اس میں کوئی دو آرا نہیں کہ کسی بھی انسانی جان پر حملہ قابل مذمت ہے یہ ہمارے مذہبی عقیدے کا ایک حصہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی جان پر دو تین ناکام قاتلانہ حملے ہوئے لیکن لیفٹیننٹ جنرل مشتاق بیگ، بے نظیر بھٹو، میجر جنرل نیازی، کرنل امام، غیر ملکی صحافی ڈینیل پرل اور ہزاروں پاکستانی پولیس کے سپاہی، فرنٹیئر کور کے نوجوان، آرمی کے سپاہی اور ہمارے بے گناہ اور معصوم سویلین بھائی اس درندگی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ قتل کے اس رجحان کو پوری قوم درندگی سمجھتی ہے لیکن موجودہ مشکل حالات میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بہتان تراشی ہے جو ایک سینئر صحافی حامد میرپر حملے کے چند منٹوں کے بعد ہی پاکستان کے ایک قابل فخر اور مایہ ناز سکیورٹی ادارے کے خلاف شروع کردی گئی اور اس کے سربراہ کو ایف آئی آر درج ہونے سے بھی پیشتر قاتل کے طور پر پیش کیا گیا جس پر پاکستان کی سلامتی کی دشمن بیرونی طاقتوں نے بغلیں بجائیں اور دنیا کے تقریباً تمام اہم چینلوں خصوصاً مغربی میڈیا اور ہندوستان نے پوری دنیا کو یہ گمراہ کن تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ آئی ایس آئی کا ادارہ جو پاکستان اور اس کے عوام کی سلامتی کا ضامن ہے اپنے ہی شہریوں پر قاتلانہ حملوں میں ملوث ہے۔ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ پاکستان کو اندرونی لحاظ سے کمزور اور بین الاقوامی سطح پر تنہا رکھنے کیلئے پاکستان کے اندر پراکسی جنگ جاری ہے، ملک کے اندر قتل و غارت میں ملوث دہشت گردوں کے پے ماسٹرز بیرونی طاقتیں ہیں جو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو دہشت گردوں کی نرسری اور ہماری افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو Rogue اور دہشت گردوں کا ساتھی کہتے نہیں تھکتیں۔ کابل اور ہندوستان سے لیکر امریکہ تک اگر کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہو جائے تو پاکستان کو اس میں ملوث کرنے کی کوشش کی جاتی ہے حتیٰ کہ ایران جو ہمارا دوست اور بہترین ہمسایہ ہے اور جس کے ساتھ سرحد کو ہم اپنا محفوظ ترین بارڈر سمجھتے ہیں وہاں بھی جب کچھ ایران کے سرحدی گارڈز لاپتہ ہوئے تو الزام فوراً پاکستان پر لگا۔
ایسے حالات میں ہمیں بحیثیت قوم بہت ہی محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمارے Vital قومی مفادات میں جہاں جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت، نظریاتی عقائد کا دفاع اور معاشی و سماجی فلاح جیسے نکات شامل ہیں وہاں سرفہرست قومی یکجہتی ہے۔ قوم کی صفوں اور اداروں میں دراڑیں ڈالنے والے اور ریاستی سلامتی کو دائو پر لگا کر اپنی سیاسی دکانیں اور بدلے چُکانے والے کسی لحاظ سے بھی اُس پاک سرزمین کی کوئی خدمت نہیں کر رہے جو ہم سب کی پہچان ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ مذکورہ صحافی کے حلقہ احباب میں ایسے کونسے لوگ ہیں جو اس کی اداروں سے متعلق Misplaced Convictions کو درست کرنے میں ناکام رہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ چند صحافی یا کوئی میڈیا گروپ افواج پاکستان یا آئی ایس آئی جیسے قابل فخر اور مضبوط بہت قدآور اداروں کیلئے کوئی خطرہ نہیں بن سکتا۔ یہ ایسے ادارے ہیں جو خطے اور دنیا کی خونخوار، پاکستان دشمن اور خطرناک انٹیلی جنس ایجنسیوں کے خلاف نبرد آزما ہیں اور ان کو پوری قوم کی دعائوں اور تعاون کی ضرورت ہے اس لئے ان پر چند افراد کی طرف سے الزام تراشی بہت بڑی بدنصیبی ہے۔ ایک ٹی وی ٹاک شو میں ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا افواج پاکستان یا آئی ایس آئی کی صفوں میں سربراہان کے علم کے بغیر کئی غلط لوگ نہیں گھس سکتے اور کیا ان اداروں کو اپنا محاسبہ نہیں کرنا چاہئے۔ میں نے جواب دیا ان اداروں میں خود احتسابی کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے اور آئے دن لوگوں کے کورٹ مارشل ہوتے رہتے ہیں اور یہ ادارے نہایت دیانتداری سے کام کرتے ہیں لیکن سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کے ایک بہت بڑے میڈیا گروپ کو یہ کیوں نہیں دیکھنا چاہئے کہ اس پر ملکی مفادات کے خلاف کام کرنے کے الزامات کیوں لگ رہے ہیں۔ ان اداروں میں خود احتسابی کی یہ حیثیت کیا ہے؟ باقی میڈیا گروپس کے خلاف ایسے الزامات کیوں سامنے نہیں آ رہے؟ اس لئے ہمارے میڈیا کو چاہئے کہ پیمرا کی طرف دیکھنے کی بجائے جسے حکومت ضرور مؤثر بنائے، اپنی خود احتسابی کا بندوبست کریں، اس سلسلے میں حکومت وقت کے کندھوں پر بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای) پاکستان کا ایک بہت محترم اور پرانا فورم ہے جو 1957ء میں قائم ہوا اُن کے اپنے Ethics ہیں اُن پر عمل کرنا ضروری ہے۔ امریکہ میں ایک سوسائٹی پروفیشنل جرنلسٹ ہے جو 1909ء میں قائم ہوئی اس کے علاوہ ایک انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ ہے جو غالباً 2008ء سے کام کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ صحافت کے قوانین تو شاید مختلف ممالک میں مختلف ہوں لیکن چند بین الاقوامی صحافتی آداب پر ساری دنیا متفق ہے اُن میں پہلا اصول Limitation of Harm ہے جس کا مطلب ہے کہ کسی پر لگائے گئے الزام کو رپورٹ بنا کر پیش کرنے سے پہلے یہ سوچ لیا جائے کہ اس سے ملزم کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔ اس لئے کچھ اطلاعات کو اس وقت تک روک لیا جائے جب تک اُن کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہ ہو جائے۔ دوسرا اصول ہے Presumption of Innocenc یعنی جب تک کوئی الزام ثابت نہ ہو جائے ملزم کو بے گناہ تصور کیا جائے۔ تیسرا اصول ہے Show of Passion یعنی آپ کی رپورٹنگ ایماندارنہ ہو اور اس وقت تک آپ خبر بنا کر کسی الزام یا افواہ کو میڈیا پر نہ لے جائیں جب تک آپ کو دو یا اس سے بھی زیادہ ذرائع سے اس کی تصدیق نہ ہو جائے، صرف ایک شہادت ملنے پر مبنی الزام کو آپ attribution کہہ سکتے ہیں لیکن یہ حقیقت اس وقت بنے گا جب اس الزام کی تصدیق ہو جائے۔ صحافتی آداب و اخلاقیات یہ بھی بتاتے ہیں کہ ایک غلط خبر دے دینے کے بعد اگر اس کی غلطی کا احساس ہو جائے تو پھر خبر کو فوری درست کرنا بھی ضروری ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں میڈیا کی یک دم آزادی اور میڈیا اکیڈمی کی عدم موجودگی سے بہت سے ایسے لوگ بھی اپنے آپ کو صحافی سمجھتے ہیں جنہوں نے عمر کے آخری حصے میں اخبارات میں لکھنا یا ٹی وی پر اینکر کی ڈیوٹی ادا کرنا شروع کی خواہ وہ پیشے میں ڈاکٹر، کاروباری انسان یا سرکاری ملازم ہی کیوں نہ رہا ہو۔ پاکستان کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات سے نمٹنے کا واحد حل قومی یکجہتی ہے۔ افواج پاکستان پر کیچڑ اچھال کر اس یکجہتی کو تباہ نہ کیا جائے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024