25 اپریل کو ملک بھر کے کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات کو قومی میڈیا میں اتنی ہی دلچسپی سے مانیٹر کیا گیا جیسے ہر اہم الیکشن کو کیا جاتا ہے۔ ملک کے سینئیر اور معتبر تجزیہ نگار سلیم بخاری اور پروڈیوسر عمران عباس نے اس شام انتہائی عرق ریزی سے بہترین ٹاک شو نشر کیا جس میں اس الیکشن اور ملک کی مجموعی سیاسی صورتِ حال کا بے لاگ تجزیہ کیا گیا۔ میں نے اس ٹاک شو میں بلا جھجک کہا کہ دو کشتیوں کے سوار کا وہی حشر ہوتا ہے جو عمران خان اور ان کی پارٹی کا ہو رہا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کو سیاسی تالاب میں ڈبکیاں لگاتے ہوئے 19 برس پورے ہو چکے ہیں لیکن اس کے لیڈر عمران خان کو ابھی تک یہ معلوم ہی نہیں ہو سکا ہے کہ انہیں دو کشتیوں میں سے کس ایک کا انتخاب کرنا ہے،عوام اور کارکنوں کی کشتی یا پھر تجوری بردار لیڈروں کی کشتی جس کا عام پبلک سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ویسے تواب تک عمران خان کو یہ بات سمجھ آ جانی چاہئے تھی کہ وہ جب تک دو کشتیوں کے سوار رہیں گے ان کے سیاسی معاملات بہتر نہیں ہوں گے اور انہیں یہ فیصلہ کر لینا چاہئے تھا کہ انہوں نے کارکنوں کے ساتھ رہنا ہے یا پھر لیڈروں اور الیکٹبلز کے گھن چکر میں اپنی سیاست کا بیڑہ غرق کئے رکھنا ہے۔
ان 42 کنٹونمنٹ بورڈز کے نتائج میں بہت سے پیغامات ہیں، کامیاب ہونے والوں کے لئے بھی اور ناکام ہونے والوں کے لئے بھی، اور سب سے اہم بات یہ کہ قوم کے پاس بھی آئندہ کے فیصلے کرنے کے لئے بہت سے پیغامات ہیں۔ کنٹونمنٹ بورڈز کے نتائج دیکھے جائیں تو دوحرفی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ نواز کے پاس سوائے پنجاب کے اور کچھ نہیںہے، ایک ایسی پارٹی جو آج ملک کی حکمران جماعت ہے صرف ایک صوبہ میں کامیاب ہوئی ہے جبکہ باقی تین صوبوں میںاس کا منحنی سا وجود ایک قومی پا رٹی ہونے کے دعوی کی نفی کرتا ہے۔ پاکستان کی ساخت ایسی ہے کہ پنجاب کا صوبہ ملک کا 58 فیصد ہے اس لئے جو پنجاب سے زیادہ سیٹیں لیتا ہے وہی ملک میں حکمرانی بھی کرتا ہے، باقی تینوں صوبے ملا کر 42 فیصد بنتے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہونا چاہئے کہ نون لیگ صرف ایک صوبہ پر محنت کرے اور باقی تین کو نظر انداز کرکے ملک پر حکمرانی کرتی رہے، اس کے نتائج صریحاً برے ہوں گے جو ملکی مفاد او رسالمیت کے اعتبار سے بعد میں پریشان کن صورتِ حال کو جنم دیں گے۔ ان کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں ہار اور جیت سے قطع نظر پاکستان تحریک انصاف نے پورے ملک میں اپنا سیاسی نفوذ ثابت کیا ہے کیونکہ انہوں نے ملک گیر سطح پر مقابلہ کیا ہے، انہیں کہیں ووٹ کم ملے اور کہیں زیادہ لیکن پورے ملک میں انہوں نے ووٹرز کو متحرک ضرور کیا ہے۔پی ٹی آئی کو بہر حال اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ثابت کر دیا کہ پورے پاکستان میں مسلم لیگ نواز کے بعد وہ ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر موجود ہے۔ کنٹو نمنٹ بورڈز کے انتخابات میں تیسرے نمبر پر ایم کیو ایم نے سب سے زیادہ سیٹیں لے کر کراچی اور حیدرآباد میں اپنی عددی برتری کو برقراررکھا ہے جہاں تک پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کا تعلق ہے، میں سمجھتا ہوں کہ سائنس دانوں نے خوردبین ایجاد ہی اس لئے کی تھی کہ ایک دن یہ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کو ڈھونڈنے میں کام آئے گی، ظاہر ہے بہت ہی چھوٹی چیز صرف خوردبین کی مدد سے ہی ڈھونڈی جا سکتی ہے۔
کنٹونمنٹ بورڈ کے نتائج میں عمران خان کے لئے بہت بڑا پیغام ہے اور وہ یہ کہ جس کپتان کا اپنی ٹیم پر کنٹرول نہ ہو یا جو کپتان ٹیم میں اپنے کھلاڑیوں کی پوزیشنوں کا فیصلہ نہیں کر پائے اور اس ٹیم کے کھلاڑی اپنے کپتان کے کئے گئے فیصلوں کو قبول نہ کرتے ہوں، اس کا یہی حشر ہوتا ہے جو پی ٹی آئی کے ساتھ ہوا۔ میں خاص طور پر فوکس کروں گا لاہور کنٹونمنٹ کو، جوپورے کا پورا قومی اسمبلی کا حلقہ 125 ہے نہ ایک انچ زیادہ نہ کم اورنہ ہی ایک ووٹر زیادہ نہ کم، اسی حلقہ سے عام انتخابات کے بعد پی ٹی آئی نے اپنا احتجاج شروع کیا تھا اور حامد خان کے مقابلہ میں خواجہ سعد رفیق کی جیت کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ تمام حلقوں کے مقابلے میں اس حلقہ سے پی ٹی آئی کے سٹیک سب سے زیادہ تھے کیونکہ یہاں ان کا کلیم سب سے بڑا تھا، لیکن جس طرح نون لیگ نے اس حلقہ میں پی ٹی آئی کو چاروں شانے چت کیا ہے، اس سے ثابت ہو گیا ہے کہ حامد خان کی جیت کے حوالہ سے پی ٹی آئی کا دعوی غلط تھا اور اس نے اس کی پچھلے پورے ایک سال کی احتجاجی سیاست کو غلط ثابت کرکے اس کا جنازہ نکال دیا ہے۔ میں خواجہ سعد رفیق کا خصوصی طور پر ذکر کروں گا جس نے اس الیکشن میں ہر ایک کے پاس خود جا کر معافی تلافی کی، سب کو آن بورڈ لیا اور ایک بہترین کوشش اور حکمت عملی سے پی ٹی آئی کے دعوی کو غلط ثابت کیا بلکہ یہ تو اس حلقہ کا عوامی ریفرنڈم تھا کہ NA 125 میں کوئی دھاندلی نہیں ہوئی تھی۔ اس حلقہ کے دعوی دار حامد خان ایک دن بھی حلقہ میں کہیں نظر نہیں آئے اور نہ ہی پی ٹی آئی نے کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن میں اچھے امیدواروں کا چناﺅ کیا۔ بالکل یہی بات سیالکوٹ کینٹ میں رہی اور خواجہ آصف نے بھی ثابت کیا کہ وہ الیکشن ٹھیک جیتے تھے۔ جہاں تک راولپنڈی کنٹونمنٹ بورڈ کا تعلق ہے مسلم لیگ نواز نے وہاں کلین سویپ کیا، بیس میں سے انیس سیٹیں جیتیں، ایک جماعت اسلامی کو ملی اور وہاں دور دور تک پی ٹی آئی کہیں نظر نہیں آئی۔
مسلم لیگ نواز نے اپنے امیدواروں پر بہت محنت کی، درست امیدواروں کو ٹکٹ دینا، انہیں پارٹی کی طرف سے مکمل سپورٹ اور الیکشن کو سنجیدگی سے الیکشن کے طور پر لڑنا۔ نون لیگ کے امیدوارپچھلے پورے ایک سال سے فیلڈ ورک کر رہے تھے جبکہ پی ٹی آئی کا یہ عالم تھا کہ اس نے الیکشن شیڈول کے اعلان ہونے کے بعد اکثر جگہوں پر تین تین بار امیدوار تبدیل کئے اور پی ٹی آئی کی ٹکٹوں کی میوزیکل چئیر چلتی رہی۔نون لیگ نے سیاسی کارکنوں کو میرٹ کی بنیاد پر ٹکٹ دئےے جبکہ پی ٹی آئی کی ٹکٹوں کی تقسیم میں میرٹ کی بجائے پیسہ چلا۔ اب یہ سا ری باتیں عمران خان کے سمجھنے کی ہیں کہ انہوں نے پارٹی کو تجوریوں کے زورپر چلانا ہے یا پبلک سپورٹ کے زور پر۔ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات ہو چکے، پچھلے عام انتخابات کے بعد ایک بار پھر ثابت ہو گیا ہے کہ پاکستان میں بہت سے سیاسی جزیرے بن چکے ہیں، ہر پارٹی کا اپنا اپنا جزیرہ ہے جہاں وہ حکومت کر رہی ہے۔ آج کا لمحہ فکریہ بھی یہی ہے کہ یہ سیاسی جزیرے پاکستان کو آئندہ کس سمت میں لے کر جائیں گے۔