ بولے تو اسکی بات میں وزن ہو لیکن خان صاحب کی تقریریں اب بے وزن ہوتی جارہی ہیں۔ لوگ یہ سب کچھ سن سن کر تنگ آتے جا رہے ہیں آپکے جیالوں میں جذبات کی شدت کم ہوتی جارہی ہے۔ روزانہ کی پریس کانفرنسیں ہی آپ کو سیاسی شکست دے سکتی ہیں۔ آپ کو شاید اپنی خوش نصیبی کا اندازہ نہیں ، اسی لیے تو آپ نے اپنے اردگرد اُن لوگوں کا راج قائم کردیا ہے جو عوام کیلئے نہےں،راج کرنے کیلئے پےدا ہوئے ہےں۔ جس طرح آپ کے جلسوں میں لوگوں کا سیلاب امڈ آتا ہے اسی طرح لوگ تو ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی بہت زیادہ سننے کو آتے ہیں لیکن سنجیدہ طبقہ آپ کی ہر حرکت کا جائزہ لے رہا ہوتا ہے کہ آپ جس عوام کو سڑکوں پر بلا رہے ہیں وہ کیوں کر آپ کیلئے اپنے وقت کا ضیاع کرے یا کیوں کر وہ آپ کیلئے اپنی جان قربا ن کرے اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ آپ کے سڑکوں پر آنے کے فیصلے سے حکومت پر کوئی اثر نہیں ہونیوالا‘ اس لیے آپ مذکورہ بالا تین کام کر دیں عوام آپ کو صدیوں یاد بھی رکھیں گے اور آپ کو بطور وزیر اعظم منتخب بھی کردیں گے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024