امریکہ کے ایک مشہور تھنک ٹینک، یو۔ ایس۔ نیشنل انٹیلی جنس کونسل نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں دنیا کا ایک نقشہ پیش کیا ہے جس کے مطابق 2028 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ممکنہ طور پر ایک ایٹمی جنگ ہو گی جو بہت بڑی تباہی کا باعث بنے گی۔ لاکھوں کروڑوں ڈالر کے خرچے سے امریکہ کے بہترین دماغوں نے سر جوڑ کر جو رپورٹ تیار کی ہے اسکے مطابق سن 2028 تک چین کی ترقی رک جائے گی اور بھارت جنوبی ایشیا بلکہ دنیا کی بڑی معاشی اور فوجی طاقت ہو گا۔ بھارت کی معاشی اور بڑھتی ہوئی روائتی فوجی طاقت کے خلاف پاکستان جب اور کچھ نہیں کر سکے گا تو اپنی ایٹمی طاقت (بشمول چھوٹے ایٹمی ہتھیار) بڑھائے گا۔ اس ایٹمی دوڑ کے نتیجے میں پاکستان، بھارت اور چین علاقے میں زمینی اور سمندری ایٹمی میزائل اور ہتھیار بڑھاتے جائیں گے۔ بھارت اور پاکستان سندھ طاس معاہدے کو توڑ دیں گے جس کے کچھ عرصے بعد دہلی میں کچھ بم دھماکے ہوں گے جن کا الزام بھارت پاکستان کے سر لگائے گا جس سے کشیدگی مزید بڑھے گی یہاں تک کہ دونوں ممالک میں ایٹمی جنگ چھڑ جائےگی۔ انکے اندازے کے مطابق 21 لاکھ انسانوں کی فوری موت واقع ہو گی لیکن بات یہیں تک نہیں رکے گی بلکہ اس ایٹمی جنگ کی وجہ سے تمام دنیا میں تباہی آئے گی، فصلیں تباہ ہو جائیں گی اور تمام دنیا میں قحط پڑے گا جس سے آگے چل کر ممکنہ طور پر کروڑوں انسانوں کی موت واقع ہو گی۔
یاد رہے کہ US-National Intelligence Council امریکی حکومت کی سرپرستی میں چلنے والا ایک بہت بڑا ادارہ ہے جسے 1979 میں قائم کیا گیا تھا۔ کروڑوں ڈالر کی گرانٹ حاصل کرنے والے اس ادارے میں 12 کے قریب مختلف ذیلی ادارے یا ”چئیرز“ قائم ہیں جو مختلف خطوں اور مسائل ( جیسے کہ سائنس، فوجی طاقتیں ، انٹیلی جنس وغیرہ) کے بارے میں ”منطقی پیش گوئیاں “ کرتے ہیں اور ہر چار برس کے بعد ایک رپورٹ پیش کرتے ہیں جو امریکہ کے ماہرین کے مطابق آنے والی دنیا کا ممکنہ نقشہ ہوتی ہے۔ موجودہ رپورٹ جسکا ہم ذکر کر رہے ہیں 2017 میں پیش کی گئی ہے جو کہ 2035 تک کی دنیا کا نقشہ کھینچتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکی حکومت ان رپورٹوں کو بہت اہمیت دیتی ہے اور ان کی تیاری میں امریکی عوام کے ٹیکسوں کے کروڑوں ڈالر خرچ کرتی ہے تاکہ ان رپورٹوں کی روشنی میں اپنی پالیسیاں تیار کر سکے۔
اگر ہم سنجیدگی سے جائزہ لیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کوئی منطقی رپورٹیں ہیں یا امریکہ اور اسکے حواریوں کی کی ” معصوم خواہشات؟“ ۔ انکے خیال میں پاکستان اور بھارت کی عوام اور حکومتیں اتنی ہی ” احمق“ ہے کہ بلا سوچے سمجھے اور ”غلط اندازوں اور غلط فیصلوں“ کی بنیاد پر لاکھوں کروڑوں انسانوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیں گی؟ میرا نہیں خیال کہ امریکی حکومت ان رپورٹوں کو سنجیدگی سے لیتی ہو گی۔ ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ یہ رپورٹیں در اصل امریکی کی پالیسیو ں کے مطابق تیار ہوتی ہوں اور امریکی ” میڈیا وار“ کا حصہ ہوں ۔ مزے کی بات ہے کہ ان رپورٹوں پر اتنے برسوں سے اتنا پیسہ اور وقت برباد ( بظاہر) ہو رہا ہے اور ان میں سے کوئی بھی رپورٹ آج تک درست شامل نہیں ہوئی۔ مثال کے طور پر ہم اسی ادارے کی ایک پرانی رپورٹ (Global Trends-2015) جو 2000 میں شائع کی گئی تھی اور جو 2015-16 ( یعنی موجودہ دور) کا نقشہ کھینچتی ہے کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے ممبران کی تعداد میں اضافہ ہو گا( جو کہ نہیں ہوا)، چین کی ترقی رک جائےگی یہاں تک کہ اندرونی مسائل کا شکار ایک ” کمزور چین‘ ‘ سامنے آئیگا جس میں مجرموں، سمگلروں اور منشیات کا کاروبار کرنےوالوں کی تعداد بہت بڑھ جائے گی جس کی وجہ سے خطہ غیر مستحکم ہو گا اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار غلط ہاتھوں میں پہنچنے کا امکان پیدا ہو جائےگا (صفحہ نمبر 50) اسکے برعکس ہمیں آج ایک مضبوط اور ترقی کی راہ پر گامزن چین نظر آتا ہے جو معاشی اور سیاسی میدانوں میں نہ صرف اس خطے بلکہ تمام دنیا کی قیادت سنبھالنے کیلئے پر تول رہا ہے۔ اس رپورٹ میں آگے چل کر کہا گیا تھا کہ روس مزید کمزور ہوتے ہوتے 2015 تک اتنا کمزور ہو جائیگا کہ اسکی موجودہ شکل (2000 کی شکل) قائم رہنا مشکل ہوگی۔ اسکے بر عکس ہمیں آج ایک مضبوط روس ہر محاذ پر امریکہ کو چیلنج کرتا نظر آتا ہے۔ بھارت کے بارے میں کہا گیا تھا کہ بھارت 2015 تک دنیا کی بڑی فوجی اور معاشی طاقت بن چکا ہو گا اور ممبئی، دہلی، بنگلور اور چنائی دنیا کے ترقی یافتہ اور جدید شہر بن چکے ہونگے۔ ان میں سے بھی کوئی ” امریکی سپنا“ سچ ثابت نہیں ہوا۔ اسی رپورٹ میں پاکستان کے بارے میں پیش گوئی کی گئی تھی ( صفحہ22) کہ پاکستان کے حالات مزید خراب ہونگے، اور 2015 تک لاقانونیت اور لسانی فسادات کے شکار پاکستان کی حکومت کا عملی کنٹرول صرف پنجاب کے کچھ حصوں تک رہ جائےگا۔ اللہ کا شکر ہے کہ انکی یہ تمام مکروہ پیش گوئیاں ( یا خواہشات؟) بھی پوری نہیں ہوئیں اور آج پہلے سے بہت زیادہ مستحکم پاکستان موجود ہے جو دہشت گردی اور دیگر مسائل سے کامیابی سے نبردآزما ہو رہا ہے۔ اسی طرح عالمی معاہدوں کے بارے میں اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امریکہ اور یورپی یونین کا اثر رسوخ پڑھے گا اور مغرب کئی نئے عالمی معاہدے رقم کریگا۔ اسکے بر عکس آج کی دنیا میں یورپی یونین تو دم توڑتی نظر آ رہی ہے اور اسکے بر عکس شنگھائی تعاون تنظیم اور CPEC جیسے معاہدے آنے والی دنیا کی ترقی کے ضامن اور رہنما بنتے نظر آ رہے ہیں۔
اسی طرح اگر ہم اس سب سے بڑے ادارے سمیت بہت سے دوسرے مغربی تھنک ٹینکس کی رپورٹوں کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے اکثر رپورٹیں سچ ثابت نہیںہوتیں۔ ان رپورٹوں کا مقصد دنیا کے رائے عامہ ڈرانے اور اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ جیسے کہ اگر ہم 2003 سے قبل کی رپورٹیں دیکھیں تو ان میں اکثر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (WMDs) سے ڈرایا جاتا تھا ۔ اسی بنیاد پر عراق پر حملہ کیا گیا اور بعد میں پتہ چلا ) اور تسلیم بھی کیا گیا )کہ عراق میں تو کوئی WMD تھا ہی نہیں اور یہ تمام رپورٹیں غلط تھیں۔ ان لغو رپورٹوں کو تیار اور شائع کرنے کا مقصد جو مرضی ہو مگر پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک کیلئے یہ رپورٹیں ضرور فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں وہ اس طرح سے کہ ان سے ہم امریکی پالیسی سازوں اور اسلام دشمن طاقتوں کے ارادوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور انکا بر وقت توڑ کرنے کیلئے اقدامات کر سکتے ہیں اور اگر یہ رپورٹیں میڈیا وار نہیں ہیں اور امریکی حکومت انکو سنجیدگی سے لیتی ہے تو مجھے حیرت ہے۔ ان پر کروڑوں ڈالر خرچ کرنے کی بجائے امریکی حکومت پاکستان کے کسی کہانی نویس کو چند لاکھ روپے دے دے تو وہ ہر سال ایسا ایک خیالی افسانہ تحریر کر کے امریکی حکومت کو بھیج دیا کرےگا۔