گرمی ابھی آئی نہیں، سارا پاکستان میدان ِحشر بن چکاہے بجلی نہ ہونے کا رونا دھونا گھروں سے نکل کر چوک چوراہوں اور کوچہ وبازار کا رخ کررہا ہے ایشیائی ترقیاتی بنک ہم احمقوں کو بتارہاہے کہ صرف دریائے سندھ سے 70ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے جوہماری موجودہ ضروریات سے تین گنا زیادہ اورانتہائی سستی ہے اسحق ڈارواشنگٹن میں ہیںوہ شاطر اورعیار امریکیوں سے کثیر پہلو مذاکرات میں مصروف ہیں جناب اسحق ڈار ،صرف ہمارے وزیرخزانہ نہیں، پاکستان کے لےے اَمرت دَھارا ہیں وہ تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے بلوچستان کو سورج کی روشنی سے بننے والی بجلی سے روشن ومنور کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں عالمی بنک کو اس منصوبے پر سرمایہ کاری کے لےے مذاکرات پر آمادہ کررہے ہیں۔
ہمارے عالی دماغ ماہرین ،توانائی کے بحران پر قابو پانے کے سب سے سستے اور فطری حل قدرتی گیس ،جو بائیوگیس کے نام سے زیادہ مشہور ہے ،پر توجہ دینے کے لےے کوئی تیار نہیں ہے کہ اس منصوبے سے توانائی کا بھران حل ہونے کے ساتھ ساتھ دیہی آبادی زرعی انقلاب سے ہم کنار ہوسکتی ہے لیکن چونکہ بائیو گیس کے اس منصوبے میں برآمدات اورلمبے چوڑے ٹھیکوں اورکمشنوں کا کوئی امکان نہیںاس لےے ہمارے حکمت کاروں کو بائیو گیس کا انقلاب آفرین حل دکھائی ہی نہیں دیتا ویسے بھی بدقسمتی یہ ہے کہ 70فیصد دیہی آبادی اورزراعت ہماری حقیقی قومی ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہی جبکہ اسحق ڈار کا امرت دھارا بروئے کار رہے گا۔
ہمارے متبادل توانائی کے ماہرین کو ہر چیز کا بخوبی علم ہے۔
Alternative Energy Development Board (AEDB) کے نام سے متبادل ذرائع توانائی کے استعمال کو یقینی بنانے کے لےے بہت بڑا ادارہ ایک محل نما عمارت میں مدتوں سے بروئے کار ہے جہاں پر دنیا کی چوٹی کی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ماہرین ایک ٹکے کا عملی کام کےے بغیر کچھ اس بری طرح مصروف کار ہیں ان بیچاروں کو سر کھجانے کی فرصت نہیں ہے اب تو مدت ہوئی کہ کوچہ نادرونایاب کا چکر نہیں لگا ان ماہرین پرماہانہ لاکھوں نہیں کروڑوں روپے کا قومی سرمایہ ضائع کیاجارہا ہے اگر اس سفید ہاتھی ادارے کو بند کرکے یہ رقم اور متبادل توانائی کا یہ منصوبہ درد دل رکھنے والے سلیم رانجھا کے سپرد کردیاجائے تو صرف 12ماہ میں حیران کن نتائج سامنے آئیں گے قدیم وجدید ، زمینداری اورافسرشاہی کامرکب سلیم رانجھا آج کل نجانے کہاں ہوتے ہیں مدتوں سے رابطہ نہیں ہے اسی طرح وزیراعظم نواز شریف کے پسندیدہ ،پولیس کے ریٹائرڈ افسر ذوالفقار چیمہ بھی توانائی کے بحران کو متبادل ذرائع سے حل کرنے کے لےے امرت دھارا ثابت ہوسکتے ہیں کہ یہاں انتظامی مہارت اوردیانتداری سے ناممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے اوریہ دونوں خوبیاں ہمارے ساتھی کالم نگار ذوالفقار چیمہ میں بددرجہ اُتم موجود ہیں ۔
بائیو گیس ہمارے کسانوں، کھیتوں اور کھلیانوں کے لیے امرت دھارا ہے۔ دم توڑتی زرعی معیشت کو صرف اس کے ذریعے بچایا جا سکتا ہے۔اندھیروں میں ڈوبا ہوا پاکستان ایک بار پھر بائیو گیس کی روشنی سے جگمگا سکتا ہے لیکن سرسبز و شاداب مارگلہ کے دامن میں بسنے والے اسلام آباد کے باسی افسران ،ا±ن گرد آلود گلیوں کو کب کا بھلا چکے جہاں سے ا±ن کا اپنا خمیر بھی ا±ٹھا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ دن کے ا±جالوں میں بھی روشن رہنے والی وفاقی دارالحکومت کی شاہراہوں کی فلڈ لائٹس کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
ایک طرف تو فاقہ مستی کا یہ عالم کہ بجلی خواب ہوئی، خیال ہوئی، پنج دریاﺅں کی دھرتی کے باسی پانی کو ترسیں اور دوسری طرف قومی وسائل کا ایسا بے دریغ اور سنگدلانہ استعمال کہ معمولی درجے کے سرکاری اہلکاروں کو دن کے ا±جالوں میں شاہراہوں کی برقی روشنیاں بند کرنے کی فرصت نہیں، طرفہ تماشا یہ کہ کوئی انھیں روکنے ٹوکنے والا بھی نہیں! جبکہ دیہات میں بسنے والے ستر فیصد بے نوا انسانوں کا سب سے بڑا مسئلہ پنکھے اوربلب روشن کرنے کے لےے بجلی ، روز مرہ استعمال کا گھریلو ایندھن اور پینے کا صاف پانی ہے۔ مدتوں بعد گرمیوں میں ایک رات گاﺅں میں گذارنا قیامت کا منظر پیش کررہا تھا مچھروں کی یلغار اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے آرام دہ بستر کانٹوں کی سیج بن گیا تھا ، گوجرانوالہ بائی پاس سے صرف پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پربڈھا گورائیہ اب بڑا تجارتی مرکز اور قصبہ بن چکا ہے۔ جہاں اب سوئی گیس آچکی ہے ، بجلی آئی تو اپنے ساتھ تن آسانی بھی لائی۔ اکثرگھروں سے پانی کے ہینڈ پمپ رفتہ رفتہ غائب ہوتے چلے گئے اور کسی نے انھیں قابل استعمال رکھنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ اب جب بجلی کا بحران اپنی انتہاﺅںکو چھو گیا تو ا±جالوں سے اندھیروں کے سفر میں پینے کے پانی کی عدم دستیابی سب سے بڑا مسئلہ بن چکی ہے جن چند گھروں میں پانی کے ہینڈ پمپ چالو رہ گئے ہیں وہاں پیاسوں کی قطاریں لگتی ہیں۔ واہ میرے مالک تیرے رنگ نیارے ....ع
پنچ دریاﺅں کی دھرتی،آج پانی کو ترستی ہے
شہروں میں لوڈشیڈنگ کا عذاب اس طرح سے نازل نہیں ہوا جیسے دیہی آبادی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔گذشتہ دنوں دوستوں کی ایک مجلس میں روا روی میں کہہ گیا کہ دیہات میں تو لوڈشیڈنگ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ حاضرین چونک ا±ٹھے تو وضاحت کرنا پڑی کہ لوڈ شیڈنگ تو وہاں ہوتی ہے جہاں بجلی آتی بھی ہو!جبکہ ہمارے اضلاعی شہروں میں بھی بجلی ناپید ہوچکی ہے ۔
دوسرا سب سے بڑا فوری مسئلہ ایندھن کی قلت کا ہے۔ اب تو ان کسانوں کے لیے، کھیت مزدوروں کے لیے گھر کے چولہے جلانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ قدرت نے مرض پیدا کیا تو اس کے ساتھ اس کا علاج بھی تخلیق کیا۔ اس سنسار کو دکھ درد دیے تو اس کے ساتھ ساتھ سکھ چین اور آرام بھی بہم پہنچایا—— بالکل اسی طرح فطرت نے در پیش مشکلات کا حل بھی ہمیں سمجھایا— اگر ہم غور و فکر کریں تو۔
بائیو گیس ہمارے دیہات کے لیے امرت دھارا ہے۔بائیوگیس پیدا کرنے والے پلانٹوں کے ڈیزائن میں تبدیلی اور جدید طرز تعمیر سے ماضی کی تمام خامیوں پر یکسر قابو پا لیا ہے۔ بائیو گیس ہی ایسی واحد دوا ہے جو دیہی آبادی کے لا علاج د±کھوں کا مداوا ہے۔ واضح رہے کہ اس صدی کے آغاز پر اقوام متحدہ نے جن 8 اہداف (MDGs) کا اعلان کیا تھا اس میں بیشتر بائیو گیس کے استعمال کو فروغ دینے سے خود بخود حاصل ہو جائیں گے۔جس پر ماحول دوست ذرائع اپنانے پر اقوام متحدہ سے مالی مدد بھی حاصل کی جاسکتی ہے ۔
حکومت یا پھر عوام کے غم میںگھلنے والی این جی اوز اور فیشنی مسائل پر لاکھوں کروڑوں ڈالر بے دریغ لٹا دینے والے عالمی ادارے اس طرف متوجہ کیوں نہیں ہوتے؟ صرف اس لیے کہ پاکستان کے70 فیصد دیہی عوام ان کی کسی ترجیح میں شامل نہیں ہیں اور ہماری منافق اشرافیہ نے تو فلاحی کاموں کے ا±جلے دامن کو بھی داغدار کر دیا ہے۔
زچہ بچہ کی صحت، صنفی مساوات، خواتین کا سماجی و معاشی استحکام، ماحول دوستی، درختوں کی کٹائی میں رکاوٹ، قدرتی کھادوں کا استعمال، فطری طریق کار سے زرعی پیداوار جیسے تمام نیک مقاصد کی تکمیل ،بائیو گیس کے استعمال سے خود بخود ہوجائے گی۔
بائیو گیس کے گھریلو اور زرعی استعمال میں چونکہ بھاری خریداری کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لیے سرکاری ترجیحات میں اس کا شامل ہونا نا ممکنات ہو گا۔ اس مایوس کن صورتحال میں بھی روشنی کی چند کرنیں تاریک اندھیروں سے بر سر پیکار ہیں۔ دیہی ترقی کے امدادی پروگرام کے بانی جناب شعیب سلطان تن تنہا میدان میں اترے تھے اور آج یہ ادارہ پاکستانی قوم کا قابل فخر اثاثہ بن چکا ہے۔
توانائی کے متبادل ذرائع ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکے ہیں۔ سر سبز کھیتیاں ویران ہو رہی ہیں۔ ڈیزل کی آسمان کو چھوتی قیمتوں نے ٹیوب ویل سے آپباشی کو نا ممکن بنا دیا ہے۔دُنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہمارے کھیتوں کو سیراب کرنے سے قاصر ہے۔ کہتے ہیں کہ کئی کالا باغ ڈیموں کے برابر پانی تو کھیتوں تک پہنچنے سے پہلے ہی ضائع ہو جاتا ہے۔
حرف آخر یہ کہ انگریزی نثرنگار ،یارِعزیز عدنان رحمت جب لکھتے ہیں تو خوب لکھتے ہیں بنیادی طور پر انگریزی نثر کے شہ سوارہےں لیکن اب اردو پر بھی توجہ فرمانے لگے ہیں گذشتہ دنوں انہوں نے قومی بے عملی اور بے حسی کے حوالے، علامتی فن پارہ بھجوایا تھا آپ کے لئے پیش خدمت ہے
"ہمیں پولیو کے قطروں کے لیئے پیسے بل گیٹس فاﺅنڈیشن دے گی۔ ٹی بی کے خاتمے کے لیئے رقم گلوبل فنڈ سے لیں گے- تعلیم کے لیئے امدادنئے مالکان امریکی (USAID) اورہمارے پرانے آقا، انگریز (UKAID) دیں گے۔ہماری گلیوں کا کچرا چین اور ترکی کی کمپنیاں صاف کریں گی۔ باقی ملک ہم خود چلائیں گے۔ آخر ہم ایک خوددار قوم بھی تو ہیں"!
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024