حریت چیئرمین آل پارٹیز حریت کانفرنس سیدعلی گیلانی کا پاکستانی عوام کے نام کھلا خط۔
السلامُ علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ!
پاکستان کی موجودہ صورتِ حال، پاکستان کے ساتھ جذباتی اور قلبی و ذہنی وابستگی رکھنے والوں کے لیے قیامتِ صغریٰ سے کچھ کم نہیں ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی کے رجحانات پنپ رہے ہیں، وہاں کھلے عام آزادی کے نعرے دئے جارہے ہیں۔ مسلح جدوجہد جاری ہے اور پاکستان کے خلاف مظاہرے بھی ہورہے ہیں۔ وہاں مسخ شدہ لاشوں کا نہ رُکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ کراچی میں قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے۔ کسی بھی حکومت نے اب تک وہاں اس قتلِ عام اور target Killingکو روکنے کا کوئی مؤثر اقدام نہیں کیا ہے۔
تحریک پاکستان کے دوران میں نعرے بلند کئے جاتے رہے ہیںکہ ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا ﷲ‘‘، گویا ہم اسلام کا واسطہ دیکر پاکستان بنانے کے لیے عام مسلمانوں کے جذبات اُبھار تے گئے اور محتاط اندازوں کے مطابق 25لاکھ لوگ پاکستان حاصل کرنے کے لیے قربانی دے چکے ہیں۔ اس پاکستان میں ہر ایک شہری کو امن وآشتی اور جان مال کا بھرپور تحفظ حاصل ہونا چاہیے تھا، مگر اب تک پاکستان میں یہ خواب پورا نہیں ہوسکا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے معاشرے کو انسانی اور اخلاقی اقدار کی بنیاد پر تعمیر نہیں کیا گیا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے بغیر کسی استثنیٰ کے عوام کی مادی ضروریات کی طرف حتی الامکان توجہ دی، مگر اسلامی اور دینی اقدار کی بنیاد پر سیرت سازی اور صالح معاشرہ وجود میں لانے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی گئی۔ درآنحالیکہ پاکستان اسی لیے حاصل کیا گیا تھا کہ یہاں انفرادی اور اجتماعی زندگی کا نظام اسلامی اقدار اور تعلیمات کے مطابق ہی ہوگا۔ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے غیر مبہم الفاظ میں اس کا اظہار فرمایا تھا۔ آپؒ نے ہندو قوم پرست لیڈر آنجہانی گاندھی جی کے نام اپنے 10؍دسمبر 1944ء کے خط میں لکھا تھا:
’’قرآن مجید مسلمانوں کا ضابطۂ حیات ہے۔ اس میں مذہبی،مجلسی، دیوانی، فوج داری، عسکری، تعزیری، معاشی، سیاسی اور معاشرتی غرض یہ کہ سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ اسلام سے لے کر روزانہ کے امورِ حیات تک روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک، اخلاق سے لے کر انسداد جرم تک، زندگی میں جزا اور سزا سے لے کر عقبیٰ کی جزا تک، یہ قول وفعل اور حریت کے احکامات کا دین ہے۔‘‘’’بحوالہ پاکستان اور اسلامی نظریہ۔۔۔ پروفیسر خورشید احمد‘‘
اس واضح اور غیر مبہم انداز میں پاکستان کے بنیادی اصول اور نظریہ کی طرف رہنمائی کے بعد پاکستان کے حکمرانوں اور سیاسی قیادت نے 66سال کے طویل عرصے میں پاکستان کو ان بنیادوں پر تعمیر کرنے کی طرف توجہ مبذول کیوں نہ کی؟ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران ذہنی اور فکری لحاظ سے مغربی تہذیب کے دلدادہ اور پیروکار تھے۔ میڈیا کے حوالہ سے جو اطلاعات ہم تک پہنچ رہی ہیں، انکی رو سے پاکستان کا معاشرہ زبردست بگاڑ کا شکار ہوا جارہا ہے۔ شراب، منشیات، اخلاقی بے راہ روی، اختلاط مردوزن، فلموں کی طرف بڑھتا ہوا رحجان، انڈیا کی طرف سے آنیوالی فلمیں پاکستان کے عوام میں بہت زیادہ مقبول ہورہی ہیں، رہن سہن، شادی بیاہ کے تعلقات اور معاملات میں بھی بے راہ روی، غیر اسلامی اور غیر اخلاقی رحجانات برق رفتاری کے ساتھ فروغ پارہے ہیں۔ سب سے زیادہ ہمارے لیے پاکستان کا عصبیت کا شکار ہونا فکرمندی کا موجب بن رہا ہے۔ پاکستان کے ہر بہی خواہ کیلئے لیے اس سمِ قاتل کا پھیل جانا سوہانِ روح بن رہا ہے۔ علاقائی عصبیت، صوبائی عصبیت، گروہی عصبیت، ذات پات کی عصبیت، لسانی عصبیت، لونی عصبیت، Haves & havenotsکے درمیان تفریق اور امتیاز، جاگیردارانہ نظام کا تسلط، کاشت کار اور بے زمین طبقہ جاگیرداروں کا غلام بنا ہوتا ہے، وہ جاگیردار آقاؤں کی مرضی اور منشا کیخلاف کوئی حرکت نہیں کرینگے۔ کاش پاکستان میں کوئی لیڈر، راہنما یا اجتماعی طور کوئی پارٹی جرأت کا مظاہرہ کرکے انقلابی اقدامات سے معاشرے میں بگاڑ اور فساد پیدا کرنے کے اس زہرِ ہلاہل کو ختم کرنے کا تاریخی کردار انجام دینے کی کوشش کرے۔ پاکستان کے استحکام، سالمیت کے تحفظ اور روشن مستقبل کیلئے ایسا کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔تحریکِ طالبان پاکستان: یہ گروپ اور اسکے افراد شکل وصورت میں بڑے دیندار اور اسلام پسند نظر آتے ہیں، مگر سرزمین پاکستان میں جو کچھ وہ کررہے ہیں، ہماری دانست، سمجھ اور دینی حِس اور جذبۂ ایمانی وایقانی کی رو سے کسی طرح بھی جائز قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے عوام، فوج، رینجرز یا انتظامیہ سے وابستہ افرد کو گولیوں اور بم بلاسٹ کا نشانہ بنانا بغیر کسی شک وشبہ کے غیر انسانی، غیر اخلاقی، غیر اسلامی اور ناقابل معافی جُرم ہے۔ پاکستان میں وہاں کی برائیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کیلئے دعوت وتبلیغ کا راستہ اور طریقہ اختیار کیا جائے۔ دینی اور اسلامی لٹریچر گھر گھر پہنچانے کی کوشش کی جائے۔ شراب، منشیات، افیون، نشہ آور چیزیں ، اختلاط مردوزن، عریانی اور فحاشی اور ناچ نغمے کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ عوام اور خاص طور جوان طبقہ سے رابطہ قائم کرکے اُن کو اِن کردار کُش منکرات سے باز رکھنے کی تسلسل اور تواتر کے ساتھ مہم جاری رکھی جائے۔
تحریک طالبان پاکستان کی خدمت میں ہماری دردمندانہ اپیل ہے کہ وہ ہتھیار ڈال کر حکومت کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع کریں، تاکہ آپ کی صلاحیتیں پاکستان میں امن وآشتی اور بھائی چارے کا ماحول قائم کرنے میں مددگار بنیں۔ پاکستان دنیا کے 57مسلم ممالک میں واحد جوہری طاقت کا مالک ملک ہے۔ باطل قوتوں کی سازشیں پاکستان کے استحکام اور سالمیت کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ تحریک طالبان کے ’’دینداروں‘‘ کو ان سازشوں میں حصہ دار نہیں بن جانا چاہیے۔افغانستان میں طالبان کی حکومت، دل وجان کیساتھ پاکستان کی دوست اور مُحب تھی۔ قریب ترین برادر ملک ایران بھی اس مرحلے پر پاکستان کی حمایت کرتا، کیونکہ وہ پہلے ہی سفید سامراج کیخلاف صف آراء تھے، مگر افسوس صد افسوس! پاکستان کے اُس وقت کے حکمرانوں کے پاس ایمانی قوت کا کُلی فقدان تھا۔ پاکستان کے اُس وقت کے صدر کے ساتھ بالمشافہ ملاقات میں جب مسئلہ کشمیر کے بارے میں انہوں نے فرمایا کہ ’’ہم نے تین جنگیں لڑی ہیں۔ آپ لوگوں نے بھی قربانیاں دی ہیں، مگر بھارت بڑا ملک ہے اُن کے پاس جوہری طاقت ہے، مغربی دنیا بھی ان کی حمایت کرتی ہے‘‘ اُن کا مقصد اور مدعا یہ تھا کہ ہم بھارت کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ہمیں کشمیر کے بارے میں انکے ساتھ مصالحت کرنی چاہیے۔ میں نے اُن سے کہا کہ ہمارا موقف مبنی بر صداقت ہے۔ اﷲ برترو بزرگ ہماری ضرور مدد کریں گے۔ ہمیں اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے۔ ان کا جواب تھا ’’میرے ساتھ بُش اور ٹونی بلئیر ہے‘‘۔
بتوں سے تجھ کو اُمیدیں ہیں، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟ (جاری)
مسئلہ کشمیر اور پاکستان: تقسیم ہند کی بنیادوں کی رُو سے جموں کشمیر کا پورا خطہ پاکستان کا حصہ بننے جارہا تھا، مگر عالمی سطح کی گہری سازش۔ ۱) ریڈکلف ایوارڈ کی خیانت اور بددیانتی۔ ۲) انڈین کانگریس کی توسیع پسندی اور بے اصولی سیاست۔ 3) آنجہانی ہری سنگھ کی بد عہدی اور مسلم دشمنی۔ 4) اُس وقت کے کشمیری عوام کے لیڈر کی ہوس پرستی اور کوتاہ اندیشی۔ 5) پاکستان کے اُس وقت کے حکمرانوں کی بزدلی اور دون ہمتی، اُن کو بتایا گیا تھا کہ ’’کشمیر آپ کے ہاتھ سے جارہا ہے۔ ریٹائرڈ فوجیوں کو جمع کرکے جموں کی طرف کا راستہ بند کرو‘‘، مگر پنجاب کے وزیر اعلیٰ مرحوم نواب ممدوٹ نے پاکستان اور نظریۂ پاکستان کے اولین اور سب سے بڑے مخلص اور محبت شخصیت کو کیا جواب دیا ’’مولوی صاحب! آپ اپنا کام کریں، ہمیں اپنا کام کرنے دیں‘‘۔ (29؍اگست 1947ء لاہور)
لیکن نگاہِ نکتہ بین دیکھے زبوں بختی میری
رفتم کہ خار از پاکشم محمل نہاں شد از نظر
یک لمحہ غافل گُشتم صد سالہ راہم دُور شد!
66سال گزر گئے، بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر کے عوام کی غالب اکثریت نے عظیم اور بے مثال قربانیاں دی ہیں، جو تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ پاکستان نے تین جنگیں لڑی ہیں۔ عسکریت کے دور میں اُن کے جوانوں اور سرفروشوں نے بھی اپنا سرخ سرخ اور گرم گرم خون بہایا ہے۔ آج پاکستان کی حکومت اور سیاسی قیادت بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے بارے میں کوئی ’’حل‘‘ تلاش کرنے کے لیے بڑی بے تاب اور مضطرب ہے۔ حکمران بار بار بھارت کے ساتھ بات چیت کے لیے کشکول لئے دہلی کے دروازے پر دستک دیتے رہتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ بات چیت کرکے پاکستان کے حکمران کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ مارچ 1953ء سے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔ 150بار سے زیادہ بات چیت کے دور گزر چکے ہیں۔ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پاٹ۔ بھارت کا نشۂ قوت میں یہ حال کہ ’’زمین جنبدنہ جنبند گل محمد‘‘ (اٹوٹ انگ کی رٹ) حل ۱) جوں کی توں صورتِ حال۔ ۲) چارنکاتی فارمولہ کچھ ترامیم کے ساتھ۔ ۳) بھارتی فوج کا انخلاء ہو، LOCکو آمد ورفت کے لیے نرم بنایا جائے۔ سرداری اور حاکمیت بھارت کی برتر رہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کے ساتھ جموں کشمیر کے مظلوم عوام بھی بھارت کی اندھی طاقت کے آگے Surrenderکریں۔ لا حول و لا قوۃ اِلا بااﷲ۔
جموں کشمیر کے بارے میں ہمارا Standاور موقف مبنی بر صداقت ہے۔ اﷲ غالب وقاہر پر ہمارا ناقابل شکست یقین، اعتماد اور بھروسہ ہے۔ ہماری مظلوم، محکوم اور مقہور قوم کا عزمِ راسخ ہے کہ ہم 6لاکھ جانوں کی قربانیں، لٹی عزتیں اور عصمتیں، 10ہزار لوگوں کو گرفتار کرنے کے بعد لاپتہ اور نابود کرنا، نامعلوم قبروں کا انکشاف، 50افراد کو عمر قید کی سزائیں، 20سال سے زائد عرصہ قیدیوں کی بھی رہائی نصیب نہیں، ایک ہزار کے قریب ہمارے لخت ہائے جگر مقبوضہ حصے اور بھارت کے دوسرے حصوں میں ظلم وجبر اور قیدوبند کی صعوبتوں کے شکار، تہاڑ جیل میں مدفون ہمارے دو شہید، مظلوم قوم کے گلہائے سرسبد، 600سے زیادہ مزارِ شہدائ۔
جس قوم کی پشت پر قربانیوں کا یہ لازوال سرمایہ ہو وہ کسی بھی حال میں بھارت کے سیاہ سامراج کے آگے Surrenderنہیں کرے گی، نہیں کرے گی، نہیں کرے گی۔ انشاء اﷲ۔ اﷲ برترو بزرگ ہمارے حق میں حالات بدلے گا اور ہم ضرور بھارت کے پنجۂ استبداد سے نجات حاصل کریں گے۔ وما ذالک علیٰ اﷲ العزیز!
نہ ہو نومید، نومیدی زوال و عرفاں ہے
اُمید مردِ مومن ہے خدا کے رازدانوں میں!(اقبالؒ)
پاکستان کے عوام، حکومت، سیاسی قیادت اور سرفروش جوانوں نے جو قربانیاں دی ہیں اُن کو ہماری مظلوم قوم کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ ہمارے لخت ہائے جگر بھارت کی بربریت اور چنگیزیت کے سایے تلے اب بھی نعرے سر کررہے ہیں۔ ’’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘۔
پاکستان کی حکومت، سیاسی قیادت، تنظیمیں اور 18کروڑ عوام جموں کشمیر کے غلام اور مظلوم عوام کی پشت پر ہوں، ہمارا ظاہری اور مادی سہارا ہے۔ اصل سہارا حامی اور مددگار اﷲ ربّ کائنات ہے۔ پاکستان کو مظلوم قوم کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی سطح پر حمایت جاری رکھنا ہے۔ پاکستان کا پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا، فرض سمجھ کر، مقبوضہ جموں کشمیر کی اندرونی صورتِ حال اور بھارتی فورسز کی طرف سے وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالیوں کا ارتکاب کررہی ہیں، ان کو اگر تسلسل اور تواتر کے ساتھ Highlightکیا جاتا رہے وہ محکوم قوم پر بہت بڑا احسان ہوگا، اس کی کمی شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کے سفارت خانے متحرک اور فعال ہوں اور وہ اپنے اپنے دائرئہ کار میں بھارتی مقبوضہ حصے میں ڈھائے جانے والے مظالم سے انسانی برادری کو آگاہ کریں۔ یہ بہت بڑا Contributionہوگا۔ اس کی بھی بہت کمی محسوس کی جارہی ہے۔ بھارت کے سفارت خانے فوجی قبضہ کو پروپگینڈہ کی وسعت اور کثرت سے جائز بنارہے ہیں، مگر پاکستان کے سفارت خانے حق و صداقت کو انسانی برادری تک پہنچانے میں کوئی موثر کردار انجام نہیں دے رہے ہیں، اس کمی کو دور کئے جانے کی سخت ترین ضرورت ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ممبر ممالک کے ساتھ روابط قائم کرکے اُن کو بھارتی فوجی قبضہ کے شکنجے میں کسے ہوئے عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری انجام دی جائے، تو رائے عامہ مظلوموں کے حق میں پیدا ہوکر صورتحال میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ مظلوم قوم ان ذرائع اور وسائل سے محروم ہے۔ ہمارے پاس پاسپورٹ نہیں کہ ہم لوگ خود دوسرے ممالک میں جاکر اپنی مظلومیت کا اظہار کرسکیں۔ سال کے اکثر وبیشتر حصے میں ہم گھروں میں قید ہوتے ہیں۔ گھروں کی چار دیواری سے باہر جانے کی اجازت نہیں۔ جمعۃ المبارک اور عیدین کی نمازیں بھی ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہم بیرونی ممالک تک اپنی ببتا سنانے کیسے جاسکتے ہیں؟ یہ ذمہ داری آزاد کشمیر اور پاکستان کے ہمارے دینی اور انسانی رشتے کے بھائی بند انجام دے سکتے ہیں، مگر حقیقتِ حال ہے کہ اس اہم ترین ضرورت کو پورا کرنے کی ذمہ داری فراموش کردی گئی ہے۔ 5؍فروری کو یومِ یکجہتی منانے کا آغاز مرحوم ومغفور قاضی حسین احمدؒ نے کیا تھا۔ بعد میں پاکستان کی حکومت نے اس دن کو منانے کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔ کچھ عرصہ یہ دن بڑے تزک و اختتام اور شان وشوکت سے منایا جانے لگا، مگر اب یہ ایک بے روح رسم ہوکر رہ گئی ہے۔ اس دن آزاد کشمیر اور پاکستان کے 18کروڑ عوام کو عہد کرنا چاہیے کہ ہم جموں کشمیر کے مظلوم عوام کی ہر سطح پر حمایت جاری رکھیں گے۔ جب تک کہ وہ اپنا پیدائشی اور بنیادی حق، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی عمل آوری کی صورت میں حاصل نہیں کریں گے۔ پھر اس عہد پر اﷲ برتروبزرگ کی بارگاہ میں استقامت کی توفیق بھی طلب کرتے رہیں۔ 5؍فروری کے پروگرام پر میری یہ گزارشات مظلوم قوم کے ایک ادنیٰ ترین خادم کی حیثیت سے پیش خدمت ہے۔گر قبول اُفتد زہے عزّو شرف!
گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن تیرے خیال سے غافل نہیں رہا!
والسلامُ علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ
خیر اندیش سید علی گیلانی
(حبس بے جا میں)
جاری کردہ پاسبان حریت جموںکشمیر
0300-9828289/03449828289
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024