ایک فلاسفر نے کہا عہد زریں ماضی نہیں بلکہ آنے والا عہد ہے۔ عمران خان نے پاکستانی عوام سے تبدیلی اور نئے پاکستان کا وعدہ کیا تھا وہ نیک نیت اور دوسرے سیاستدانوں سے کہیں زیادہ سچ بولنے والا لیڈر ہے۔ اس نے تحریک انصاف کی بنیاد کرپشن کے خاتمے، انصاف اور تبدیلی پر رکھی۔ بھٹو کا سیاسی تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ انتخابی سیاست سے موجودہ سیاسی، معاشی اور سماجی نظام کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ریاستی نظام انگریزوں نے استحصال اور لوٹ مار کے لیے تشکیل دیا تھا۔ انگریز اس نظام کے ذریعے ہندوستانی سرمائے کی منی لانڈرنگ کرکے برطانیہ لے جاتا تھا۔ آزادی کے بعد انگریزوں نے ہندوستان میں فرائض انجام دینے والی برطانوی بیوروکریسی کو جبری طور پر ریٹائر کردیا کیونکہ اس کی ذہنیت خادمانہ نہیں بلکہ حاکمانہ تھی مگرہم نے پاکستان میں بدیسی نظام کو جاری و ساری رکھا۔ لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اللہ نواز اپنی تحقیقی کتاب "How can we survive" میں لکھتے ہیں کہ گینگ آف فور سکندر مرزا، چوہدری غلام محمد، چوہدری محمد علی اور مشتاق احمد گورمانی نے پاکستان کی آزادی پر ڈاکہ مارا۔ جنرل ایوب خان اس گینگ کے سہولت کار بنے۔ امریکہ اور برطانیہ نے سرپرستی کی اور ریاستی نظام کی تبدیلی کے امکانات ختم کردئیے گئے۔ بدیسی نظام کی وجہ سے پہلے انگریز منی لانڈرنگ کرتے تھے اور اب پاکستانی حکمران اشرافیہ کرتی ہے۔ موجودہ نظام کی تبدیلی کے بغیر پاکستان کے قومی مسائل کا حل ناممکن ہے۔ کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ عمران خان بھٹو کے سیاسی تجربے کو دہرارہے ہیں جبکہ وہ نیک نیت تو ہیں مگر پاکستانی سیاست کے ’’مکروفن‘‘ سے نا آشنا ہیں۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت اور آصف علی زرداری کی بدنیتی سے جو سیاسی خلاء پیدا ہوا عمران خان کو اس کا فائدہ پہنچا اور وہ خیبرپختونخواہ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ عمران خان کو اس سنہری موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے خیبرپختونخواہ کو اپنی سیاست کا مرکز و محور بنانا چاہیئے تھا مگر وہ تخت لاہور کو فتح کرنے میں مصروف ہوگئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خیبرپختونخواہ بھی ان کے ہاتھوں سے سرکتا جارہا ہے۔ تحریک انصاف ہوم گرائونڈ پشاور میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں ہار چکی ہے۔ حالیہ صوبائی انتخاب میں اس کی چوتھی پوزیشن ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔ قبل ازیں تحریک انصاف ہری پور میں بھی انتخاب ہارچکی ہے۔ عمران خان کا بنوں کا جلسہ تاریخ ساز تھا مگر اس جلسہ میں عمران خان نے جب خیبرپختونخواہ میں تبدیلی، کرپشن کے خاتمے، ہسپتالوں کی بہتری کے بارے میں سوالات پوچھے تو حاضرین نے ’’نہیں نہیں‘‘ کی صدائیں بلند کیں۔ یہ جلسہ ایک سیاسی ریفرنڈم تھا جس میں عوام نے کھلے عام خیبرپختونخواہ کی حکومتی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا۔ میاں نواز شریف عمران خان کے صوبے پر حملہ آور ہورہے ہیں اور دعوے کررہے ہیں کہ وہ 2018ء کے انتخابات میں خیبرپختونخواہ فتح کرلیں گے۔ عمران خان نے انتخابی سیاست کی مجبوریوں کے تحت روایتی سیاستدانوں کو تحریک انصاف میں قبول کرلیا۔ عوام کی نظر میں پی پی پی، مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف میں کوئی فرق باقی نہیں رہا۔ تحریک انصاف کے اندر نظریاتی کشمکش اس قدر سنگین ہو چکی ہے کہ عمران خان کے لیے پارٹی انتخابات دردسربن چکے ہیں۔ میرا گمان ہے کہ عمران خان کو احساس ہوچکا ہے کہ وہ سیاست کی دلدل میں پھنس چکے ہیں اور تبدیلی کے خواب کی تعبیر ممکن نہیں ہے۔ عمران خان کے لیے فیصلہ کن مرحلہ آن پہنچا ہے اور وہ سیاست کی دلدل سے باہر نکل کر کرپشن کے مسئلے پر انقلابی تحریک شروع کرسکتے ہیں۔ ان کو عوامی قوت کو منظم کرکے انقلاب برپا کرنا پڑے گا۔ پاکستان کے عوام اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ انتخاب کے ذریعے کڑا احتساب، نظام کی تبدیلی، اصلاحات اور شفاف انتخابات ممکن نہیں رہے۔ لازم ہے کہ کرپٹ حکمران اشرافیہ سے عوامی طاقت کے ذریعے سیاسی اور معاشی بالادستی چھین کر پاکستان کی لوٹی ہوئی آزادی کو بازیاب کرایا جائے اور ریاست پر 2فیصد اشرافیہ کی حکمرانی کے بجائے عوام کی بالادستی قائم کی جائے۔ عمران خان علامہ اقبال کو اپنا نظریاتی لیڈر تسلیم کرتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی فارسی کی کتاب ’’زبور عجم‘‘ میں تحریر کیا تھا ’’میں نے عصر حاضر کے شیشوں کے اندر جھانکا ہے ان میں ایسا زہر ہے کہ سانپ بھی تڑپ اُٹھے۔ اس سے بچائو کی صورت صرف انقلاب ہے۔ انقلاب کمزور کو شیر کی سی طاقت دیتا ہے۔ سرمایہ دار مزدور کے خون سے سرخ موتی بناتا ہے۔ زمینداروں کے ظلم سے دہقانوں کی کھیتیاں اُجڑ چکی ہیں۔ شہر کے مفتی نے اپنی تسبیح کے دام میں سینکڑوں مومن گرفتار کیے ہوئے ہیں۔ میروسلطان کھلاڑی ہیں اور مکروفریب ان کے مہرے ہیں۔ یہ محکوموں کی جان بدن سے نکال کر ان کو سلادیتے ہیں۔ شیطانیت عام ہے اور خدا خوفی کم ہے۔ انقلاب، انقلاب ،اے انقلاب، ذوالفقار علی بھٹو، ملک معراج خالد، قاضی حسین احمد، ڈاکٹر اسرار احمد اور ڈاکٹر طاہر القادری بھی انقلاب کے داعی رہے ہیں۔ موجودہ استحصالی اور مفاداتی ریاستی نظام سے جڑے لوگ عوامی انقلاب کی مخالفت کریں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ انقلاب کے علاوہ اور کوئی آپشن باقی نہیں بچا۔ ثابت ہوچکا کہ عمران خان اپنی فطرت کے اعتبار سے انتخابی نہیں انقلابی لیڈر ہیں۔ انتخاب میں ووٹ نہیں دولت کا مقابلہ ہوتا ہے جبکہ انقلاب کے لیے نوجوان، بے بس، محروم، مظلوم، محنت کش عوام ہر اول دستہ بننے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ عمران خان اپنے اور پاکستان کے مستقبل کے لیے انقلابی قوتوں کا متحدہ محاذ بنا کر طبقاتی جدوجہد کا آغاز کریں اور عوامی طاقت سے پاکستان کو مافیاز سے آزاد کرائیں۔ تین سال کے لیے انقلابی قومی حکومت تشکیل دے کر احتساب، اصلاحات کے بعد نئے سیاسی انتظام کے تحت انتخابات کرائے جائیں تاکہ محب الوطن، بے لوث، باکردار اور اہل افراد منتخب ہوکر اسمبلیوں میں پہنچ سکیں جو پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر ڈال دیں۔
پاکستان کے منفرد اور بے مثال سپہ سالار جنرل راحیل شریف کی ولولہ انگیز قیادت میں افواج پاکستان کی سوچ میں جوہری تبدیلی آئی ہے۔ فوج کے جرنیل چار تباہ کن مارشل لائوں کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ مارشل لاء مسائل کا حل نہیں ہے البتہ فوج سیاست کو جرم اور کرپشن سے پاک کرنے، گورنینس کو معیاری بنانے اور ریاستی نظام کو شفاف بنانے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ جنرل راحیل شریف پہلے سپہ سالار ہیں جنہوں نے گورنینس، کرپشن اور احتساب کے بارے میں توانا آواز بلند کی ہے بلکہ پاک فوج کے حاضر سروس جرنیلوں کو بدعنوانی کے الزام میں فارغ کیا ہے۔ فوج اور عوام کے درمیان اعتماد اور اتحاد پاکستان کا انتہائی قیمتی سرمایہ ہے۔ عوام اور فوج کرپشن کے خاتمے اور کڑے احتساب کے معاملے پر ایک صفحہ پر ہیں۔ موجودہ کرپٹ اشرافیہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے جس کو راستے سے ہٹانے کے لیے انقلابی جدوجہد کی ضرورت ہے جس کی قیادت کے لیے عمران خان مثالی لیڈر ہیں اگر وہ عوام کو متحد اور منظم کرکے دس لاکھ افراد اسلام آباد میں جمع کرلیں اور تین سال کے لیے انقلابی قومی حکومت کا مطالبہ کریں تو پاک فوج کبھی مزاحمت نہیں کرے گی۔ عوام کا آئینی اور جمہوری حق ہے کہ وہ متحد ہو کر کرپٹ اور نا اہل حکومت کا تختہ اُلٹ دیں یہ عوامی جدوجہد پر امن ہوگی۔ کرپٹ اشرافیہ کی موجودگی میں نظام کی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کے نوجوان اور سیاسی کارکن عوامی انقلاب کے بارے میں سنجیدہ غور وفکر کریں۔ پاکستان مزید تاخیر کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ پاک فوج اور عوام کو اشتراک کے ساتھ پاکستان کو سنگین بحران سے نکالنا تاریخ کا فیصلہ اور تقاضہ ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38