سیاستدان کرائم کی پناہ میں ہیں یا کرائم سیاستدانوں کی پناہ میں؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنا اس لیے آسان ہے کہ بعض جگہوں پر سیاستدان کرائم کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کچھ جگہوں پر کریمینل سیاستدانوں کو بچانے کے لیے آ جاتے ہیں۔ اس ساری صورت حال میں عوام جرائم پیشہ اور سیاستدانوں کی سزا پاتے ہیں اور یہ دونوں بچ نکلتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں پاکستان کا بیورو کریٹس وہ واحد طبقہ ہے جو لطف اندوز ہوتا ہے۔ سیاستدان جتنا بھی چالاک ہو بیورو کریٹس اسے چٹکی میں بے وقوف بنا جاتے ہیں۔ یہ بات بہر حال مد نظر رہنی چاہیے کہ سیاستدان عوامی نمائندے ہیں اور بیورو کریٹس سول سرونٹس!
اس بات کی تفصیلات میں جانے سے قبل ایک تھوڑا سا جائزہ ذوالفقار مرزا کا، وہ ذوالفقار مرزا جو پچھلے دور حکومت میں سندھ کے وزیر داخلہ تھے اور ان کی بیگم صاحبہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا قومی اسمبلی کی سپیکر تھیں۔ اپنے رازداں آصف علی زرداری سے جب یہ ناراض ہوئے تو شروع شروع کی پریس کانفرنسوں میں ان کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری میرا محسن ہے اور میرے بدن پر پہنی ہوئی یہ شرٹ تک زرداری کی عنایت کردہ ہے لیکن ہمارا تجربہ اور مشاہدہ اس وقت ہی یہ کہنے لگا کہ ابھی ابتدائے ناراضی ہے آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا، اور آج وہی ہوا اپنی شرٹ تک کو زرداری کی دین کہنے والا آج خود زرداری کی شرٹ اتار رہا ہے یہ تو ہونا تھا۔ یہ سب پاکستان کی سیاست کا حسن ہے۔ حلقہ یاراں کو یہ بھی یاد ہو گا کہ شاہ محمود قریشی جب زرداری کے وزیر خارجہ تھے اور ان کی جب وزارت واپس لی گئی تو کوئی بھی دوسری وزارت لینے سے انہوں نے انکار کر دیا۔ انہوں نے بھی ایک پریس کانفرنس کی۔ ”ابتدائے ناراضی“ کانفرنس میں انہوں نے بھی بے نظیر بھٹو، پی پی پی اور حتیٰ کہ آصف علی زرداری کو تنقید کا کھلم کھلا نشانہ نہیں بنایا تھا۔ وہ الگ بات ہے بعد میں وہی ہوا جو ہوا کرتا ہے۔ یعنی بعد ازاں ایسی کی تیسی کر دی گئی جیسے آج فہمیدہ مرزا و ذوالفقار مرزا کر رہے ہیں۔
ہمارے ہاں سیاستدانوں کا خیال ہے کہ جوشیلی تقریروں، حبیب جالب کے کلام، اقبال اور قائد کے حوالوں سے، پھر لمبی لمبی گاڑیاں، درجنوں باڈی گارڈ رکھنے سے وزیر اعلیٰ وزیر اعظم یا کم از کم ناقابل تسخیر سیاسی لیڈر ضرور بنا جا سکتا ہے۔ دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے اور پاکستان اس گلوبل ویلج کا ایک اہم حصہ ہے۔ ایسا حصہ کہ جو نازک بھی ہے اور مظلوم بھی لیکن اسے ویلج کا ظالم اور بگڑا ہوا حصہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ سو فیصد اس میں را، موساد وغیرہ کا کردار ہو گا لیکن کچھ ’بدکرداری‘ ہماری بھی ہے جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ جس گھر کے اندر کمزوری ہو یا جس ریاست داخلہ کے امور کمزور ہوں تو وہاں باہر کے لوگ مداخلت ضرور کرتے ہیں۔ سن 1947ءسے آج تک لوگوں کے کاموں میں ہم بھی مداخلت کرتے چلے آ رہے اور لوگ ”را“ بن کر ہماری صفوں اور آنگنوں میں گھس آئے ہیں۔ سارا ہی قصور امریکہ و روس کا نہیں۔ ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے کچھ کمزوریاں ہماری بھی ہیں۔ اس طرح کی کمزوریاں بلوچستان سے کراچی تک اور وزیرستان سے سوات تک ہم تسلسل سے بھگت رہے ہیں۔ پہلے عذاب ختم نہیں ہوئے کہ کراچی میں کوئی ڈاکٹر ذوالفقار مرزا شعلہ چنگاری کا کھیل بن گیا۔ کوئی نہیں سوچتا دوست دشمن کیوں ہوا۔ کوئی اپنا وہم تھا درمیاں یا گھٹانے اس کو ڈرا دیا؟؟ اوپر سے سندھ حکومت کا باباشاہ، زرداری صاحب کی مشاورت سے ایک نیا نویلا وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کے سامنے کھڑا کر دیتے ہیں۔ ماضی میں ذوالفقار مرزا کو بطور وزیر داخلہ کھڑا کرنا بھی حماقت تھی اور آج اس کے مقابلہ پر سہیل انور سیال کو بطور وزیر داخلہ کھڑا کرنا بھی عاقبت نااندیشی ہے۔ سارے قصور ہی زرداری اور میاں برادران کے نہیں ہوتے ان ناموں کی آڑ میں کوئی اور بھی فائدہ اٹھا جایا کرتا ہے۔ مرزا کی شعلہ نوائی اور سیخ پائی سے مجھے سانحہ ماڈل ٹاﺅن بھی یاد آ گیا۔ ہر باشعور آدمی یہ بات کرتا تھا کہ میاں شہباز شریف قطعی ایسا حکم نہیں دے سکتے کہ اتنے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے وہ بھی ماڈل ٹاﺅن لاہور میں۔ اس سانحہ کے پیچھے بھی بیورو کریسی کی کوتاہی اور انتشار پسندوں کی کلاکاری اور فنکاری شامل تھی لیکن چودھری برادران نے طاہر القادری میں اتنی پھونک بھر دی کہ قاتل بھی نظر انداز ہو گئے اور مقتول بھی فراموش اور اس سانحے نے سیاست کی کالی چادر اوڑھ لی۔ پھر تہہ تک پہنچنا ایسے ہی ہو گیا جس طرح اندھیری رات میں کوئی کسی کیڑی چال کی آہٹ سن کر اس تک پہنچنے کے در پے ہو!!
سندھ حکومت اور ہمارا پیارا میڈیا ذوالفقار مرزا جیسے متنازعہ شخص کونادانستہ اور دانستہ ہیرو بنانے کے چکر میں ہے۔ مانا کہ زرداری صاحب بھی ایسے نہیں کہ دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں لیکن سیاستدانوں کے موقع پرست قبیلے کو بھی زمانہ خوب جانتا ہے۔ذوالفقار مرزا، دانیال عزیز، طارق عظیم، امیر مقام، لغاری برادران، شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، بوسن صاحبان، غلام مرتضیٰ جتوئی، شاہد اکرم بھنڈر اور وہ سینکڑوں جو چڑھتے سورج کی پوجا کرتے ہیں اور راتوں رات پارٹیاں بدل لیتے ہیں۔ یہ بھی بیوروکریٹس کی طرح ڈبل گیم، اقربا پروری، غیرحقیقت پسندانہ رویئے، انجانے خوف اور ”زیرو سم گیم“ کے شوق و ذوق رکھتے ہیں جو آمریت کو بھی پسندیدہ اور جمہوریت کو بھی مرغوب رکھتے ہیں، جو کبھی نواز شریف کے شیخ، پھر مشرف کے عزیز شیخ اور بعدازاں محض اپنے ہی رشید ہو جاتے ہیں۔ ”سوڈو سیاستدان“ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت کو ان کے کندھوں ہی نے اٹھا رکھا ہے جیسے نابالغ بیوروکریٹس سمجھتے ہیں کہ ملک وہ چلا رہے ہیں۔ آہ! سیاستدانوں کی چاپلوسی اور عوام کی بے حرمتی کرنے والے ان بابو اور بیوروکریٹس سے پناہ!
آج میں میڈیا سے بھی گزارش کروں گا کہ سارے قصور میاں نواز شریف، آصف علی زرداری اور عمران خان سے ہی دریافت نہ کریں دوسری صف میں کھڑے کئی سیاستدان بھی مہلک ہیں لہٰذا سیاست کی دوسری صف اور بیوروکریسی پر بھی ٹیلی سکوپ اور مائیکروسکوپ رکھے! قیادت نے اگر تیرگی میں دیکھنے کیلئے چشم بینا استعمال نہ کی تو کراچی، وزیرستان اور بلوچستان کی ”ناسوری“ کہیں بھی پہنچ سکتی ہے۔ قیادت کا فرض ہے کہ بروقت احسن فیصلے کرے۔ مطلب پرست سیاستدان اور بیوروکریسی ان بنے ہوئے ناسور اور پھیلی ہوئی دہشت گردی کی بڑی وجہ ہیں۔
بابا قائم علی شاہ ہوں یا میاں شہباز شریف، پھر پرویز خٹک ہوں یا ڈاکٹر مالک، یہ سبھی نابالغ وزراءاور نابالغ بیوروکریٹس کو قبل از بلوغت حساس اور اعلیٰ ذمہ داریاں نہ سونپیں ورنہ یہی ہو گا جو کراچی میں ہو رہا ہے یا پنجاب میں سانحہ ماڈل ٹاﺅن، مسئلہ ینگ ڈاکٹرز اور ہائر ایجوکیشن میں ہو رہا ہے۔ صحت کے سیکرٹری حضرات کی کارکردگی سبھی صوبوں میں زیرو ہے۔ کاش کوئی وزیر مملکت محترمہ سائرہ افضل تارڑ کو بتا دے کہ فارمیسی، کونسل آف پاکستان کا سیکرٹری جو ایکسٹنشن لے کر بیٹھا ہے وہ فی زمانہ ”ان پڑھ“ ہی نہیں ذہنی مریض بھی ہے۔ سبھی صوبوں کے سیکرٹری فارمیسی کونسل اپنے آپ کو ”اصل سیکرٹری“ سمجھتے ہیں حالانکہ ان کی تساہل پسندی کے سبب نہ ڈرگز اصول کہیں ہیں نہ میڈیکل سٹورز کے حالات درست ہیں نہ کہیں فارماسیوٹیکل کمپنیوں کا قبلہ درست ہے حالانکہ یہ تو بیوروکریٹس بھی نہیں مگر نخرہ ان سے کہیں زیادہ ہے (ان کی تفصیلات کسی اگلے کالم میں سہی!) بیوروکریٹک خربوزوں کو دیکھ کر صحت اور تعلیم کے لوگ بھی ٹیکنوکریسی کا چلن چھوڑ کر بیوروکریسی کی ڈگر پکڑتے جا رہے ہیں یعنی کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا (اناللہ وانا الیہ راجعون)۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ZERO SUM GAME (اپنا فائدہ دوسرے کا نقصان) چھوڑ کر ہر رت کے ساتھ بدلنے والے سیاستدان، بیوروکریٹس اور نام نہاد بیوروکریٹس اپنا اپنا قبلہ درست کریں ورنہ آنے والے دور میں تاریخ انہیں تخریب کار اور دہشت گرد سے کم نہیں گردانے گی! وفاقی اور صوبائی حکومتیں، ازراہ کرم نابالغ بیوروکریٹس کا ازسرنو جائزہ لیں۔ یقیناً بناﺅ کے دریچے کھلیں گے اور کرائم کا خاتمہ ہو گا!