پیارے سویلین مبارک ہو! 17 سال بعد ہونے والے کنٹونمنٹ کے الیکشن پاک فوج اور رینجرز کی نگرانی میں ہوئے۔ کراچی کے حلقہ 246 قومی اسمبلی کا الیکشن بھی فوج اور رینجرز کے سائے تلے انجام پایا۔ ہم کس قدر جمہوریت پسند اور سولائزڈ ہیں۔قحط الرجال کا تو کوئی معاملہ سرے سے موجود ہی ”نہیں“۔ واہ!!! کیا لگتا نہیں کہ ہم واقعی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باشندے فراہمی انصاف عام ہونے، گھر گھر نگر نگر تعلیم کے پائے جانے اور صحت کے حوالے سے بنیادی سہولیات محمود و ایاز کے لئے ہونے کے سبب بہت جلد ترقی یافتہ ہونے والے ہیں۔ ”ترقی یافتہ“!!! ہم نے سمجھ لیا ہے کہ تعلیم یافتہ اقوام ہی ترقی یافتہ ہوا کرتی ہیں۔ کاش کل نہیں تو آج ہی قائداعظم کا نام ”استعمال“ کرنے والی مسلم لیگیں، بھٹو ازم کے دعوے کرنے والی پی پی پی اور مولانا مودودی کی نام لیوا جماعت اسلامی اپنے اپنے سربراہان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتیں۔ آخر کب تک جمہوریت کی آبیاری اور پیوند کاری فوج کرتی رہے گی۔ سیاستدان کب کریں گے؟
وہی چشمہ بقا تھا جسے سب سراب سمجھے
وہی خواب معتبر تھے جو خیال تک نہ پہنچے
اور تو اور جماعت اسلامی کے ایک ریٹائرڈ پروفیسر نے ایک جماعتی مسند ملنے کے فوراً بعد جماعت کے خارجہ امور کے ایک ماہر عبدالغفار عزیز کی حمایت سے برسوں سے چلنے والے لاہور کے ایک ادارہ ”سید مودودی انٹرنیشنل اسلامک انسٹی ٹیوٹ“ کا نام ہی بدل ڈالا۔ یعنی سید مودودی کا نام ہی علیحدہ کر دیا کہ سرکاری ادارے الحاق نہیں کرتے۔ یہ صریحاً جھوٹ ہے۔ جماعت اسلامی اس ادارے کا نام میرے نام کر دیں کیونکہ کراچی سے خیبر تک الحاق میں کوئی رکاوٹ ممکن ہی نہیں۔ کم از کم ن لیگ اور پی پی پی والے لڑیں یا مریں یہ دونوں شہید بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے نام سے ادارے بنانا فخر سمجھتے ہیں، فخر!!! جماعتیوں کو کیا سوجھا کہ نام مٹا دیا۔ دریافت پر کہتے ہیں بلڈنگ کے باہر سے نام مٹایا ہے کیونکہ اندر زیادہ ادارے بنا دیئے۔ ہمیں عام طور پر لطیفے پسند ہیں لیکن یہ لطیفہ بالکل پسند نہیں آیا۔
قارئین کرام! سیاست کی طرف پھر آئیں گے۔ جماعت اسلامی سے اچانک کتابوں کی جانب ر±خ ہو گیا۔ اس لئے کچھ باتیں کتابوں کی، پھر کچھ باتیں خطوط کی بھی کرنی ہیں۔ چند دن قبل بہا¶الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے ایک کامیاب و کامران شعبہ، شعبہ فاصلاتی تعلیم اور سوشل سائنسز کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر اسحاق فانی کی قیادت میں 15 مختلف پی ایچ ڈی ڈاکٹرز کے ساتھ ایک تعلیمی و تحقیقی فورم چل رہا تھا کہ ڈاکٹر محمد شہزاد (اسسٹنٹ پروفیسر) اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے بطور خاص یہاں پہنچے اور انہوں نے ”ڈاکٹر عبدالسلام خورشید .... شخصیت اور فن“ عنایت کی۔ یہ ان کا پی ایچ ڈی کا تھیسس تھا جسے مقتدرہ قومی زبان پاکستان نے کتابی شکل دی۔ ڈاکٹر محمد شہزاد جتنے خود شفیق اور نستعلیق ہیں اتنے ہی جاندار اور شاندار ان کے رشحات قلم ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید ایک استاد، محقق، کالم نگار اور صف اول کے تجزیہ کار تھے۔ میں ان کے کمالات سے آشنا تھا لیکن ڈاکٹر محمد شہزاد نے جس طرح متعارف کرایا اس کی بات ہی اور ہے۔ اگر میں ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کو شہزاد کی نظر سے نہ دیکھتا تو مولانا عبدالمجید سالک کے صاحبزادے عبدالسلام خورشید کی چمک دمک سے ناآشنا ہی رہتا۔ ”واقعاتِ عالم“ (عنوان) سے بین الاقوامیت کو جانا اور ”گرد و پیش“ کے عنوان میں معاشرتی و معاشی معاملات کو سمجھا۔ ان کے کالموں کا عنوان ”حالاتِ حاضرہ“ بھی رہا۔ تعلیمی موضوعات، معاملات اور مسائل پر خورشید کا قلم بھی آفتاب کی طرح روشن تھا۔ ہمہ جہت شخصیت خورشید کو پڑھنا صحافت کے طالب علموں کا فرض ہے۔ خورشیدپیدائش12) اگست 1919ءوفات 11 فروری (1995 شعبہ صحافت پنجاب یونیورسٹی کے صدر رہے ان کے بعد مسکین علی حجازی صدر شعبہ بنے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ میڈیا سٹڈیز کے ڈاکٹر شہزاد سے توقع ہے کہ ان کی تحقیق مقتدرہ قومی زبان ہی نہیں، صحافت کے اساتذہ، طلبہ اور ایچ ای سی کے لئے بھی قابل توجہ ہو گی، اب ریسرچ جاری رکھنا ان پر فرض ٹھہرا!
حرفوں سے موتی پرونے والے حسین احمد پراچہ کی ”حکم اذاں“ بھی ملی۔ ان کی تقریب رونمائی پر پی ٹی وی کی ایک ریکارڈنگ کے سبب نہ جا سکا تاہم کتاب پڑھنے کے بعد خسارہ پورا ہو گیا۔ نظریاتی صحافت کے شہنشاہ مجید نظامیؒ نے ڈاکٹر حسین احمد پراچہ کو صحیح الفکر سیاسی تجزیہ کار قرار دیا تھا۔ قحط الکتاب کے دور میں ڈاکٹر پراچہ اور ڈاکٹر شہزاد جیسے لوگ کتابی علم بلند کرنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ صرف کتاب نہیں، معیاری کتاب کی روح اور ضرورت کی فلاسفی سے یہ لوگ خوب آگاہ ہیں۔ قومی اور عالمی سطح پر معروف ایک اور ڈاکٹر بھی یاد آ گئے۔ ڈاکٹر مجاہد کامران وہ سائنسدان ہیں جو بیک وقت اعلیٰ منتظم اور بلا کا ادبی ذوق رکھنے اور پالنے والے ہیں۔ حسن انتظام اورحسن بیان سے حسن ظن اور حسن زن تک کے علوم ان کے رگ و پے میں ہیں۔ میں نے آج تک جس ماہر تعلیم پر سب سے کم لکھا وہ جامعہ پنجاب کے تعلیمی سپہ سالار ڈاکٹر مجاہد کامران ہیں۔ کچھ صحافی ان کے گیت گاتے ہیں اور کچھ ان کے حوالے سے مرثیہ گوئی کرتے ہیں لیکن میں مقام اعراف پر ہوں۔ بیک وقت فزکس اور ”فزیک“ کے سائنسدان کی بین الاقوامی شہرت یافتہ کتاب "THE GRAND DECEPTION - CORPORATE AMERICA AND PERPETUAL WAR" پڑھی تو سرکار کا مداح ہو گیا کہ جناب نے ایک ادیب اور بین الاقوامی تجزیہ نگار بھی اپنے اندر چھپا رکھا ہے، اور اس دل میں کیا رکھا ہے، یہ کہانی پھر سہی۔ بہرحال اس تصنیف نے امریکہ سے پاکستان میں موجود امریکی سفارتخانے تک کے قلب و ذہن پر دستک دی۔ علاوہ بریں ”نائن الیون اینڈ دی نیو ورلڈ آرڈر“ میں بھی حقائق کے حوالے سے دم خم ہے۔ بڑے عہدے پر رہ کر امریکہ کو ننگا کرتے رہے۔ ”ڈاکٹر اے کیو خاں آن سائنس اینڈ ایجوکیشن“ بھی ان کی اچھی تصنیف ہے۔ (اور انہوں نے ابھی عنایت نہیں کی)۔ محترم امیر حمزہ اپنی کتاب بھجواتے رہتے ہیں، ان کے ایک کارکن خالد صاحب کا پچھلے دنوں فون آیا کہ ”امیر حمزہ صاحب کی تصانیف ”سیرت کے سچے موتی“ اور ”شاہراہ بہشت“ کا مطالعہ کریں؟“ میں نے عرض کیا کہ مولانا سے کہئے گا کہ ، کبھی ہماری غمی خوشی کا بھی پوچھ لیا کریں!“ بہر حال وہ ملیں نہ ملیں چاہے کسی کے ہاتھوں کتب بھجوا دیں، ہم ٹھہرے وہابی۔ پڑھے بغیر تو نہیں رہ پائیں گے نا۔ امیر حمزہ صاحب! آپ کی کتب توحید و سنت پر اعلیٰ پائے کے آسان فہم لیکچر ہوتے ہیں جنہیں پڑھ کر ایمان ہی تازہ نہیں ہوتا بہت کچھ نیا بھی سیکھتے ہیں اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ، اور ملنے ملانے کی عادت بھی ڈالے۔(آمین)
دیکھئے! ایک خط ہے اولڈ راوین ارسلان وڑائچ کا۔ وہ اپنے جی سی کے حوالے سے پریشان ہیں جس کو جی سی یو نے کھا لیا کہتے ہیں کہ اقبال، فیض، ن م راشد، پطرس بخاری اور مجید نظامی کا ادارہ جو ڈیڑھ سوسالہ روایات کا امین ہے وہاں آج ایڈہاک ازم کا اژدھا سب کچھ نگل رہا ہے۔ سوشل سائنسز اور لینگوئجز کو مستقل ڈین میسر نہیں موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹرخلیق الرحمٰن کے حوالے سے اس کا خیال ہے کہ سوائے احسن اقبال (وفاقی وزیر) کے استاد ہونے کے اور کچھ بھی سرکار کے پلے نہیں منظور نظر کو نوازتے اور تعلیم و تحقیق کو لتاڑتے ہیں۔ استاد کی دو اقسام ہوتی ہیں (1) مربی (2) محقق۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں دونوں کا فقدان ہے۔ کڑی تنقید اور حقائق پر مشتمل اس خط کو پورا شائع کرنے سے قاصر ہوں۔ کیونکہ میرے کئی رفقاءناراض ہو جائیں گے۔ پھر احسن اقبال کی بھی قدر کرتا ہوں۔ لیکن ارسلان وڑائچ سے میں یہ اتفاق ضرور کرتا ہوں کہ، تعلیمی اداروں کو روپے کمانے کے لئے کسی کپڑا ساز کمپنی کا ”دلہن شو“ اور فوٹو سیشن نہیں کرانا چاہئے۔ وی سی کو استاد بن کر سوچنا چاہئے پھر جب وہ احسن لوگوں کا بھی استاد رہا ہو۔ میرا خیال ہے کہ یونیورسٹی کے گھاٹے پورے کرنا معاشرے کا فرض ہے۔ اساتذہ کا نہیں یہ کاروباری سوچ کبھی تعلیمی و تحقیقی انقلاب نہیں لا سکتی۔ محترم المقام ڈاکٹر خلیق واقعتاً یونیورسٹی چلانے میں فیل ہو گئے پس اگلا چانس اور ایکسٹنشن نما تعیناتی نہ ہی دیں تو بہتر ہے۔ تعلیم پر رحم کریں۔ آنے والے دنوں میں وی سی سرچ کمیٹی فار پنجاب میرٹ کا جھنڈا ہی بلند کرے!۔
جاتے جاتے اس تعلیم کا بھی تذکرہ کر دوں جو امام کعبہ خالد بن علی الغامدی نے جامعہ اشرفیہ لاہور میں دی اور نبی اکرم کی حدیث یاد کرائی کہ ، کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فوقیت نہیں اہل نظر اور اہل عرب بھی اس پر غور کریں! جی انتخابی ٹھپے کے حوالے سے بس اتنا کہوںگا کہ عمران خان صاحب این اے 246 کے نتائج کے بعد ازراہ کرم حقیقت کی دنیا میں لوٹ آئیں! جہاں انیس بیس کا فرق ہو وہاں ٹھپے کبھی کوئی نہیں لگنے دیتا لیکن جہاں زمین آسمان کا فرق ہو وہاں ٹھپے لگ ہی جایا کرتے ہیں۔ یقیناً لاہور اور راولپنڈی کے کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات سے بھی جناب عمران نے مزید سیاسی بلوغت پائی ہو گی۔ حکومتی دعوﺅں اور عمرانی دھرنوں سے نہیں ملکی ترقی Civilised ہونے میں ہے۔ پہلے لیڈر سولائزڈ ہوں۔ قائدین جوڈیشل کمیشن ہی پر اکتفا کریں کہیں کوئی آرمی کمیشن برائے تحفظ جمہوریت نہ آ جائے جس قوم کے انتخابات ہی آرمی کے زیر سایہ ہوں اور سولین فیل ہوں تو بس اللہ ہی اللہ ہے!!!
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024