عید الفطر پر ایک بار پھر دہشت گردوں نے سر اُٹھا یااور کوئٹہ و پارہ چنار میں خون کی ہولی کھیل دی جس میں درجنوں افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے، اللہ تعالیٰ اس ملک پر رحم فرمائے اور حکومت کے ہدایت فرمائے کہ کم از کم عید جیسے موقعوں پرتو عوام کی حفاظت کو یقینی بنائے تاکہ عوام سکھ چین کی زندگی بسر کر سکیں، ملک میں آج بھی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے بے چینی کی سی کیفیت ہے، ریاست کو چلانے والے تمام ستون ایک دوسرے کے ساتھ مل کر عوام کی فلاح کے لیے کام کرنے کے بجائے انہیں کمزور کرنے پر تلے ہوئے ہیں، اس حوالے سے تو سپریم کورٹ نے بھی حکومتی کار کردگی کی ”تعریف“ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پانامہ کیس میں حکومت منظم انداز میں آگے بڑھ رہی ہے.... اب منظم انداز کونسا ہو سکتا ہے یہ تو اعلیٰ عدلیہ ہی جانتی ہے مگر ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ کام ریاست کے تمام ستونوں بشمول میڈیا اور چندمیڈیا پرسنزکو ساتھ ملا کر اداروں کے خلاف حکومت مہم جوئی کر رہی ہے۔ ایک سینئر کالم نگار دوست صحافی نے اسے کچھ یوں بیان کیا کہ ” وزیراعظم کا جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونا اچھی بات ہے لیکن اس خبر پر سٹاک مارکیٹ 1900پوائنٹ گر گئی ہے اور لوگوں کے کھربوں ڈوب گئے ہیں، انہیں جے آئی ٹی کے سامنے بلانے کے بجائے کوئی دوسرا طریقہ بھی ہو سکتا تھا، انہیں سوالات بھیجے جا سکتے تھے، وہ ان کے جوابات بھیج دیتے“ میں نے انہیں فون کیا کہ جناب آپ کی تجویز تو ”ماشاءاللہ “ ہے مگر اس حساب سے دیکھا جائے تو بھٹو کو پھانسی کا پھندہ گھرہی بھیج دینا چاہیے تھا،سپریم کورٹ کو خود چل کر گیلانی صاحب کے گھر چلا جانا چاہیے تھااور وہاں جا کر انہیں سزا سنانی چاہیے تھی.... چلیں ماضی کی بات نہیں کرتے، عزیر بلوچ اور کلبھوشن کو بھی ملک سے بھیج دینا چاہیے اور سوالنامہ دے کر تاکید کر دینی چاہیے کہ جواب وٹس ایپ کر دیجیے گا.... پلیز، عین نوازش ہوگی، شکریہ وغیرہ وغیرہ ....
یہ جو دوست صحافی ہوتے ہیں ناں یہ بھی بڑا کمال کرتے ہیں، یہ سب کے دوست ہوتے ہیں حتیٰ کہ حکومت کے بھی ”جگری“ دوست ہوتے ہیں، وہ دوستی میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ پھر انہیں پکڑا ہی نہیں جا سکتا، حکومتی دوستی نبھانے کے لیے تو کبھی کبھی پورے کا پورا صحافتی ادارہ ہی دوستی کی سولی چڑھا دیا جاتا ہے۔ حالانکہ عوام یہ بھی جان رہے ہوتے ہیں کہ بھائیو! فلاں بندہ یا ادارہ بہت غلط کر رہا ہے، لیکن کیا کریں نا تو کسی کی سوچ کو بدلا جا سکتا ہے اور نہ ہی نیچر کو .... کیوں کہ nature cannot be changed.... اور رہی بات سیاستدانوں کی تو یہ کونسا کوئی نئی بات ہے ہر دور میں سیاستدان قلم فروشوں کو استعمال کرتے آئے ہیں، اور انہی کے ذریعے اقتدار کے منصب سنبھالتے آئے ہیں۔ خیر یہ عید کے دن ہیں کسی دوست کی برائی کرنے سے کیا حاصل، اُلٹا گناہ سر لینے والی بات ہے.... لیکن یہ بات تو سب کے سامنے آچکی ہے کہ جے آئی ٹی کے حوالے سے حکومت کا طرز عمل بڑا عجیب ہے ، میاں نواز شریف چونکہ ہمیشہ کی طرح اب کی بار بھی عید اپنے آبائی ”وطن“ لندن میں کر رہے ہیں اور وہاں جا کر سنا ہے ”شیر“ ہوگئے ہیں اور شیر کی دھاڑ میں براہ راست پہلی بار جے آئی ٹی کو نشانہ بھی بنا رہے اور کہہ رہے ہیں کہ ”قوم کسی اور طرف دیکھ رہی ہے اور جے آئی ٹی کہیں اور جارہی ہے، تحقیقاتی ٹیم کے ارکان میرے سوالات کا جواب نہیں دے سکے جب کہ یہ کوئی احتساب نہیں بلکہ مذاق ہے، جے آئی ٹی ہمارے ذاتی کاروبارکے گرد گھومتی ہے۔وغیرہ وغیرہ“ اب بندہ پوچھے جس دن آپ کی پیشی تھی اُس دن لکھا ہوا بیان کیوں پڑھاگیا اور آج اتنی دور بیٹھ کر آپ کو جے آئی ٹی میں کیڑے نظر آرہے ہیں۔ آپ کہیں سے یہ ثابت کردیں اس نام نہاد جمہوریت نے سوائے رسوائی کے عوام کو کیا دیا ہے؟ یاد کریں ایک وقت تھا جب مجھ سمیت کئی صحافی اس جمہوریت کے لیے سیاستدانوں کے کندھے کے ساتھ کاندھا ملا یا کرتے تھے، مگر افسوس ہم سب کو آپ جیسے سیاستدانوں کی کرپشن، بدیانتی اور جھوٹ نے مار ہی دیا ہے۔کبھی این آراو کے ذریعے آپ نے اپنی جزا و سزا خود ہی منتخب کر لی تو کبھی کسی ڈکٹیٹر کا نام لے لے کر پاک فوج کے اداروں کو بدنام کیا جاتا رہا۔ میرے خیال میں پاک فوج کے سربراہ سے بھی اگر کسی دور میں غلطی ہوئی ہے تو اسے مثال کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا، فوج کا گزشتہ10، 12سال کا جو دور ہے اس میں فوج نے صبر سے کام لیا، اور اگر فوج کو بطور ادارہ بدنام کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ مناسب نہیں ہوگا۔ اور رہی بات تفتیش کی تو جناب آپ کیا جانیں تفتیش کیا ہوتی ہے؟ آپ کو 1982ءکا شاید وہ ماحول یاد نہیں جب جاڑے کے دن تھے ، شاہی قلعہ کی دیواریں تھیں، زندگی گزر نہیں بلکہ گھسٹ رہی تھی، اس کے مقابلے میں آج ٹھنڈے ٹھار کمروں میں تفتیش، گاڑیوں سے نکلتے ہوئے فوٹو سیشنز،لائیو کوریج کے مزے،”فاتحین “ کی طرح ہاتھ ہلاتے اندر داخل ہونا.... اور پھر ”ڈبل فاتحین“ کی طرح باہر آنا ، نعروں کا جواب دینا اور پھر خطاب فرمانااور پھر روانہ ہوجانا اور یوں یہ کہنا کہ آج ہم نے تاریخ رقم کردی، اس سے بڑا مذاق اور ظلم ہو نہیں سکتا! بقول شاعر
دہرائی پھریزیدوں نے تاریخ کربلا
خونِ ناحق کا یہ نیا باب دیکھنا
تاریخ دان تو آج یہ لکھ رہے ہیں کہ ایک خاندان کے اتنے افراد کرپشن کے کیس میں بحیثیت ملزم پیش ہوئے۔اور ملزمان پر تفتیش جاری تھی تو وہ اعلیٰ وزارتوں پر براجمان بھی تھے.... تاریخ میں تو یہ لکھا جا رہا ہے کہ 18ویں سے لیکر 21ویں گریڈ تک کے آفیسرز نے ملک کے سب سے اعلیٰ عہدے رکھنے والوں کی تفتیش کی.... اصل تاریخ تو اُن غیرت مند قوموں کی لکھی گئی ، جو اپنے اوپر لگے الزامات سن کر ہی یا تو استعفیٰ دے دیتے یا خود کشی کرلیتے.... اصل تاریخ تو مالٹا کے وزیراعظم نے رقم کی کہ جس نے پانا مالیکس میں اہلیہ کانام آنے پر اقتدار چھوڑ کر قبل ازوقت انتخابات کروادیئے ،تاریخ تو آئس لینڈ کے وزیراعظم نے رقم کی کہ جس کی آف شور کمپنی نکلنے پر عوام جب سڑکوں پر آئے تواس نے اقتدار سے علیحدہ ہو کر خود کوتفتیش کیلئے پیش کردیا ،تاریخ تو آسٹریلیا نے رقم کی کہ دوست کو نوازنے پر اپنے وزیر معدنیات کو جیل بھجوادیا ....تاریخ تو فرانس نے رقم کی کہ ٹیکس فراڈ پر اپنے وزیر بجٹ کو 3سال اور اسکی بیگم کو 2سال کیلئے اندر کر دیا اور تاریخ تو ا سپین نے رقم کی کہ ایک کرپشن ا سکینڈل میں گواہی کیلئے آنے والے وزیراعظم سے کہا گیا کہ ” وزیراعظم بن کر نہیں ایک عام آدمی کی طرح عدالت میں آنا “۔
خیر اگر جے آئی کے کردار کو قابل تعریف انداز میں آگے بڑھانا ہے تو سپریم کورٹ کو اس میں بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا، اور عدالت عظمیٰ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اُس کے پیچھے پوری قوم اس انتظار میں کھڑی ہے کہ وہ ایسا فیصلہ کرے جو پاکستان کی قوم کے مفاد میں ہو۔ اور قوم یہ چاہتی ہے کہ پاکستان انصاف کی نئی راہوں کو تلاش کرتے ہوئے ملک میں انصاف اور احتساب کے راستے آگے بڑھائے کیوں کہ احتساب اور انصاف کے بغیر مستقبل میں کبھی آگے نہیں بڑھا جا سکتا، اگر فیصلہ میرٹ پر ہوا تو میاں نواز شریف کو اور اُن کی حکومت کو اب جانا ہے، لیکن فیصلہ یہ کرنا ہے کہ یہ پورا خاندان نااہل ہو گا، یا میاں نواز شریف کی فیملی نا اہل ہوگی، میرے خیال میں یہ نقطہ آغاز ہوگا، اور میں بہت بار کہہ چکا ہوں کہ 85ءکے بعد کے سیاستدان یہ ثابت نہیں کر سکے کہ وہ پاکستان کی بقاءکے لیے کامیاب ہو سکے ہیں، اُن کی وجہ سے پاکستان بہت مشکل میں ہے کیوں کہ اس کی عوام ہر روز تاریخ رقم کر رہی ہے جو ناقص سسٹم کا سامنا کر رہی ہے، جو اُن لوگوں سے لڑ رہی ہے جو ظلم اور جبر کے نشے میں اس قدر طاقتور ہو چکے ہیں کہ انہیں گرانے کے لیے کسی جنونی کی ضرورت ہوگی....
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024