گو خطِ دستی کا زمانہ نہیں رہا پھر بھی ہم ”خطِ وزیر“ کو خطِ الحاق ہی کہہ دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ خط ہماری خطاﺅں ہی کے عوض ملا پھر بھی ہم اسے سیاں جی کی چٹھی سمجھتے ہوئے ایک خطابی قرار دیتے ہیں اور آنکھوں سے چومتے ہوئے سینے سے لگانے کا اعزاز گردانتے ہیں‘ لیکن اس دل ناداں کو کیا کہیں جو دماغ میں اٹھنے والے سوالوں سے کبھی تڑپتا اور کبھی مچلتا ہے
وہ ایک خط جو تو نے کبھی لکھا ہی نہیں
میں روز بیٹھ کر اس کا جواب لکھتا ہوں
تذکرہ ہے جس خط کا‘ اور مہربانی ہے جس وزیر کی اسے بھی سامنے لاتے ہیں‘ لیکن وزیر کی بات سے قبل وزیراعظم کی بات کرنی ضروری ہے محترم وزیراعظم نے اپنی طرف سے خوب کہا ہے کہ ”وزارتیں مو¿ثر رابطے رکھیں‘ آئند پٹرول کی قلت کی شکایت نہ ملے“ اور متعلقہ حکام کو میڈیا سے دور رہنے کی ہدایت بھی کی۔ پٹرول کی قلت تو بہرکیف ختم ہوئی دکھائی دے رہی ہے‘ لیکن یہاں دو متضاد باتیں اپنی جگہ قابل غور ہیں۔ 1۔ وزارتیں مو¿ثر رابطے رکھیں (یہ بات قابل فہم ہے)‘ 2۔ حکام کا میڈیا سے دور رہنا (یہ ناقابل فہم ہے۔) ارے جناب! حکام اگر میڈیا سے دور رہیں گے تو ربط اور رابطے کیسے استوار رہیں گے؟ بہرحال جب لوگ پٹرول نہ ملنے پر رنجیدہ‘ سنجیدہ اور آبدیدہ تھے ہم سجدہ¿ شکر ادا کر رہے تھے کہ ربا تیرا شکر ہے۔ ڈیزل مل رہا ہے۔ اگر یہ بھی نہ ملتا تو کیا ہوتا؟ تنگدستی¿ پٹرول کی صورت میں ڈیزل ہزار نعمت اور تندرستی رہا۔ شکر یہ بھی ہے کہ حکومت نے یہ الزام کسی عمران خان یا زرداری¿ اعظم پر نہیں لگا دیا کہ انہوں نے پٹرول کسی بنی گالہ یا سوئس اکاﺅنٹس میں نہیں بھجوا دیا۔ اللہ! یہ یاد ماضی بھی واقعی کتنا بڑا عذاب ہے کہ ہمیں وہ خط یاد آگیا جو سابق وزیراعظم گیلانی نے نہ لکھا اور اسلام آباد سے گرے اور ملتان میں اٹکے‘ لیکن سابق وزیراعظم راجہ پرویزاشرف نے وہی خط لکھ کر چند دن ہی سہی‘ لیکن وزارت عظمیٰ کے مزے تو لوٹے۔ حالانکہ سیانے تو اس وقت بھی کہتے تھے کہ....
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
خط تو ہمیں حسین حقانی (سابق سفیر برائے امریکہ) کا بھی یاد آرہا ہے‘ لیکن اب ایک کالم میں ایک آدھ خط کو سمویا جا سکتا ہے۔ ہزارہا ”خطاﺅں“ کو نہیں‘ تعمیر وطن کیلئے خطا اور خطاﺅں سے نکل کر نفع بخش خطابی اور سودمند عملی مظاہروں کی ضرورت ہے۔ وگرنہ یہ ظالم سماج اچھے بھلے خطوط سے مرضی کے مکتوب نکال لیتا ہے۔ کوئی پوچھے تو زرداری صاحب اور حقانی صاحب سے کہ کیا بیتتی ہے جب کوئی یہ پوچھ لیتا ہے
تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا
قارئین باتمکین! وزیراعظم نے بڑی عظیم اور اعلیٰ بات کی کہ ”وزارتیں مو¿ثر رابطے رکھیں“ اسی بات کے تناظر میں ہم بھی ہاتھ باندھ کر وزیراعظم پاکستان سے التجا کرتے ہیں کہ ” اسحاق ڈار‘ خواجہ آصف‘ حمزہ شہباز‘ انوشہ رحمن‘ عابد شیر علی‘ عبدالقادربلوچ‘ پرویز رشیدکے بجائے عباس آفریدی‘ برجیس طاہر‘ رانا تنویر سے بھی مو¿ثر رابطے مطلوب ہیں۔ ان تین حضرات کے پاس بھی کوئی قلمدان ہیں جن کا قوم کو کچھ معلوم ہے نہ انہیں۔ اگر محترم وزیراعظم صاحب آپ مناسب سمجھ تو سکندر بوسن‘ ریاض حسین پیرزادہ اور انجینئر بلیغ الرحمن جیسے وزراءو وزرائے مملکت کو بھی آپ کے ازراہ کرم ”مو¿ثر رابطے“ مطلوب و مقصود ہیں۔ وزراءتو جب عوام سے رابطے مو¿ثر بنائیں گے سو بنائیں گے یا وزیراعظم وزراءکو مو¿ثر رابطے کے قابل جب سمجھیں گے تب سمجھیں گے‘ لیکن ہم محترم وفاقی وزیرمملکت برائے تعلیم و تربیت بلیغ الرحمن کا عوام سے براہ راست رابطہ بذریعہ خط کرا دیتے ہیں۔ یہ وہ خط ہے جو انہوں نے ہمارے پچھلے کالم کے جواب میں لکھا۔ ہم ان کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے تعلیم ہی کو نہیں ہمیں بھی اس قابل سمجھا کہ وٹس ایپ کر دیا جائے:
”السلام علیکم۔ یہ بات اچھی بات ہے کہ آپ تعلیم کے حوالے سے بھی بات کرتے ہیں اور آپ کا اخبار شائع کرتا ہے۔ واقعی یہ کمی ہے کہ ہم اس طرح کام نہیں کر سکے جیسے وفاقی وزارت کے تحت کیا جاتا رہا۔ جولائی 2013ءسے ذمہ داری لینے کے بعد میں نے تمام وزرائے اعلیٰ‘ صوبائی و علاقائی وزرائے تعلیم کو لکھا کہ معیاری‘ نظریاتی اور قومی امنگوں پر مبنی نصاب سازی کو عمل میں لایا جائے۔ میں بالواسطہ اور بلاواسطہ جدوجہد میں مصروف ہوں۔ ہم بین الصوبائی تعلیمی وزراءکمیٹی (کانفرنس) IPEMC کو احسن انداز سے متحرک کر رہے ہیں۔ انٹر پروونسیل ایجوکیشن منسٹر کانفرنس (IPEMC) بدقسمتی سے 2009ءتا 2014ءتک بے عمل رہی‘ تاہم 2014ءسے اسے باعمل بنایا گیا ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی جو اس سے قبل سردخانے میں تھی اب اس پر بھی غوروفکر شروع کر دیا گیا ہے۔ کمیٹی/کانفرنس سے متعلقہ لوگ سال میں تین دفعہ ملے۔ اب 2018ءتک ہر سال میں چار میٹنگوں کا لائحہ عمل بنایا گیا ہے۔ ہماری اگلی میٹنگ 30 جنوری 2015ءکو اسلام آباد میں ہے۔ اپریل 2015ءکی میٹنگ کوئٹہ مں ہوگی۔ واضح رہے کہ ڈیڑھ سالہ جدوجہد کے بعد IPEM کی میٹنگ اکتوبر 2014ءمیں مظفرآباد آزادکشمیر میں ہوئی تھی جس میں سندھ کے علاوہ سبھی صوبے اور علاقے شامل ہوئے۔ اسی موقع پر نیشنل کرکولم کونسل (NCC) بنانے کا فیصلہ ہوا۔ اس کی افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے سندھ بھی جلد اس کا رکن بن جائے گا۔ ہمیں اس پر یقین ہے۔محترم وزیراعظم نصاب اور نصاب سازی میں خاصی دلچسپی رکھتے ہیں اور ان کی معاونت بھی حاصل ہے۔ ان کی خصوصی معاونت کے سبب اورNCC کی اہمیت و افادیت کی بدولت نصابی ونگ کو فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن (جوکہ منسٹری آف CADD کے زیراہتمام ہے) سے لیکر وفاقی وزارت تعلیم کے تحت کر دیا گیا ہے۔ ایک ہفتہ قبلNCC کیلئے 50 ملین کی منظوری بھی مل چکی اور اب فنانس ڈیپارٹمنٹ سے رقم کی منتقلی کے منتظر ہیں۔ ان ابہام کو دور کرنے کی کوشش جاری ہے جو 18 ویں ترمیم سے پیداہوئے اور نصاب سازی کیلئے سب کی رائے کا احترام کیا جائے۔ گویا ایسا قابل قبول نصاب اور معیار قائم کیا جائے گا جو مدارس‘ سکولز‘ پرائیویٹ اداروں اور فنی اداروں کیلئے معیار اور اہمیت کا حامل ہوگا۔ ہم اس سے بھی بخوبی آشنا ہیں کہ کن قومی ہیروز اور شعراءو ادباءکو نصاب کا حصہ بنانا ہے۔نصب العین‘ نظریہ‘ اخلاقی اقدار‘ قومی ضروریات‘ ہم آہنگی‘ نفسیات فلسفہ‘ قوت برداشت‘ تعلیمی و سائنسی و فنی تکنیک‘ تہذیب و تمدن اور فصاحت و بلاغت کو یقینا مد نظر رکھا جائے گا۔ ان سب معاملات میں وفاقی وزیر منصوبہ و ترقی احسن اقبال کی مدد کا بھی شکر گزار ہوں۔آپ کی نیک خواہشات اور رہنمائی کو بھی سراہا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کچھ کرنے کے قابل بنائے اوراپنا فضل فرمائے۔
والسلام! محمد بلیغ الرحمن“
جناب وزیر نے نصاب کو محور و مرکز بنایا کیونکہ پچھلے پیر (19 جنوری 2015ئ) کے کالم ”اچھا کیا‘ احتساب کو مضمون بنا دیا۔“یعنی وزیراعظم کی منظوری کو موضوع بحث بنایا گیا تھا۔ اچھا لگا کہ محترم وزیر کچھ کر رہے ہیں‘ پھر 30 جنوری کو جس میٹنگ کا انہوں نے تذکرہ کیا‘ وہ بھی اقدام اچھا لگا۔ جس مظفرآباد کی IPEMC میٹنگ کا جناب نے تذکرہ کیا‘ اس پر ہم نے ایک مکمل کالم لکھا اور ہمیں حیرت ہوئی تھی کہ سندھ والوں نے حصہ نہ لیا حالانکہ آزادکشمیر کی پی پی پی حکومت اس کی میزبان تھی اور اظہار افسوس یہ بھی کیا تھا کہ مرکزی حکومت جو اس کانفرنس کی داعی اور مربی تھی اس کا پنجاب کا وزیر رانا مشہود بھی وہاں نہ گیا۔ اللہ رانا مشہود (پنجاب) سے نثار کھوڑو‘ (سندھ) تک کی وزارتوں کو قائم رکھے لیکن یہ بھی تو تعلیم کو قائم رکھنے کی سعی فرمائیں جس کا قلمدان یہ شمشیر بے نیام کی طرح سنبھالے ہوئے ہیں۔ ہم حکومت سے فریاد کرتے ہیں کہ نصاب سازی کے ساتھ18 ویں ترمیم کے سائیڈ افیکٹ سے پاکسان ہائر ایجوکیشن کمیشن‘ پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن اور سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے دائرہ کار واضح کریں۔ چند غلامانہ ذہن کے حامل اور کچھ سفارشی سربراہان اور وائس چانسلر حضرات کسی بیوروکریٹ کے بلانے پر تو کچے دھاگے سے بندھے آتے ہیں اور باہر بیٹھ کر سیکرٹری کا انتظار کرتے ہیں‘ لیکن کسی چیئرمین کمیشن کا پروفیسر کے بلاوے کو سمع خراشی سمجھتے ہیں!!! ہائر ایجوکیشن کے حوالے سے بلیغ الرحمن صاحب ابلاغ کے سامنے کچھ رکھیں تاکہ ریسرچ اور وظائف کی صوبائی اور مرکزی گتھیاں سلجھیں۔ محترم وزیر سے یہ بھی درخواست ہے کہ انجینئرنگ و ٹیکنالوجی کی وزارت‘ وزارت صحت اور آئی ٹی والوں سے بھی رابط رکھیں کیونکہ یہ ہائر ایجوکیشن کا اہم حصہ ہیں۔ سیاستدانوں کو جامعات میں سیاست چمکانے سے دور رکھنا بھی ثواب کا کام ہے۔ بیوروکریسی کے بجائے ماہر تعلیم کو اداروں کے کرتے دھرتے بنائیں!!وفاقی وزیرمملکت برائے تعلیم و تربیت براہ راست اداروں کے سربراہان سے رابطے میں رہیں تو اچھی روایت کا آغاز ہوگا۔ IPEMC کی آئندہ کانفرنسوں کو بڑے کالجز اور یونیورسٹیوں میں منعقد کیا جائے تاکہ روابط کا باب کھلے۔ یونیورسٹیوں کی رینکنگ کو عمروں کے حوالے سے نہیں‘ ریسرچ کے حوالے سے پرکھا جائے۔ جو اقوام اپنی تعلیم سے غافل ہوجائیں‘ کامیابی و کامران اور بقاءان سے غافل ہو جایا کرتے ہیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024