مسلم لیگ پاکستان کی خالق جماعت ہے لہذا اسے سیاسی جماعتوں کی ماں بھی کہا جاتا ہے۔ سیاسی ماں نے اتنے بچے جنے ہیں کہ ان کا شمار ہی ممکن نہیں ہے۔ قائداعظم کے مقابلے میں سرشفیع لیگ کھڑی کردی گئی مگر جلد ہی وہ آل انڈیا مسلم لیگ میں ضم ہوگئی۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ مسلم لیگ میں خصوصی دلچسپی لیتی رہی ہے۔ کنونشن لیگ، جونیجو لیگ، مسلم لیگ(ن) اور کنگز پارٹی (ق لیگ) چند مثالیں ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی کہ کوئی سیاسی جماعت اس قدر مضبوط ہوجائے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی خاموش بالادستی کو چیلنج کرنے لگے۔
وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل سے پوچھا جنرل صاحب آپ نے آئی جے آئی کیوں بنائی۔ بے باک جنرل نے بے ساختہ جواب دیا پی پی پی کی اکثریت کو روکنے کیلئے بنائی۔ میاں نواز شریف سیاسی طور پر تیغوں کے سایے میں پل کر جوان ہوئے۔ جب وہ انٹرنیشنل لابی کا حصہ بن کر ’’بھارت نواز‘‘ بن گئے تو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو کھٹکنے لگے۔ میاں نواز شریف میں اگر سیاسی تدبر ہوتا تو وہ بھٹو صاحب کے ’’عبرتناک‘‘ انجام سے سبق سیکھ کر مفاہمت اور ترقی کا راستہ اختیار کرتے مگر ان کو ووٹ بنک اور عالمی لابی چین سے نہیںبیٹھنے دیتی۔ سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ اور پاکستان کے تین بار وزیراعظم رہنے کے بعد اب وہ ’’نظریاتی‘‘ یعنی جنگجو ہوگئے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے عظیم لیڈر نیلسن منڈیلا اور ملائشیا کو ایشین ٹائیگر بنانے والے عظیم لیڈر مہاتیر محمد مناسب وقت پر عزت اور وقار کے ساتھ حکمرانی سے علیحدہ ہوگئے۔ دونوں نیشنلسٹ لیڈر تھے اور تاجر نہیں تھے۔
میاں نواز شریف ’’اکثریت‘‘ کے نشے سے سرشار اور ریاستی اداروں سے ٹکرانے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ میاں صاحب کی انا اور ضد نے مسلم لیگ(ن) کے سیاسی مستقبل کو بھی دائو پر لگا دیا ہے کیوں کہ وہ زمینی حقائق کا ادراک کرنے پر آمادہ نہیں ہیں ۔ان کا خیال ہے کہ وہ جماعت کے ووٹ بنک کے بل بوتے پر محاذ آرائی کرکے احتساب سے بچ سکتے ہیں اور بیرونی ممالک میںاثاثے منجمند ہونے سے بچاسکتے ہیں۔
مسلم لیگ(ن) کے لیڈروں کو احساس ہونے لگا ہے کہ انکے لیڈرمسلم لیگ کو دائو پر لگارہے ہیں۔ یہ تاثر روز بروز تقویت پکڑتا جارہا ہے۔ محترمہ تہمینہ شہباز کی معیاری ٹویٹس اور حمزہ شہباز کے دانشمندانہ انٹرویو اور بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے اندر صف بندی ہورہی ہے۔
سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے نہ صرف محترمہ مریم نواز کی قیادت کے بارے میں سنجیدہ سوال اُٹھادئیے بلکہ دو ٹوک الفاظ میں ریاستی اداروں سے محاذ آرائی کی مخالفت کی۔ تصادم اور ٹکرائو کی پالیسی نے میاں نواز شریف کی قیادت کو متنازعہ بنا دیا ہے۔
سینئر سیاستدان وفاقی وزیر ریاض حسین پیرزادہ نے میاں شہباز شریف کو پارٹی کی قیادت سنبھالنے کی تجویز پیش کردی ہے۔ اس تجویز پر مخالفانہ ردعمل سامنے نہیں آیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے لیڈر، اراکین پارلیمنٹ اور سرگرم متوالے موجودہ معروضی حالات میں میاں شہباز شریف کو متبادل قائد کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
شیر بوڑھا ہوچکا اور اسکے قویٰ مضمحل ہونے لگے ہیں۔ میاں نواز شریف کا سیاسی مقدمہ کمزور ہوچکا ہے۔ وہ طویل سیاسی اننگ کھیل چکے ہیں انکی اخلاقی ساکھ متاثر ہوچکی ۔ میاں صاحب اور ان کا خاندان گھمبیر مقدمات میں پھنس چکا ہے جن سے بچنا ممکن نظر نہیں آتا۔
بیگم کلثوم نواز کو اللہ صحت کاملہ عطا فرمائے کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ میاں نواز شریف نے جی ٹی روڈ پر پاک فوج اور عدلیہ کیخلاف احتجاج کرکے اپنے خاندان اور ریاستی اداروں کے درمیان ایسی خلیج پیدا کردی ہے جسے پاٹنا اب ممکن نظر نہیں آتا۔ پاکستان کے دشمن مودی کے ساتھ میاں صاحب کی ذاتی دوستی اسٹیبلشمینٹ کو ہضم نہیں ہورہی۔
یہ ممکن نہیں ہوگا کہ میاں صاحب احتساب عدالت میں پیشیاں بھی بھگتتے رہیں اور انتخابی مہم کی فعال قیادت بھی کرسکیں۔ انتخابی گھوڑے ایسے لیڈر کی سربراہی میں مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے سے ہچکچاہٹ محسوس کرینگے جس کا اپنا سیاسی مستقبل دائو پر لگا ہو۔ باوثوق ذرائع کے مطابق مسلم لیگ(ن) کے انتخابی گھوڑے پارٹی ٹکٹ کیلئے دوسری سیاسی جماعتوں سے رابطے کررہے ہیں۔
جمہوری اُصولوں اور اخلاقی روایات کا تقاضہ یہ ہے کہ میاں نواز شریف مسلم لیگ(ن) کے علامتی رہبر رہیں اور پارٹی کی قیادت ایسے لیڈر کو سونپ دیں جو اسٹیبلشمنٹ کو قبول ہو اور وہ نہ صرف انتخابی مہم کی قیادت کرسکتا ہو بلکہ شریف خاندان کو افسوسناک انجام سے بچانے کیلئے معاونت بھی کرسکتا ہو۔
معروضی حالات میں میاں شہباز شریف مسلم لیگ(ن) کے فطری آئیڈیل صدر ثابت ہوسکتے ہیں۔ وہ پنجاب میں بڑے مقبول ہیں ان پر کرپشن کے سنگین الزامات نہیں ہیں جب بھی ان پر کسی نے انگلی اُٹھائی انہوں نے غیر معمولی عزم و یقین سے چیلنج کیا کہ ان کیخلاف ایک پائی کی کرپشن بھی ثابت ہوجائے تو ان کی وفات کے بعد بھی ان کی لاش کو قبر سے نکال کر بجلی کے کھمبے سے لٹکا دیا جائے جبکہ میاں نواز شریف کے پاس کرپشن کے الزامات کا کوئی ٹھوس دفاع نہیں ہے۔ میاں شہباز شریف پر ’’بھارت نواز‘‘ ہونے کا الزام بھی نہیں لگایا جاتا۔ انکے پاکستان سے باہر کوئی اثاثے بھی نہیں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بنک ہر چند کہ میاں نواز شریف کے پاس ہے مگر پنجاب میں مسلم لیگی ووٹ بنک کو مضبوط اور مستحکم بنانے کیلئے خون پسینہ میاں شہباز شریف نے ہی ایک کیا جبکہ میاں نواز شریف اقتدار انجوائے کرتے رہے اور منصوبوں کے فیتے کاٹتے رہے۔ بقول شاعر:۔
دیوار کی ہر اینٹ پر لکھا تھا مرا نام
تعمیر مگر آپ سے منسوب ہوئی ہے
مسلم لیگ(ن) اگر اخلاقی طور پر مفلوج، عدالتی طور پر نااہل اور فرد جرم کے حامل لیڈر کی قیادت میں انتخابی میدان میں اُتری تو اس کیخلاف نفرت کی لہر بھی اُٹھ سکتی ہے جو مسلم لیگ(ن) کے اُمیدواروں کیلئے بڑی مہنگی ثابت ہوسکتی ہے۔
اب وقت ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے لیڈر خاموش کھسر پھسر کے بجائے اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے پارٹی کے اجلاس میں کھل کر اختلاف رائے کریں۔ اس مرحلہ پر میاں شہباز شریف کی مصلحت آمیز خاموشی مسلم لیگ(ن) اور پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے قائدانہ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ وہ چھوٹے بھائی نہیں بلکہ لیڈر بن کر سامنے آئیں۔ مسلم لیگ(ن) کو تقسیم ہونے سے بچانے کیلئے میاں شہباز شریف ہی موزوں لیڈر ہیں جن پر پارٹی متفق اور متحد ہوسکتی ہے۔
حدیبیہ پیپر ملز ان کے راستے کا پتھر ضرور ہے جسے التواء کا شکار کیا جاسکتا ہے۔ آصف علی زرداری پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی پارلیمانی قوت پر نقب لگانے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ اگر میاں نواز شریف مسلم لیگ کے مفاد کو نظر انداز کرنے اور قیادت پر براجمان رہنے پر بضد رہے تو وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ وفاق میں اگلی حکومت تحریک انصاف اور پی پی پی مل کر بنائیں گے۔ جو لیڈر تیس سال اپنی جماعت کا مختار کل رہنے کے بعد بھی پارٹی قیادت کسی اور لیڈر کو سونپنے پر آمادہ نہ ہو اسکی اقتدار پرستی کی ہوس ظاہر اور باہر ہوجاتی ہے۔
میاں نواز شریف کیلئے آبرومندانہ واحد آپشن یہ ہے کہ وہ انا اور ضد کو ترک کردیں۔ زمینی حقائق کا درست ادراک کریں۔ ریاستی اداروں سے تصادم اور محاذ آرائی سے گریز کریں اور اپنی پارٹی کے لیڈروں کو بغاوت پر مجبور نہ کریں۔ انکی عملی سیاست کے امکانات اب مخدوش ہوچکے ہیں اور وہ جماعت کے علامتی سربراہ کے طور پر ہی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ وہ پارٹی قیادت اپنی بیٹی یا بیٹے کو منتقل نہیں کرسکتے۔ انکے جانشینی کے جائز اور فطری وارث میاں شہباز شریف ہیں جنہوں نے ہر آزمائش میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ وفاداری نبھائی ہے اور اب وہ انصاف اور حسن سلوک کے مستحق ہیں۔ اب بڑے بھائی کا امتحان ہے کہ وہ اقتدار پرستی میں مبتلا رہتا ہے یا جمہوری اُصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے مسلم لیگ کے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے قیادت اپنے چھوٹے بھائی کو منتقل کرتا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38