جب کسی معیشت میں اشیاء وخدمات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جائے تو اسے افراط زر کا نام دیا جاتا ہے لہٰذا افراط زر ہی مہنگائی کا منبع ہے۔ افراظ زر کی وجہ سے مہنگائی میں کیوں اضافہ ہوتا ہے اس کی بڑی وجہ اولاً اشیا ء خدمات کی طلب میں رسد کی نسبت زیادہ اضافہ ،دوم اشیا ء و خدمات کی تیاری میں معارف پیدائش میں اضافہ جہاں پاکستان میں افراط زر کی وجہ سے مہنگائی کی شرح میں 20 سے 30 فیصد سالانہ اضافہ ہو رہا ہے بلکہ کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں تو 50 فیصد سے 100 فیصد ہر سال اضافہ ہو رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ہماری آبادی کا 54 فیصد حصہ غربت کے کم از کم معیار سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔ لوگوں کی قوت خرید میں کمی، لوڈشیڈنگ اور تیل گیس بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے افراط زر کے باوجود معیشت کی افزائش نمو سست روی کا شکار ہے جسے معاشیات کی اصطلاح میں جمودی افراط زر (Stagflation) کا نام دیا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں معیشت میں مہنگائی کے ساتھ ساتھ بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوتا ہے حالانکہ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں افراط زر کی وجہ سے جب اشیا ء و خدمات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو منافع کی شرح میں اضافے سے آجریں حضرات سرمایہ کاری کے عمل کو تیز کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے شرح روزگار میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر خزانہ کے بعض فیصلہ کن معاشی اقدامات سے ملکی معاشیات کے اشارے بہتر ہو رہے ہیں مگر جب تک پٹرولیم پروڈکس کی قیمتوں میں کم از کم دس سے پندرہ روپے تک کمی نہیں کی جاتی ہے، مہنگائی کا طوفان تھم نہیں سکے گا۔ اس وقت حکومتی اقدامات سے سرمایہ کاروں سٹاک ایکسچینج کے برورکرز اور تاجروں کو تو معاشی فوائد مل رہے ہیں مگر غریب عوام کی قوت خرید میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ افراط زر کی شرح میں 3 فیصد سے لے کر پانچ فیصد تک گرے اور معیشت کی شرح افزائش اگلے پانچ سال تک 6 سے 7 فیصد تک بڑھے مگر ایشیائی ترقیاتی بنک کے مطابق اس سال یہ شرح بمشکل 3.4 فیصد تک رہے گی اور 2015 میں اگر معاشی حالات میں کوئی بڑی تبدیلی نہ آئی تو معیشت کی شرح نمو 3.9 فیصد رہے گی۔
پاکستان میں جہاں ضروریات زندگی میں مسلسل اضافے کی وجہ حکومت کے بجٹ کا خسارہ ہے جو اس وقت تقریباً 1800 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے جسے حکومت اندرونی یا بیرونی قرضوں سے پورا کرتی ہے یا اس کیلئے نئے نوٹ چھاپتی ہے تو دوسری طرف غیر موثر انتظامیہ اور کرپشن کے باعث آٹے، تیل، چینی اور ادویات بیچنے والی کمپنیوں کے کارٹلز اپنی مرضی سے جب چاہیں قیمتیں بڑھا دیتے ہیں مثلاً حال ہی میں وزیراعظم کی سخت ناپسندیدگی اور ردعمل کے باوجود فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے ادویات کی قیمتوں میں 25 ے سے چالیس فیصد اضافہ کر دیا۔ مگر وزیراعظم ان کے خلاف کوئی ایکشن نہ لے سکے۔ ہو سکتا تھا کہ ڈالر 93 روپے تک گر جاتا مگر برآمدکنندگان کے احتجاج پر وزیراعظم نواز شریف نے اس کو 100 روپے تک مستحکم رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کیا حرج تھا کہ ڈالر اپنی حقیقی قدر پر مستحکم ہوتا اور ایکسپورٹرز کا منافع تھوڑا سا کم ہو جاتا اور پاکستان میں درآمدی اشیا کی قیمتوں میں کچھ کمی واقع ہو جاتی مگر ہمارے ہاں حکومت ضرورت سے زیادہ بزنس فرینڈلی ہے جس کی وجہ سے کاروباری طبقہ افراط زر کی وجہ سے قیمتوں کو اس کی شرح سے کئی گنا اضافہ کرکے ناجائز منافع کماتا ہے اور وہ لوگ جو تنخواہ دار ہوتے ہیں یا دیہاڑی دار مزدور ہوتے ہیں افراط زر کی وجہ سے ان کی قوت خرید بے حد کم ہو جاتی ہے ان کیلئے تن وجان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے ہمارے ضلعی اور تحصیل کی انتظامیہ پرائس کنٹرول کرنے میں یا تو دلچسپی ہی نہیں لیتی ہے یا اس کے مارکیٹ کمیٹیوں کے ایڈمنسٹریٹرز جو اکثر حکمران جماعتوں کے درمیانے درجے کے کارکن ہوتے ہیں وہ مفت سبزیوں، پھلوں، انڈوں، دودھ اور گوشت کے عوض پرچون فروشوں کو کھلی چھٹی دے دیتے ہیں کہ ہول سیل پر 50 روپے کلو حاصل کردہ سبزی بازار میں 150 کلو فروخت کرے اور آج تک سبزیوں، گوشت اور پرچون کی دکانوں پر آویزاں پرائس لسٹوں کے مطابق اچھی کوالٹی کی اشیا حاصل کرنا صارفین کیلئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔
وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق اس وقت سی پی آئی پر افراط زر کی شرح 8.75 فیصد ایس پی آئی پر 10.29 فیصد اور ڈبلیو پی آئی پر 8.67 فیصد ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک کے مطابق پاکستان میں شدید مہنگائی کے باعث خوراک کی کمی کے شکار افراد 2008 میں 51 فیصد تھے جو اس وقت بڑھ کر 65 فیصد ہو گئے ہیں۔ اس وقت ایشیا میں سب سے زیادہ خوراک کی قیمتوں میں اضافہ پاکستان میں دیکھنے میں آ رہا ہے جو کہ 20 فیصد سالانہ ہے کسی بھی ملک کی زرعی پالیسی کا مقصد مہنگائی کی شرح کو کم کرنا ہوتا ہے۔ اور اشیا ء و خدمات کی شرح افزائش کو بڑھانا ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارا سٹیٹ بنک 2008 کے بعد سے اب تک یہ دونوں مقاصد حاصل کرنے میں بری طرح ناکا ہے کیونکہ یہ مکمل خودمختاری کے ساتھ افراط زر کو کنٹرول کرنے کی پالیسیاں اختیار کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ وزارت خزانہ کا ایک ذیلی ادارہ ہے اور یہ حکومت کو ہر وقت اس کی مطلوبہ طلب کے مطابق قرضہ فراہم کرتا رہتا ہے۔ حالانکہ قانوناً حکومت جی ڈی پی کے 60 فیصد سے زائد حد پر سٹیٹ بنک سے قرضہ نہیں لے سکتی۔ مگر اس وقت یہ شرح 65 فیصد کے قریب ہے پیپلز پارٹی کے دور میں تو معیشت کی شرح افزائش 2.5 فیصد تک اور ایک وقت میں افراط زر کی شرح 25 فیصد تک پہنچ گئی تھی پاکستان گزشتہ ایک عشرے سے برسراقتدار آنے والی حکومتوں نے آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر قرضے لئے۔ بجلی، گیس اور پٹرول کے نرخوں میں خوب اضافہ کیا۔
1990ء میں 10 روپے فی کلو میں ملنے والا آٹا آج 52 روپے فی کلو میں رہا ہے۔ 16 روپے فی کلو چینی کی قیمت 75 روپے کلو پہنچ چکی ہے اور 18 روپے لٹر ملنے والا دودھ آج ملاوٹ کے ساتھ 90 روپے فی لٹر قیمت پر دستیاب ہے۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان کے سابق گورنر ڈاکٹر یعقوب کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کے بڑے مجرم سٹیٹ بنک اور وزارت خزانہ ہیں جو نہ صرف اپنے آئینی مینڈیٹ کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں کہ لوگوں کو افراط زر کی صحیح وجوہات پتہ نہ چلیں پاکستان میں جہاں مہنگائی کی وجہ سے غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے وہاں ناجائز منافع خوری کی وجہ سے شہروں میں ایک نئی نودولتیا کلاس ابھر کر سامنے آئی ہے جو سیاست کو کاروبار سمجھ کر کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں میں شامل ہو کر اعلی حکومتی عہدوں پر پہنچنے والے سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کی کرپشن کے اربوں روپوں کے مقدمے سپریم کورٹ اور نیب میں چل رہے ہیں کرپشن کا یہ پیسہ کالادھن بن کر رئیل سٹیٹ، سٹاک ایکسچینج حتی کہ میڈیا انڈسٹری میں استعمال ہو رہا ہے اور بڑے بڑے مافیا عوام کی ضرورت زندگی کی اشیا ء وخدمات کی قیمتوں کو مصنوعی اتار چڑھائو کے ذریعے اس طرح کنٹرول کرتے ہیں کہ معمولی بچتوں والے متوسط افراد اپنی جمع شدہ پونجی ان اداروں میں سرمایہ کاری کی نذر کر دیتے ہیں اور بعد میں کوڑی کوڑی کے محتاج ہو جاتے ہیں جب کہ ستمبر 2011 میں ڈائریکٹر کریڈٹ سویس اے جی بنک نے کہا کہ اس کے پاس پاکستان کے شہریوں کے 97 ارب ڈالرز جمع ہیں اس کے ریمارکس کچھ یوں ہیں۔
Pakistanis are poor but pakistan is not a poor country sums up catastrophe that continues 1947.
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024