امورِ خارجہ کے مشیر سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ” بھارت کے وزیر دفاع کا بیان پاکستان میں بھارتی دہشتگردی کے خدشات کی تصدیق کرتا ہے “۔ واضح رہے کہ22 تا 23 مئی کو بھارتی وزیر دفاع ”منوہر پریارکر“ نے مقبوضہ کشمیر اور سیاچن کا دورہ کیا ۔ اس دورے پر روانگی سے چند گھنٹے قبل موصوف نے بھارتی ٹی وی چینل ” آج تک “ کو مودی سرکار کا ایک سال مکمل ہونے کے حوالے سے خصوصی انٹر ویو دیتے کہا کہ” شدت پسندی کو دہشتگردی کے ذریعے ہی ختم کیا جا سکتا ہے اور مودی سرکار کے ایما پر پاکستان اور کشمیریوں کیخلاف بھارتی فوج نے یہی حکمتِ عملی اپنا رکھی ہے کہ ” کانٹے کو کانٹے سے ہی نکالا جا سکتا ہے “ ۔ واضح رہے کہ بائیس مئی کو سری نگر اور اس کے گرد و نواح میں نمازِ جمعہ کے بعد بھارتی قبضے کے خلاف بڑی ریلیاں نکالی گئیں جن میں کھلے عام پاکستان کے سبز ہلالی پرچم لہرائے گئے ۔ اس سے ایک روز قبل میر واعظ عمر فاروق اور دیگر حریت لیڈروں کو گرفتار کر لیا گیا تھا تا کہ اکیس مئی 1990 کو شہید ہونے والے ” مولوی محمد فاروق“ اور اکیس مئی 2002 کو شہید ہونے والے” عبدالغنی لون “کی برسی نہ منائی جا سکے ۔ یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ گذشتہ ایک ماہ میں یعنی16 مئی ، یکم مئی اور پندرہ اپریل کو مقبوضہ ریاست کے مختلف حصوں میں جگہ جگہ پاک پرچم لہرائے گئے ۔ علاوہ ازیں بھارتی حکومت نے بزرگ رہنما ” سید علی گیلانی “ کو بھارتی پاسپورٹ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ وہ اپنی بیمار بیٹی کی عیادت کے لئے سعودی عرب جانا چاہتے تھے مگر بھارتی وزیر دفاع اور دیگر حکام کا کہنا ہے کہ جب تک وہ تحریری طور پر یہ تسلیم نہیں کرتے کہ وہ بھارتی شہری ہیں ، انہیں پاسپورٹ نہیں دیا جائے گا ۔ دہلی سرکار کی اس حرکت کی عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی تک نے مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ 2007 ، 2008 اور 2011 میں سید گیلانی کو بھارتی پاسپورٹ دیا گیا تھا حالانکہ تب بھی انہوں نے خود کو بھارتی شہری قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا لہذا دہلی کی موجودہ روش سے کشمیر کی تحریکِ آزادی میں مزید شدت آئے گی ۔ دوسری جانب 21 مئی کو ڈیلی ٹائمز میں ایک نام نہاد دانشورنے پاکستان اور افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مابین ہوئے معاہدے کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے بالواسطہ بلکہ براہ راست یہ الزامات عائد کیے ہیں کہ حالیہ دنوں میں کابل اور اس کے گرد و نواح میں ہونے والے شدت پسندی کے واقعات میں پاک ادارے افغان طالبان کی سرپرستی کر رہے ہیں ۔ موصوف کی اس گوہر افشانی کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ ایسے بے سر و پا الزامات پر محتاط ترین تبصرہ بھی یہی ہو سکتا ہے کہ ” ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے “۔ اسی پس منظر میں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ افغانستان کے صدر ” ڈاکٹر محمد اشرف غنی احمد زئی “ نے 21ستمبر 2014 کو افغانستان کے صدر کا منصب سنبھالا تھا ۔ اکثر اعتدال پسند حلقوں کہ رائے تھی کہ وہ حقیقی معنوں میں افغان عوام کی فلاح اور سلامتی کے لئے تعمیری کردار ادا کریں گے اور انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ ان سے جو توقعات باندھی گئی تھیں وہ غلط نہیں تھیں ۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ بھارتی حکمرانوں کی تمام تر منفی کوششوں کے باوجود انہوں نے 28 اکتوبر 2014 کو چین کا دورہ کیا اور اس کے محض دو ہفتوں بعد یعنی 14 نومبر کو پاکستان تشریف لائے اور پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت سے انتہائی خوش گوار ماحول میں دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں نہایت مثبت تبدیلی رونما ہوئی جس کے اچھے اثرات نے نہ صرف پاکستان اور افغانستان کی مجموعی صورتحال پر اپنے خوشگوار اثرات ڈالے بلکہ علاقائی اور عالمی سطح پر بھی واضح طور پر ایک تعمیری تبدیلی کو محسوس کیا گیا اور دنیا بھر کے امن پسند حلقے اس بات کے معترف ہیں کہ موجودہ افغان صدر اپنے پیش رو ” حامد کرزئی “ کی مانند ہندوستان کے آلہ کار نہیں بنے بلکہ اپنا ایک الگ تشخص قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ حالانکہ مودی سرکار نے اپنی ریشہ دوانیوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تبھی تو افغان صدارت کا منصب سنبھالنے کے محض چند روز بعدمودی نے انہیں خصوصی طور پر ٹیلی فون کیا اور 22 اکتوبر کو انڈین نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ” اجیت ڈووال “ ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ کابل گئے اور اپنی پوری توانائی صرف کی کہ وہ بھارت کے دورے پر آمادہ ہو جائیں اور چین اور پاکستان کے دوروں کو معرضِ التوا میں ڈال دیں مگر افغان صدر نے انتہائی سیاسی اور سفارتی دانائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بھارتی چال کو ناکام بنا دیا ۔ گذشتہ تھوڑے عرصے میں پاکستان اور چین کے ساتھ افغان تعلقات میں جتنی بہتری آئی ہے اس کو بھی با آسانی محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ افغانستان کے آرمی چیف ” جنرل شیر محمد کریمی “ ایک سے زائد مرتبہ پاکستان آئے اور پاک فوج کے جی ایچ کیو میں گئے ۔ علاوہ ازیں 18 اپریل کو پاکستان ملٹری اکیڈمی ”کاکول “ میں کمیشن حاصل کرنے کی پاسنگ آﺅٹ پریڈ میں وہ بطور مہمانِ خصوصی شریک ہوئے اور یہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کی تاریخ میں کہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے ۔ جس سے دونوں جانب کی قیادت کے باہمی تعلقات کی بہتری کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ پاک فوج کے سپہ سالار ” جنرل راحیل شریف “ گذشتہ چھ ماہ میں ایک سے زائد مرتبہ کابل کا دورہ کر چکے ہیں ۔علاوہ ازیں بارہ مئی کو وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف دونوں نے افغانستان کا دورہ کیا اور اسی کے بعد ISI اور افغان انٹیلی جنس کے مابین دہشتگردی کے خلاف باہمی اشتراک کا باقاعدہ معاہدہ ترتیب پایا ۔ ظاہر ہے اس صورتحال پر بھارتی حکمران خاصی تشویش بلکہ ناراضگی میں مبتلا ہیں اور بھارتی میڈیا کے مطابق افغان صدر کے دو روزہ دورے ( 27 تا 29 اپریل ) میں دہلی سرکار نے پوری کوشش کی کہ انہیں کسی بھی طور شیشے میں اتارا جا سکے تا کہ بھارتی خفیہ ادارے افغانستان کے اندر اور بلوچستان میں اپنی منفی کارروائیوں کو جاری رکھ سکیں ۔ یہاں اس امر کا ذکر بھی بے جا نہ ہو گا کہ پندرہ جون کو شروع کیے گئے آپریشن ضربِ عضب کے نتیجے میں پاکستان اپنے علاقوں سے دہشتگردوں کے ٹھکانے ختم کرنے میں خاصی حد تک کامیاب ہو چکا ہے اور اس ضمن میں افغانستان کی جانب سے بھی نسبتاً بہتر رویے کا مظاہرہ کیا گیا ۔ جبکہ بھارت کی پوری کوشش ہے کہ اپنے خفیہ اداروں کے ذریعے افغانستان میں القاعدہ اور داعش کو قدم جمانے کا موقع فراہم کریں تا کہ وہ پھر پاکستان اور افغانستان کو تخریب کاری کا نشانہ بنائیں ۔ اس کھلے راز سے سبھی واقف ہیں کہ گذشتہ مہینوں میں بارہا بھارت کے داعش اور القاعدہ کے ساتھ مضبوط روابط پائے گئے ہیں اور ان کی پشت پناہی بھارتی اسٹیبلشمنٹ کر رہی ہے ۔ بہر کیف توقع کی جانی چاہیے کہ افغانستان کی موجودہ قیادت بھارت کے اصل عزائم سے آگاہی کا ثبوت دیتے ہوئے اس کی چالوں میں نہیں آئیں گے اور پاکستان اور چین کے ساتھ آ رہے تعلقات میں بہتری کے عمل کو مزید تقویت پہنچانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوں گے ۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024