منصورہ میں سراج الحق سے ون ٹو ون ملاقات بڑی خوشگوار، دوستانہ اور اُمید افزاء تھی۔ طویل عرصے کے بعد قومی منظر نامے پر دھرتی سے جڑی حقیقی عوامی قیادت ابھری ہے۔ سرمایہ دار اور جاگیردار جب غریب عوام سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں تو منافقت ان کے چہرے پر عیاں ہوتی ہے۔ سراج الحق مزدور کے بیٹے ہیں انہوں نے غربت کا مزہ چکھ رکھا ہے وہ محرومیوں کی اذیت سے آشنا ہیں۔ غریب عوام کی قیادت کا حق جتنا سراج الحق کو ہے اتنا شاید ہی کسی اور لیڈر کو ہو۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ قول و فعل کے تضاد کی داستان ہے۔ سراج الحق نے ہمیشہ اپنی زبان کو دل کا رفیق رکھا ہے۔ ان کی گفتگو بے ساختہ اور دوٹوک تھی۔
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
سراج الحق خیبرپختونخواہ کے سینئر وزیر رہے اس کے باوجود 5 مرلہ کے کرایے کے گھر میں رہتے ہیں۔ جو لیڈر اپنا نظریہ اپنے چھ فٹ کے جسم پر نافذ نہ کرسکے وہ پاکستان پر کیسے نافذ کرسکے گا۔ یہ ہے وہ نکتہ جسے عوام سمجھ جائیں تو پاکستان کے تمام مسائل حل ہوجائیں۔ سراج الحق نے درست تشخیص کی کہ تحریک پاکستان کی تکمیل نہ ہوسکی۔ پاکستانی ریاست کو قائداعظم اور علامہ اقبال کے نظریات کیمطابق تشکیل نہ دیا جاسکا۔ ذاتی اور گروہی مفادات کے تحت تحریک پاکستان کا رخ موڑ دیا گیا۔ سلسلہ ٹوٹ گیا اس سلسلے کو دوبارہ جوڑنے کی ضرورت ہے جو تحریک تکمیل پاکستان سے ہی ممکن ہے۔ انکی خدمت میں گزارش کی کہ جماعت اسلامی کو پرانا بیانیہ ترک کرکے حالات کیمطابق نیا بیانیہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی اگر اپنی نظریاتی اساس پر قائم رہتے ہوئے انداز بیاں اور حکمت عملی تبدیل کرلے تو اسکی کامیابی کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں۔ اگر تاریخی قتل و غارت گری کے بعد بھی جماعت اسلامی کے لیڈر جہاد اور قتال فی سبیل اللہ کو ہی مسائل کا حل سمجھیں گے تو وہ اسلامی اور خوشحال پاکستان کی منزل پر کیسے پہنچ سکیں گے۔قوم کو اس وقت انتشار کی نہیں بلکہ اتحاد کی ضرورت ہے۔ہزاروں انسانوں کا خون بہہ چکا اب اور کتنا خون بہانے کے ارادے ہیں۔تبلیغی جماعت نے شاندار کام کیا۔ لوگوں کو حقوق اللہ کی جانب بلایا کاش یہ جماعت حقوق اللہ کو حقوق العباد کیساتھ جوڑتی تو پاکستانی سماج انتہا پسند اور سنگدل نہ ہوتا۔ تحریک پاکستان کی اساس حقوق العباد پر رکھی گئی تھی جو عوام کو متحدہ ہندوستان میں حاصل نہیں ہوسکتے تھے۔ سراج الحق نے نیک نیتی کیساتھ حقوق العباد کا پرچم اپنے ہاتھ میں تھام لیا ہے۔ انکی سچائی اور خلوص نے ہر طبقۂ فکر کے افراد کو متاثر کیا ہے۔سراج الحق نے انتھک، پرعزم اور پرجوش لیڈر کے طور پر مینار پاکستان کے عظیم الشان اور یادگار اجتماع سے پہلے پورے پاکستان کا دورہ کیا۔ انکی شبانہ روز محنت رنگ لائی اور جماعت اسلامی ہر لحاظ سے متاثر کن تین روزہ اجتماع کرنے میں کامیاب رہی۔ سراج الحق جب خلوص دل کیساتھ مظلوم عوام کے دلوں کی ترجمانی کرتے ہیں تو عوام ہاتھ اُٹھا کر انکے مشن کی کامیابی کیلئے دعا مانگتے ہیں۔ سراج الحق اپنے خطبوں میں افتادگان خاک کے مسائل کو بیان کرتے ہیں۔ موجودہ نظام کو بے نقاب کرتے ہیں اور عوام کے دلوں میں اُمید کی نئی شمع روشن کرتے ہیں۔ مینار پاکستان پر اپنے ولولہ انگیز خطاب میں انہوں نے کہا کہ آئندہ الیکشن کرپٹ افراد کا یوم حساب ہوگا۔ قوم کی لوٹی ہوئی دولت عوام کے پیٹوں سے نکالیں گے۔ کڑا احتساب کیا جائیگا۔ 15 اجناس آٹا، چاول، دال، چینی وغیرہ پر سبسڈی دی جائیگی تاکہ عوام عزت کی زندگی گزار سکیں۔ خواتین کو آسان بلاسود قرضے دئیے جائینگے۔ بڑی بیماریوں کا مفت علاج کیا جائیگا۔ میٹرک تک تعلیم مفت اور لازمی ہوگی۔ مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کیخلاف جہاد کیا جائیگا۔ متناسب نمائندگی کے اصول پر انتخابات کرائے جائینگے تاکہ نیک نام اور اہل افراد پارلیمنٹ کے رکن بن سکیں۔
سراج الحق کے قومی ایجنڈے سے کوئی محب الوطن پاکستانی اختلاف نہیں کرسکتا۔ سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی تنہا سٹیٹس کو کیسے ختم کرسکتی ہے۔ موجودہ نظام کے علمبردار بڑے مضبوط ہیں۔ سرمایہ دار، تاجر، جاگیردار، بیوروکریٹ، بڑے سیاستدان، جرنیل اور ان کے حواری بڑے طاقتور اور بااثر ہیں۔ وہ ایسے نظام کو کیسے تبدیل ہونے دینگے جو انکی لوٹ مار اور عیش و عشرت کا محافظ ہے۔ سٹیٹس کو کے حامیوں کو سامراج اور عالمی مافیاز کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ موجودہ نظام عوامی طاقت سے ہی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ سراج الحق اور جماعت اسلامی خلوص اور نیک نیتی کے باوجود اکیلے نظام کو تبدیل نہیں کرسکتے اور نہ ہی تکمیل پاکستان کا ایجنڈا پورا کیا جاسکتا ہے۔ لازم ہے کہ عوام کو متحد اور منظم کیا جائے تاکہ سٹیٹس کو کی آہنی دیوار کو توڑا جاسکے۔ سراج الحق وژنری لیڈر ہیں ان کو آگے بڑھ کر ان سیاسی قوتوں کو قومی ایجنڈے پر متحد کرنا چاہیئے جو تبدیلی اور انقلاب کی حامی ہیں۔ پاکستان میں نئی صف بندی ہورہی ہے۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری موجودہ ظالمانہ اور غیر منصفانہ نظام کے مخالف لیڈروں کے طور پر ابھرے ہیں۔ سراج الحق کو اللہ تعالیٰ نے وہ صلاحیت عطا کررکھی ہے کہ وہ سٹیٹس کو مخالف لیڈروںکو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرسکتے ہیں۔عوام تبدیلی کیلئے تیار ہیں وہ اپوزیشن کے جلسوں میں جوق در جوق شریک ہورہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا تبدیلی اور انقلاب کے دعوے کرنیوالے لیڈر بھی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کیلئے تیار ہیں۔
پاکستان کے باشعور اور بے لوث عوام کی دلی خواہش ہے کہ سراج الحق عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نظام کی تبدیلی، انقلاب، نیا پاکستان اور تکمیل پاکستان کیلئے متحد ہوجائیں۔ ان تینوں لیڈروں میں بڑی قدر مشترک یہ ہے کہ وہ سٹیٹس کو توڑنا چاہتے ہیں۔ انکے قومی ایجنڈے کے بنیادی نکات بھی مشترک ہیں۔ یہ مشترکات پر کیوں اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ جب تینوں کی منزل ایک ہے تو پھر راستے جداجدا کیوں ہیں۔ سٹیٹس کو کی حامی قوتیں در پردہ کوشش کررہی ہیں کہ نظام کی تبدیلی کے علمبردار لیڈر متحد نہ ہوسکیں۔ پاکستان کی تاریخ میں کئی لیڈروں نے سولو فلائیٹ کرکے نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کی مگر انکی کوششیں رنگ نہ لائیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ منظم اور متحد ہوکر تبدیلی کی کوشش کی جائے۔ عوام تو تینوں لیڈروں کی پذیرائی کررہے ہیں۔ کیا تینوں لیڈر تاریخ کی صدا پر لیبیک کہتے ہوئے عوام کی توقعات کیمطابق کم سے کم قومی ایجنڈے پر متفق ہوسکیں گے۔ سراج الحق کو اگر جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ آزادانہ فیصلے کرنے دے تو وہ تمام سٹیٹس کو مخالف لیڈروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرسکتے ہیں۔ اتحاد کا بنیادی نکتہ یہ ہونا چاہیئے کہ "Status Quo Must Go" یعنی سٹیٹس کو ختم ہو، جب تک سٹیٹس کو نہیں ٹوٹے گا نیا پاکستان نہیں بن سکے گا۔ انقلاب برپا نہیں ہوگا اور اسلامی پاکستان خوشحال پاکستان وجود میں نہیں آسکے گا۔ سٹیٹس کو متحد اور منظم عوامی قوت سے ہی ٹوٹ سکتا ہے۔ تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور عوامی تحریک کے کارکنوں سے دردمندانہ اپیل ہے کہ وہ اپنے قائدین کو یونائٹڈ فرنٹ بنانے پر آمادہ کریں تاکہ عوام کا وہ خواب پورا ہوسکے کو ایک عرصے سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024