قرآن برکت، رحمت اور ہدایت کی کتاب ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ”اور ہم نے قرآن کو نصیحت(سمجھنے) کیلئے آسان کردیا تو کوئی ہے جو سوچے سمجھے۔[22:54] اگر ہم قرآن ترجمے کے ساتھ پڑھتے تو کبھی انتہا پسندی اور فرقہ واریت کا شکار نہ ہوتے۔ کسی مسلمان کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک وہ اللہ کے رسولﷺ کےساتھ عشق اور محبت کا اظہار نہ کرے۔ عشق کی بڑی اہمیت ہے مگر قرآن عشق کو اطاعت کے ساتھ جوڑتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔”اے نبی لوگوں سے سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاﺅں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنےوالا اور رحیم ہے“۔ ان سے کہو کہ ”اللہ اور رسول کی اطاعت قبول کرلو“۔ پھر اگر تمہاری دعوت قبول نہ کریں تو یقینا یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے جو اسکی اور اسکے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں“۔[31-32:3] ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال برباد نہ کرلو“۔[33:47] ان آیات کیمطابق عشق اور محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت اور اللہ کے رسولﷺ کی سنت پر عمل کیا جائے جو اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت نہیں کرےگا اسکے اعمال برباد ہوجائینگے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ نہیں کہا کہ مسلمان اللہ اور اسکے رسولﷺ کو چھوڑ کر ایسے مذہبی رہنماﺅں کی پیروی کریں جو خود اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت نہیں کرتے۔مسلمان اگر قرآن کی درج ذیل اساسی اور مرکزی نوعیت کی آیت پر غور کرلیتے تو کبھی فرقہ واریت کا شکار نہ ہوتے۔ ارشاد ربانی ہے۔”اس کتاب (قرآن) میں دو طرح کی آیات ہیں ایک محکمات (واضح) جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات (غیر واضح) جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ (کجی) ہے وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور انکو معنی پہنانے کی کوشش کیا کرتے ہیں حالاں کہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا“۔[آل عمران7:3]
افسوس ہم نے محکمات (واضح) آیات کو نظر انداز کرکے اور متشابہات پر ضرورت سے زیادہ زور دے کر فرقہ بندی کرلی۔ہم تفسیرات، تشریحات اور توضیحات میں پڑ کر قرآن کی اصل روح کو ہی چھوڑ بیٹھے جس کی وجہ سے انتہا پسندی اور فرقہ واریت نے جنم لیا۔ اللہ کا ارشاد ہے کہ مسلمان تمام الہامی کتب اور ادیان پر ایمان لائیں اور ان میں فرق نہ کریں۔ جب مسلمان اسلام اور دوسرے مذاہب میں فرق نہ کرنے کے پابند ہیں تو وہ اسلام میں فرقہ بندی کیسے کرسکتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے ”مسلمانو کہو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس ہدایت پر جو ہماری طرف نازل ہوئی ہے اور جو ابراہیمؑ، اسماعیل ؑ، اسحاق ؑ، یعقوبؑ اور اولاد یعقوبؑ کی طرف نازل ہوئی تھی اور جو موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ اور دوسرے تمام پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئی تھی ہم ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اور ہم مسلم ہیں“۔ فرقہ واریت کے بارے قرآن پاک میں آیات بڑی واضح اور دو ٹوک ہیں ان کو پڑھنے کے بعد کوئی مسلمان فرقہ واریت کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ارشاد ربانی ہے۔”اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو“۔[102-103:3]
مولانا مودودی کے مطابق اللہ کی رسی کا مطلب دین ہے جس پر قائم رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جہاں دین کی اساسی تعلیمات سے مسلمان ہٹے اور انکی دلچسپیاں جزئیات کی طرف مائل ہوئیں پھر ان میں لازمی طور پر تفرقہ اور اختلاف رونما ہو جائے گا۔ جو اس سے پہلے اُمتوں کو انکے اصل مقصد سے منحرف کرکے دنیا اور آخرت کی رسوائیوں میں مبتلا کرچکا ہے۔[تفہیم القرآن] ”تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوگئے۔ جنہوں نے یہ روش اختیار کی وہ اس روز سخت سزا پائیں گے“۔[105:3] ”جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے کردیا اور گروہوں میں تقسیم ہوگئے یقینا ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے وہی ان کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا“۔ [159:6] ”اس نے تمہارے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا اور جسے (اے محمدﷺ) اب تمہاری طرف وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو دے چکے ہیں اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجاﺅ۔ لوگوں میں جو تفرقہ رونما ہوا وہ اسکے بعد ہوا کہ انکے پاس علم آچکا تھا اور اس بناءپر ہوا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے زیادتی کرنا چاہتے تھے۔[13-14:42]
اللہ تعالیٰ انسانوں سے مخاطب ہے کہ حقیقت میں تم سب کا تعلق ایک ہی امت سے ہے مگر تم مختلف گروہوں اور فرقوں میں بٹ گئے ۔ ارشاد ربانی ہے۔” یہ تمہاری امت حقیقت میں ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں۔ پس تم میری عبادت کرو۔ مگر (یہ لوگوں کی کارستانی ہے کہ) انہوں نے آپس میں اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا“۔ [91-93:21]
قرآن پاک کی ان واضح آیات کے بعد جو لوگ قرآن کو چھوڑ کر دوسروں کی پیروی کررہے ہیں انہیں اپنی عاقبت سنوارنے کیلئے قرآن مجید کو ترجمے سے پڑھ لینا چاہیئے کیونکہ جن پر وہ دنیا میں سہارا کررہے ہیں وہ ان کو اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکیں گے۔قرآن اور سیرت دونوں انتہا پسندی نہیں بلکہ اعتدال اور میانہ روی کا درس دیتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے”اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کراور زمین پر اکڑ کر نہ چل۔ اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا۔ اپنی چال میں اعتدال اختیار کراور اپنی آواز پست رکھ۔ سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے“۔[18-19-:31] ”اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گزر جانیوالا کذاب (جھوٹا) ہو“۔ [28:40] حضرت عائشہؓ سے روایت ہے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا اعمال میں میانہ روی اختیار کرو اور اللہ سے قربت رکھو۔[بخاری] اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے ”بہتر مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں“۔[بخاری، مسلم] نیکی اور بدی کے بارے میں قرآن میں قابل غور حکیمانہ ارشاد باری تعالیٰ ہے جس پر عمل کرنے سے انتہا پسندی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ”اور اے نبی نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو تم دیکھو گے تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیب والے ہیں“[35:41]
اللہ کے رسولﷺ محسن انسانیت اور رحمة لالعالمین تھے انکی پوری زندگی میں انتہا پسندی کی ایک مثال بھی نہیں ملتی جبکہ عفو، درگزر اور برداشت کی سینکڑوں مثالیں ملتی ہیں۔ آپﷺ نے چاروں خلفاءمیں کوئی فرق روا نہ رکھا۔ آپﷺ نے حضرت ابوبکرصدیقؓ، حضرت عمرؓ کی بیٹیوں سے نکاح کیا جبکہ حضرت علیؓ اور حضرت عثمانؓ کو اپنی بیٹیاں نکاح میں دیں۔ قرآن اور سیرت دونوں انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے خلاف ہیں۔ مسلمان براہِ راست قرآن اور سیرت کا مطالعہ کریں تاکہ آخرت میں اللہ کے سامنے سرخرو ہوسکیں۔[زیر طبع کتاب قرآن اور انسان سے ماخوذ]
ہمارے جو مسلمان بھائی فیض آباد میں ختم نبوت کے سلسلے میں دھرنا دے رہے ہیں انکے عشق رسولﷺ کو سلام پیش کرتا ہوں اور ان سے عاجزانہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ قرآن کی آیات پر غور کرکے اطاعت رسولﷺ کی طرف بھی آئیں تاکہ جب وہ اللہ اور رسولﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوں تو انہیں اس وجہ سے شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے کہ انہوں نے اللہ اور رسول کے ساتھ عشق تو کیا مگر اطاعت نہ کی۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024