بیماری سے ڈرنا چاہئے علاج سے کیا ڈرنا۔ جراح کا نشتر ہوکہ سرجن کے اوزار، دونوں زخم کو ناسور بننے سے روکتے ہیں۔
تین دن شہر اقتدار (اسلام آباد) اور دودن آزادکشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں یہی سوچتا رہا۔ اسلام آباد کی رعنائیوں اور مظفر آباد کی شہنائیوں میں کوئی فرق نہیں آیا ، لیکن ایک بہت بڑا تغیر مجھے کچھ عرصہ سے یہی لگا کہ اسلام آباد کے منسٹرز انکلیو اور مظفر آباد کے سیکرٹریٹ پر آسیب کے سائے ہیں۔ اور یہ سائے اس وقت آتے ہیں جب ن لیگ کے کچھ وزرا کا بسیرا یہاں ہوتا ہے۔ اچھا، معاملہ یہ نہیں کہ، ان بےچاروں کو کوئی بابا نہیں ملتا،مسئلہ دراصل یہ ہے کہ وہ خود ہی اپنے رویوں اور مردم بیزاری سے آسیب کو اپنے گردونواح میں پالتے رہتے ہیں۔ انہیں کون سمجھائے کہ پالنے کےلئے زمانے میں اور بھی بہت کچھ ہے آخر ”آسیب کے سائے“ ہی کیوں؟ پی پی پی جو آج کل ازخود آسیب کا سایہ بنی ہوئی ہے ، کیونکہ پچھلے دور میں اس نے علاج پالنے کے بجائے بیماریاں پالنے کا شوق پال رکھا تھا سو آج کل آسیب کے سائے اس پر عاشق ہیں کبھی ووٹرز ہوا کرتے تھے، نہیں یقین تو ضمنی الیکشن حلقہ 120 دیکھ لیں۔ ویسے اللہ خیر کرے پی پی پی کی کچھ بیماریاں اپنے ہوسٹ کو داغ مفارقت دے کر پی ٹی آئی کی دلدادہ ہوگئی ہیں گویا تندرستی کے عالم شباب میں آسیب کے سائے پالنے کا ذوق پی ٹی آئی نے پچھلے شعبان و رمضان کے مہینوں میں چرایا تھا۔
جی، وہ بات مکمل کرلیں کہ آسیب کے سایوں کا پس منظر اور پیش منظر کیا ہے۔ جب بھی کبھی پی پی پی دور میں منسٹرز انکلیو جاتے یا مظفرآباد سیکرٹریٹ خوشنما رنگوں کی اجرک ، پختونوں کی باوقار ٹوپی ، بلوچ کی چادر اور پنجاب کی پگ والے جیالے ہر وقت انکلیو کو خوشنما اور خوش رنگ بنائے رکھتے، عوامی رنگ ہوتا اور میلے کا سا سماں ہوتا۔ اللہ معاف کرے آج کل۔ بس کچھ نہ پوچھئے، وہاں کی خاموشی سے پوچھنا پڑتا ہے کہ برجیس طاہر کا گھر کدھر ہے اور سائرہ افضل تارڑ یا سکندر بوسن جیسے وزراءکے بنگلے کدھر ہیں۔ آگے سے وہاں کی خاموشی بھی ریاض پیرزادہ کی طرح کی ہے۔ صحیح طرح اشارے سے بھی نہیں بتاتی۔ بلکہ خاموشی بھی عجب ہے بولنے کے لئے طلال و دانیال کی طرح میڈیا مائیکس کا مطالبہ کرتی ہے۔ کچھ ایسا ہی حال شیخ آفتاب اور رانا تنویر کے درودیوار کا بھی ہے۔ اب پیر صدرالدین راشدی کی دہلیز کے سناٹوں کا کیا کہنا۔ سچ تو یہ ہے ان راجاو¿ں مہاراجوں کا سناٹا اور بے رخیاں میاں محمد نواز شریف کو اس مقام پر لے آئیں جو الیکشن کے بعد جان محفل بننے کے بجائے رونق اقتدار بن بیٹھتے، ہیں، اور ووٹر تکتا ہی رہ جاتا ہے۔
چلئے کوئی دستک حسن ظن کے دروازے پر بھی دیتے ہیں اور اس سے بھی باہر نکلیں کہ،ہیلتھ کی وزیر مملکت کو بطور خاص وفاقی وزیر اس لئے پروموٹ کردیا گیا کہ انہیں اس وزارت کی ABC سے بھی آشنائی نہیں ہوئی تھی، البتہ اشرافیہ نے ضرور استفادہ کیا، جہاں غریب فارمیسی ٹیکنیشن کو نکال کر اشرافیہ کے ”ڈاکٹر ازم“ میں کنفیوز کردیا گیا۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) کو کنگ، اور پی ایم ڈی سی کی شتر بے مہاری کی پیوند کاری فارمیسی کونسل آف پاکستان کو کردی کہ رہے نام ”راج اشرافیہ“ کا اور عوام کا کیا ہے۔ حسن ظن کی داستان یہ ہے کہ، کشمیر کے ہمارے ایک غیر سیاسی دوست انجینئر خواجہ انیس الدین انور ڈپٹی سپیکر مرتضی جاوید عباسی کی شیریں بیانی اور حلقہ کے لوگوں سے تکلف برطرف میل جول کے نظارے کے بعد ، وفاقی وزیر سردار یوسف کا اخلاص اور محنت دیکھ کر ، جعفر اقبال چوہدری (وزیرمملکت) کے انکلیو میں عوامی و گجراتی پذیرائی اور آو¿ بھگت دیکھ کر، بعد ازاں جنید انوار چوہدری (وزیر مملکت برائے مواصلات) کی سادگی، کھرا پن، کارکردگی اور نفاست دیکھ کر ششدر رہ گئے، بے ساختگی سے بولے ”یار ! (ن) لیگ کا اتنا دلربا چہرہ بھی ہے۔“ ہمارے لبوں پر بھی بے ساختگی مچلی کہ ” ہاں ! یہ چہرہ بھی ہے مگر پردہ نشیں ہے تاہم آتش فشانیاں ہم بے نقاب اور بے لگام رکھتے ہیں۔“ ہاں، ایک بات کے ہم بھی گواہ ہیں کہ ہم جب بھی اسمبلی گئے جنید انوار چوہدری (ٹوبہ ٹیک سنگھ) کو حاضر پایا۔ وہ تقریباً جار سالوں میں صرف چودہ پندرہ دفعہ رخصت پر رہے۔ وزارت کے بعد بھی اپنی پہلی سیٹ نہ چھوڑی۔ ممبران سلیقہ عوامی قربت اور سلیقہ حاضری دونوں سیکھیں تو مسائل پیدا ہی نہ ہوں۔ ابھی بھی وقت ہے ن لیگ اپنی دلربائی و دلکشی کو منظر عام پر لائے ، اور اپنی بقا کے لئے مفاد پرست اور موقع پرست عناصر کو پیچھے کرے۔ شائستگی اور شگفتگی کے سنگ سنگ عوامی اور ہردلعزیز ممبران اسمبلی سے استفادے کی بھر پور ضرورت ہے۔ خرم دستگیر اور احسن اقبال کو مزید محنت کی ضرورت ہے۔ عابد شیر علی وغیرہ کو دور ہی رکھئے۔ جگتوں اور طعنوں سے نہیں کارکردگی اور دنیاداری سے میدان مارے جاتے ہیں۔ (ن) لیگ کی بدقسمتی یہ بھی رہی کہ ان کے وزراءنے اپنے ممبران اسمبلی سے رخ موڑ ے رکھا۔ جناب ڈار کی بے رخی پر متعدد دفعہ پارلیمنٹ کے در و دیوار اور مارگلہ کے پہاڑ بھی روئے اور ادھر عمران خان کو بھی کون سمجھائے وہ بھی تو پارلیمنٹ اور اپنے ہی پارٹی مخلصین سے اجتناب فرماتے ہیں۔
قارئین باتمکین!چلیں مان لیا کہ پی ٹی آئی کے قائدین بہرحال قابل تحسین ہیں لیکن وہ جن کا 100 فیصد اسٹیبلشمنٹ پر تکیہ ہے اور ساتھ ساتھ پی پی پی سے ”انتقال شدہ“ الیکٹو یا سلیکٹو سیاسی پنڈت ہیں محض ان سے کام نہ چلے گا اور آخری اوور میں ہار ہار کر تھک جائیں گے‘ خالی دھرنوں اور چرنوں سے کام نہیں چلنے والے۔ الیکشن کے دن الیکشن لڑنا بہرکیف (ن) لیگ سے سیکھیں۔ آپ کی 1990ءکی دہائی میں پیدا ہونے والی نئی پود تعلیم یافتہ بھی ہے اور آپ سے مخلص بھی، لیکن انہوں نے انتخابی سائنس نہیں پڑھی اور صرف عمران خان کو دیکھا ہے ، اور بس خوش ہیں، ذوالفقار علی بھٹو تو کیا، یہ نسل بےنظیر بھٹو کی جرا¿ت مندی، فہم و فراست اور جارحانہ طرز سیاست سے بھی ناآشنا تھے۔ یہ بھی بتاتے چلیں کہ، میاں صاحب کے استاد ”کوئی“ بھی ہوں وہ بےنظیر بھٹو کی تحریکوں کی مزاحمت کا سامنا کرنے کے ہنر سے واقف تھے۔ پس پی ٹی آئی سولو فلائٹ اور قریشی و ترین دلاسوں کے علاوہ خٹک راہ سے کچھ آگے بڑھے۔ ن لیگ بھی اگر ڈیڑھ دو سال قبل اپنی کابینہ میں ردوبدل لاتی تو آج حالات بہت بہتر ہوتے، زمانے میں اور بھی بہتر ہیں ڈاروں کے سوا۔ اور پی ٹی آئی کسی کے پیچھے پیچھے اتنی سلیقہ مند بھی نہ بنے، کوئی عائشہ گلالئی ہو یا سینٹ میں اہم موقع پر نعمان وزیر یہ سب ری ایکشن ہیں۔ ذرا سمجھئے! کسی سے گر بنائی ہوتی تو سینٹ میں نااہل شخص کے پارٹی صدر بننے کا راستہ ہموار نہ ہوتا۔ اب دوڑتے پھریں بابر اعوان کو اٹھا کر عدالتوں میں جنہوں نے ساری عمر پیپلزپارٹی کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا۔ سیمی فائنل نہیں فائنل جیتنا وکٹری سٹینڈ پر کھڑا کرتا ہے۔ صرف ایمپائر کی انگلی کافی نہیں ہوتی اپنی صلاحیتیں انگلی کو اوپر نیچے کرنے پرمجبور کرتی ہیں۔ ساری عمر میڈیا اور ”دوست“ ساتھ نہیں دیتے کچھ ہم نشیں رکھنے بھی پڑتے ہیں۔ سیاست کے دم خم کے لئے اپنے خول اور خود پسندی سے باہر نکلنا ضروری ہے۔ نہیں معلوم تو یہ بات تو ہیوی مینڈیٹ والوں سے بھی پوچھی جاسکتی ہے۔
خیر، ہمیں تو چند دنوں سے حیرانی اس بات پر بھی ہے کہ، آخر پی پی پی کی پنجاب میں اور جماعت اسلامی کی مجموعی طور پر شیلف لائف کو مکمل ”کرنے والوں“ کو کیسی جمہوریت درکار ہے؟ کیا انجینئرڈ جمہوریت آمریت کی فرسٹ کزن نہیں ہوتی؟ یادرکھئے، اگر جمہوریت پسندی کا فلسفہ سمجھ میں نہیں آتا تو چئیرمین سینٹ رضا ربانی کی بات سنیں اور سمجھیں،جس نے پارلیمنٹ میں دستور گلی بناکر اور آمریت دور کی کالی تختیاں ”سجا“ کر کچھ کہا ہے۔
، میں تو سینیٹر رحمن ملک کو ایویں سمجھتا تھا لیکن کل ایک وفاقی وزیر نے کہا جب بھی رحمن ملک کوئی بات فلور پر کرے گا نئی اور تگڑی کرے گا۔ میرے لئے تو ثابت یہ ہوا کہ کوئی اگر کچھ کرنا چاہے تو حالات تو راستہ دیتے ہیں۔ بس تیرگی میں دیکھنے کو چشم بینا چاہئے!
نہ کوئی میثاق جمہوریت بری بات ہے نہ کوئی ترمیم بس کاز اور قوم کو چیٹ کرنا بری بات ہے،چاہے یہ کوئی بھی کرے۔ سب پارٹیاں آسیب کے سایوں سے چھٹکارہ حاصل کریں اور عوام کو دامن میں جگہ دیں صرف اشرافیہ کو نہیں۔ گلوبل ولج میں بھارتی خونخواری کو بھی سب جماعتیں ( جمعیت علمائے اسلام سمیت) مدنظر رکھیں۔ وزیراعظم عباسی کا حال ہی میں اقوام متحدہ میں موقف قابل تعریف ہے۔فاٹا میں بنیادی اصلاحات کا خیر مقدم بھی ضروری ہے یوں پولیس اور عدالتی نظام کا نفاذ بھی قابل ستائش ہے، دیر آید درست آید۔
چلتے چلتے، یہ بھی کہہ دیں کہ، کوئی کچھ بھی کہے پیپلزپارٹی بھٹو ازم اور بےنظیر بھٹو کی جمہوریت پسندی کو مصلحت کی راہ پر ہرگز قربان نہ کرے۔ پی پی پی کی فی الحال یہ سرگرمی بھی اندھیری شب بیماری سے ڈرنا چاہئے علاج سے کیا ڈرنا۔ ہمیشہ اونچا ہوتا ہے کیونکہ تحریک ہو تو تاریخ سازی کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا! خود احتسابی ضروری ہے ، جاناں! بیماری سے ڈرنا چاہئے علاج سے کیا ڈرنا!!!