جنگ آزادی کے بعد کمپنی بہادر کی حکومت براہ راست برطانوی حکومت ہند کے ہاتھوں میں آگئی لیکن بلاشبہ یہ دور ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے بدترین مایوسی کا دور تھا ۔یہی وہ دور تھا جب سرسید احمد خان نے مسلمانوں کی مایوس کن صورتحال کے پیش نظر اُنہیں برطانوی حکومت ہند سے مفاہمت پر آمادہ کیا اور رسالہ اسبابِ بغاوت ہند کے ذریعے برطانوی حکومت کو ریاستی معاملات میں کمپنی بہادر کی غلطیوں سے آگاہ کرنے کی کوشش کی جس میں اُنہیں ہندوستان کی نئی برطانوی حکومت ہند کے مسلمانوں کے خلاف غم و غصہ کو کم کرنے میں مدد ملی ۔ سرسید احمد خان ایک نابغہِ روزگار شخصیت تھے اُنہوں نے پیغمبر اسلام کے ذات کے خلاف مغربی پروپیگنڈے کا موثر جواب دیا اور باالخصوص اُس زمانے میں سر ولیم میور کی کتاب ، دی لائف آف محمد، میں کی گئی ہرزا سرائی کا موثر جواب دیا چنانچہ اُنہوں نے مسلمانانِ ہند کو مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں سے نکالنے کیلئے تین اہم کام کئے ۔ پہلا کام 1867 میں انتہا پسند ہندوئوں کی جانب سے اُردو زبان کے خلاف بنارس سے شروع ہونے والی تحریک کے جواب میں اُن کا اِس نتیجے پر پہنچنا کہ ہندوستان میں مسلمان اور ہندو دو قومیں ہیں جن کے درمیان ثقافتی مفاہمت ممکن نہیں ہے لہذا اُنہوں نے اُردو زبان میں مغربی لٹریچر کے ترجمہ کے ذریعے مسلمانوں میں مغربی علوم کو سمجھنے کی راہ ہموار کی۔ اُنہوں نے دوسرا اہم کام مسلمانوں کو سیاست میں داخل ہونے کے بجائے انگریزی تعلیم کے حصول کی ضرورت کا احساس دلاکر کیا تاکہ اُنہیں آئندہ کی سیاسی جنگ کیلئے تیار کیا جاسکے اوراِس حوالے سے 1875 میں محمڈن اینگلو اورینٹل اِسکول کی بنیاد رکھی، دوسال کے بعد اِسے ایم اے او کالج بنا دیا گیا جس نے بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل اختیار کر لی ۔ اِن تعلیمی اداروں میں دینیات کی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا تاکہ انگریزی تعلیم کیساتھ ساتھ طلباء میں اسلامی تشخص کو اُجاگر کیا جائے۔ تیسرا کام سالانہ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا قیام تھا جسے بعد میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا نام دیا گیا جس کے سالانہ اجتماع مختلف شہروں میںمنعقد کئے گئے ۔ اِس کانفرنس کا ایک مقصد مختلف شہروں میں انگریزی زبان میں تعلیم کے حصول کیساتھ تعلیم کو دینیات اور اسلامی کردار سے مزین کرنے کیلئے مسلمان علماء ، دانشوروں اور اہم شخصیتوں سے باہمی مشاورت بھی مقصود تھی ۔ اِس کانفرنس کے ذریعے دور دور سے مسلمان زعماء شرکت کیلئے آتے تھے جس کے سبب مسلمانوں میں باہمی مشاورت کے ذریعے یکجہتی کی فضا قائم کرنے اور مسلمانانِ ہند کو درپیش دیگر مسائل کو اتفاق رائے سے حل کرنے کا احساس پیدا ہوا۔ اِسی ایجوکیشنل کانفرنس کے دسمبر 1945 کے اجلاس کی صدارت آل انڈیا مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل لیاقت علی خان نے کی جس میں اُنہوں نے سیاست اور تعلیم کے موضوع پر اپنے شہرہ آفاق خطاب میں تحریک پاکستان پر سرسید کی قائم کردہ اِس کانفرنس کے اثرات پر روشنی ڈالی اور سرسید کی فہم و ادراک کو خراج تحسین پیش کیا ۔ دراصل سرسید احمد خان کے اہم پروجیکٹ علیگڑھ یونیورسٹی اور ایجوکیشنل کانفرنس نے 1946 میں منعقد ہونیوالے انتخابات کے حوالے سے ہندوستان کے طول و ارض میں با الخصوص پنجاب اور پھر پاکستان یا بھارت میں شمولیت کے حوالے سے سابق صوبہ سرحد میں ہونیوالے ریفرنڈم میں علی گڑھ یونیورسٹی کے طالب علم مقامی کالجوں کے طلباء کیساتھ مل کر شہر شہر ، قریہ قریہ اور گائوں گائوں تحریک پاکستان کی حمایت میں کلمہ طیبہ کے ورد کیساتھ قائداعظم زندہ باد ، اکھنڈ بھارت مردہ باد اور پاکستان زندہ باد کے زوردار نعرے بلند کرتے تھے چنانچہ اِن نعروں کی گونج میں پنجاب اور صوبہ سرحد کی خواتین اور بچے چھتوں پر آکر اپنی آواز اِن نعروں سے ہم آہنگ کرتے تھے جس نے بلاشبہ تحریک پاکستان کے مقاصد حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔
سرسید احمد خان کی وفات پر ہندوستان کی تعلیمی اور سیاسی زندگی میں جو خلاء پیدا ہوا اُسے علامہ اقبال ؒنے اپنی پیغامی شاعری کے ذریعے مسلمانان ہند میں جوش و جذبہ کو مہمیز دیتے ہوئے ہندوستان کے مسلمان اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کی ایک علیحدہ مملکت کے مطالبے سے ہم آہنگ کر دیا ۔ علامہ اقبال ؒ نے بالخصوص 1930 میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں خطبہ الہ آباد پیش کرتے ہوئے بڑی وضاحت سے ہندوستان کے شمال مغرب میں مسلمانوں کی ایک علیحدہ مملکت کے قیام کی پیش گوئی کرد ی۔ علامہ اقبال نے ہندوستان کے آئینی مسائل پر قائداعظم سے مشاورت جاری رکھی اور بیماری کے باوجود قائداعظم کے نام خفیہ خطوط میں مسلسل اِس اَمر کا تذکرہ کرتے رہے کہ مسلمانوں کے مسائل کو شرعی قوانین کے ذریعے متحدہ یا اکھنڈ ہندوستان میں نہیں بلکہ ایک علیحدہ مسلمان مملکت میں ہی حل کیا جا سکتا ہے ۔ بہرحال قائداعظم نے 1936 میں تحریک پاکستان کے خدوخال واضح کئے اور علامہ اقبال کی وفات کے بعد 23 مارچ 1940 میں لاہور میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں قرارداد لاہور کے ذریعے جسے تاریخ میں قرارد پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کی منظوری کے بعد ایک علیحدہ مسلم مملکت کیلئے عملی جدوجہد شروع کرنے کا اعلان کردیا ۔ بلاشبہ نظریہّ پاکستان کی ترویج اور تحریک پاکستان کو مہمیز دینے میں مفکر پاکستان کی شاعری نے طلسماتی کردار ادا کیا ۔ علامہ اقبال کی سیاسی بصیرت کے بارے میں قائداعظم کا کہنا تھا کہ وہ شاعر و مفکر ہی نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کے محافظ بھی تھے ۔ قائداعظم نے علامہ اقبال کے 13 خطوط جو مئی 1936 سے نومبر 1937 کے دوران قائداعظم کے نام لکھے گئے تھے کے بارے میں کہا کہ یہ خطوط زبردست تاریخی اہمیت کے حامل ہیں اور خاص طور پر وہ خطوط جن میں اقبال کے خیالات واضح طور پر مسلم انڈیا کے سیاسی مستقبل کی پیش گوئی کرتے ہیں ۔ اقبال کے خیالات دراصل میرے اپنے خیالات کی تائید کرتے ہیں جن نتائج کو میں نے ہندوستان میں مسلمانوں کو درپیش آئینی مسائل کی طویل تحقیق اور مطالعے کے بعد حاصل کیاجو آگے چل کر کر مسلم انڈیا کی اجتماعی قوت ارادی اور قرارداد لاہور کی شکل میں ظاہر ہوئے۔حقیقت یہی ہے کہ مجدّد الف ثانی ؒ کی تحریکِ احیائے دین سے لیکر فکر اقبال تک نابغہ روزگار مفکرین کی یہ ایک ایسی تسبیح تھی جس کے دانوں نے تواتر کیساتھ مسلم انڈیا کے تشخص کو واضح کیا جسے قائداعظم محمد علی جناح کی عملی جدوجہد نے پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہوئے ہندو و انگریز مخالفت کے باوجود پاکستان حاصل کیا ۔ قارئین کرام آج علامہ اقبال ؒ کے یوم وفات کے موقع پر ہمیں اپنے قول و فعل کا احاطہ کرنے کی شدید ضرورت ہے کیونکہ آج کے ایٹمی پاکستان کی پکار ہمیں عاقبت نا اندیش قائدین کی پیدا کرہ خرابیوں کو دور کرنے کی متلاشی ہے۔ کیا ہم تحریک پاکستان کے قائدین کے حوالے سے پاکستان کو ایک اسلامی ویلفیئر اسٹیٹ بنانے کیلئے سرگرم ہیں ، اِس کا جواب ہر شہری پوچھ رہا ہے ؟
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024