آزاد کشمیر اتنا آزاد بھی نہیں ہے جتنا نام سے لگتا ہے۔ اس دنیاوی جنت کا ایک حصہ بھارتی افواج کے تسلط میں ہے جبکہ دوسرا حصہ وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہے جسے وفاقی وزیر برائے امور کشمیر اور وفاق کے نمائندے صدر آزاد کشمیر کے ذریعے چلایا جاتا ہے جبکہ منتخب حکومت ”نمائشی“ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں عام طور پر وفاقی حکومتی جماعت ہی کامیاب ہوتی رہی ہے۔ علامہ اقبال نے خودی کا فلسفہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس طرح ایک بیج میں تن آور درخت بننے کی صلاحیت ہوتی ہے اسی طرح خالق کائنات نے انسان کو محیرالعقول صلاحیتوں سے نوازا ہے اور وہ ستاروں پر کمند بھی ڈال سکتا ہے۔ پاکستان میں رائج ”غلامانہ نظام“ قدرتی اور فطری صلاحیتوں سے مالا مال انسانوں کو بھیڑ بکریاں بنا دیتا ہے۔ آزاد کشمیر میں مسلم لیگ(ن) نے 31نشستیں حاصل کی ہیں اس طرح اس نے آزاد کشمیر میں 1997ءجیسا ”ہیوی مینڈیٹ“ حاصل کرلیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں بشمول مسلم لیگ(ن) انگشت بدنداں ہیں کہ یہ ”سیاسی معجزہ“ کیسے برپا ہوگیا جبکہ شیر بیمار تھا اور آزاد کشمیر جاکر دھاڑ بھی نہ سکا۔ عمران خان ”ان گائیڈڈ میزائیل“ ہیں۔ انہوں نے عجلت میں مسلم لیگ(ن) کو انتخابی کامیابی کی مبارک باد دے دی جبکہ تحریک انصاف آزاد کشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود نے ”تکنیکی دھاندلی“ کا الزام لگایا کہ مسلم لیگ(ن) نے اپنے ہر اُمیدوار کو 5کروڑ روپے دئیے۔ وزیراعظم نے روائیتی سنگدلی کا مظاہرہ کرکے آزاد کشمیر کی انتخابی اشتہاری مہم پر قومی خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کردئیے۔
پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی دھاندلی کے الزامات لگا کر انتخابی نتائج کو مسترد کردیا ہے۔ شرمناک شکست کے بعد جیالوں کے حوصلے بلند رکھنے کیلئے یہ الزام ضروری تھا کیونکہ بلاول بھٹو نے اپنے عظیم نانا جیسی صلاحتیوں کو بروئے کار لاکر زوال پذیر پی پی پی میں نئی روح پیدا کردی تھی۔ سیاست اور حکومت میں کرپشن کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب سیاسی لیڈر ”پارٹی فنڈ“ لیکر پارٹی ٹکٹ دیتے ہیں۔ آزاد کشمیر کی حکومت نے کرپشن کی انتہا ءکردی۔ عوام نے بھی انتقام کی انتہاءکردی۔ آزاد کشمیر کے زلزلہ خیز انتخابی نتائج نے پی پی پی کے قلعہ سندھ کو ہلاکررکھ دیا اس کو بچانے کیلئے قائم علی شاہ کی قربانی دی گئی ہے۔ وہ پرانے دوست ہیں خود کرپٹ نہیں ہیں البتہ وہ کرپٹ افراد کے سرپرست بلکہ ”سہولت کار“ بنے رہے اور مایوس کن ایڈمنسٹریٹر ثابت ہوئے۔ نیا وزیراعلیٰ شراب کی پرانی بوتل پر نیا لیبل ہوگا۔ محترمہ مریم نوازشریف کے بقول ”وزیراعظم پاکستان ابھی پوری طرح صحت مند نہیں ہیں“ البتہ وہ سیاسی مصلحت کے تحت ہنگامی طور پر مظفر آباد پہنچے۔ انہوں نے درست کہا کہ کامیابی دھرنے سے نہیں کچھ کرنے سے ملتی ہے انہوں نے آزاد کشمیر کے عوام کو ترقی کے نئے دور کے آغاز کی نوید سنائی۔ وزیراعظم نے مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کی جدوجہد کی کامیابی کیلئے دعائیں کیں۔ اگر مقبوضہ کشمیر کے بے گناہ اور معصوم عوام کے خون پر ان کا اپنا خون جوش مارتا تو وہ بھارتی حکومت کے شرمناک ظلم و ستم اور جبروتشدد کی مذمت ضرور کرتے مگر انہوں نے خود کچھ کرنے کی بجائے صرف دعا کرکے کشمیریوں کو اللہ کے حوالے کردیا۔ کاش وزیراعظم قومی جذبے کے تحت شمالی وزیرستان کے اگلے مورچوں کا دورہ کرکے پاک فوج کے جوانوں کی حوصلہ افزائی کرسکیں۔ وزیراعظم مقدر کے سکندر ہیں۔ آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج نے ان کو سیاسی دباﺅ سے باہر نکال دیا ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما عمران خان بلاشک سچے ،کھرے ، دیانتدار سیاستدان ہیں مگر وہ ابھی تک قائدانہ صلاحتیوں کا عملی مظاہرہ نہیں کرسکے ان کو اپنی جماعت کے اندر ”بغاوت“ کاسامنا ہے۔ وہ ایک ہی تقریر بار بار دہراتے ہیں۔ عوام کے روز مرہ کے مسائل تعلیم، صحت، مہنگائی، بے روزگاری، تھانہ اور پٹواری کلچر پر زور نہیں دیتے۔ پاکستانی سیاست میں کرپشن جرم سے زیادہ ایک کلچر بن چکی ہے جس کا عمران خان کو ادراک نہیں ہے۔ وہ اگر آزاد کشمیر کی انتخابی مہم میں پانامہ کی بجائے مقامی مسائل پر زور دیتے تو انکو 2کی بجائے 5نشستیں ضرور مل جاتیں اور عزت رہ جاتی۔ آزاد کشمیر کے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کو 7لاکھ 78ہزار ووٹ (31نشستیں)، پی پی پی کو 3لاکھ 20ہزار ووٹ (3نشستیں) ، تحریک انصاف کو 2لاکھ 20ہزار ووٹ (2نشستیں)، مسلم کانفرنس کو ایک لاکھ 54ہزار ووٹ (3نشستیں) حاصل ہوئے گویا تین سیاسی جماعتوں نے 7لاکھ ووٹ حاصل کیے مگر ان کو نشستیں صرف 8حاصل ہوسکیں۔ مسلم لیگ(ن) نے 7لاکھ 78ہزار ووٹ لےکر31نشستیں حاصل کرلیں۔ مسلم لیگ(ن) جو حکومت بنائے گی اس میں 7لاکھ رائے دہندگان کی کوئی نمائندگی نہیں ہوگی یہ ہے وہ ”جمہوری تماشہ“ جسے سمجھنے کی ضرور ت ہے۔ سٹیزن کونسل پاکستان کے چیئرمین رانا امیر احمد خان ایڈوکیٹ کی رہائش گاہ پر دانشوروں کے مشاورتی اجلاس میں لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس اللہ نواز نے موجودہ انتخابی نظام کی ”مضحکہ خیزی“ کو ختم کرنے کیلئے متناسب نمائندگی (اُمیدوار کی بجائے پارٹی کو ووٹ ڈالنا) کے اُصول پر انتخابات کرانے کی تجویز پیش کی تاکہ پارلیمنٹ کو حقیقی معنوں میں قوم کا نمائندہ اور شراکتی ادارہ بنایا جاسکے۔ ارکان نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور بیداری مہم چلانے کا فیصلہ کیا۔ نظریاتی ساتھی کامریڈ معراج محمد خان (1938-2016)دار فانی سے رخصت ہوئے۔ ایک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی۔ معراج محمد خان بائیں بازو کی تنظیم این ایس ایف کے لیڈر کے طور پر معروف ہوئے ان کا شمار پی پی پی کے بانی ارکان میں ہوتا ہے۔ پی پی پی کے ایک اور بانی رکن میاں محمد اسلم (لاہور) کےمطابق ”جولائی 1970ءہالہ سندھ میں پی پی پی کی کانفرنس ہوئی جس میں انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس موقع پر شعلہ بیان مقرر معراج محمد خان نے انتخابات میں حصہ لینے کی سخت مخالفت کی اور ”پرچی نہیں برچھی“ یعنی انتخاب نہیں انقلاب کا نعرہ پیش کیا۔ پی پی پی کے کارکن معراج محمد خان کے پرجوش خطاب سے بڑے متاثر ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو انتخابات میں شرکت کے حق میں تھے انہوں نے حنیف رامے کو کہا کہ وہ کانفرنس کی فضا انتخابات کے حق میں ہموار کریں۔ بھٹو صاحب نے اپنے خطاب میں انتخابات کے حق میں زوردار دلائل دیئے اور کانفرنس کے شرکاءکی اکثریت نے انتخابات میں شرکت کا فیصلہ کرلیا“۔ بھٹو صاحب نے معراج محمد خان پر کراچی سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کیلئے دباﺅ ڈالا مگر وہ ثابت قدمی سے اپنے مو¿قف پر قائم رہے۔ بھٹو صاحب نے موت کی کوٹھڑی میں لکھی گئی اپنی آخری کتاب ”اگر مجھے قتل کیا گیا“ میں اپنے سیاسی فلسفہ کی ناکامی کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان میں طبقاتی جدوجہد کی وصیت کی تاکہ عوام کی ریاست پر بالادستی قائم کی جاسکے۔ اس طرح معراج محمد خان کا سیاسی وژن درست ثابت ہوا جو عوامی انقلاب کے علمبردار تھے۔
معراج محمد خان کچھ عرصہ بھٹو کابینہ میں لیبر کے وزیر مملکت کی حیثیت میں شامل رہے جب کراچی میں احتجاج کرنے والے مزدوروں پر گولی چلی توبائیں بازو کے لیڈرمعراج محمد خان مستعفی ہوگئے۔ بھٹو صاحب نے معراج محمد خان اور مصطفی کھر کو اپنا جانشین قرار دیا تھا۔ معراج محمد خان نے اُصولی اور نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر پی پی پی سے علیحدگی اختیار کرکے قومی محاذ آزادی کے نام سے نئی جماعت قائم کرلی مگر کرشماتی لیڈر کے سامنے ان کا چراغ نہ جل سکا۔ معراج محمد خان نے جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاءکے دوران قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ انہوں نے 1998ءمیں تحریک انصاف میں شرکت کی اور چھ سال تک اس جماعت کے سیکریٹری جنرل رہے۔ اس دوران معراج بھائی نے میرے ساتھ بھی رابطہ کیا اور تحریک انصاف میں شمولیت کا مشورہ دیا۔ میں چوںکہ تحقیقی کام میں مصروف تھا اس لیے عملی سیاست سے کنارہ کش رہا۔ معراج محمد خان کے عمران خان سے بھی نظریاتی اختلافات پیدا ہوگئے اور انہوں نے تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کرلی اور پریس کانفرنس کے دوران کہا ”میں نے جنرل ضیاءالحق کے دور میں صرف قید کاٹی جبکہ تحریک انصاف میں چھ سال ”قید مشقت“ کاٹی۔ اگر پاکستان کے عوام معراج محمد خان جیسے نظریاتی سیاست دانوں کو قبول کرتے تو وہ آج اس قدر مجبور، بے بس اور لاوارث نہ ہوتے۔ معراج بھائی میں آپ کو سلیوٹ کرتا ہوں۔ اللہ آپ کو جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024