دنیاوی آلائشوں کی وجہ سے انسان جلد گمراہ ہوجاتا ہے اور اِنہی آلائشوں کو صاف کرنے اور انسان کو سیدھی راہ دکھانے کیلئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے گئے، لیکن انسان کی وحشی جبلت اور باغیانہ سرشت کی وجہ سے اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبروں کیلئے انسان کو سیدھی راہ پر لانے کا کام کوئی آسان نہ تھا، انسان کو سیدھی راہ پر لانے میں پیغمبروں کو ایسے ایسے امتحانات، سختیوں، ظلم اور جبر کا سامنا کرنا پڑتا رہا کہ اگر وہ ظلم ہاتھی پر ہوتا تو وہ بھی بلبلا اٹھتا، لیکن اللہ کے یہ صابر وشاکر بندے اپنے مالک کی رضا پر راضی رہے اور مالک کائنات کی جانب سے سونپا گیا مشن پورا کرنے میں لگے رہے۔ دوسری جانب نظام کائنات سے بغاوت کرنے والوں نے اللہ کے پیغمبروں پر ظلم کی سرشت ختم نہ کی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی قوم سے ان گنت اذیتیں ملیں، حضرت زکریا علیہ السلام کو آرے سے چیرا گیا، حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کی نافرمانیوں کی وجہ سے طوفان آیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کیا گیا۔
کئی انبیاءکی اللہ نے آزمائش کی۔حضرت ایوب علیہ السلام نے زندگی کا بڑا حصہ علالت میں گزارا، لیکن اسکے باوجود آپ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہے، حضرت یونس علیہ السلام 40 دن تک مچھلی کے پیٹ میں رہے، حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی چلی گئی۔حضرت ابراہیم سے امتحان مقصود ہوا تو آپ نے کوئی سوال کیے بغیر اپنے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی آنکھوں پرپٹی باندھ کر گردن پر چھری چلادی، ایک باپ اپنے بیٹے کی گردن پر چھری چلائے،کیا یہ کوئی معمولی قربانی یا معمولی امتحان ہے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی اس کڑی آزمائش پر پورا اترے اوراطاعت خداوندی کا صلہ یوں ملا کہ چھری نہ چلی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذبح ہوئے بغیر ہی یہ ”قربانی“ کرلی گئی اور حضرت اسماعیل علیہ اسلام کی جگہ دنبے کی قربانی کا حکم آگیااور اسکے بعد دنیا کے ہر مسلمان پر عید الضحیٰ پر جانوروں کی قربانی لازم قرار دے دی گئی۔نبی کریم رحمت العالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بھلا کس کس امتحان، آزمائش اور قربانی سے نہ گزرے؟ یتیمی کی حالت میں پیدا ہوئے، چھ سال کی عمر میں والدہ کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا، رسول معبوث ہوئے تو کفار نے ظلم کی انتہا کردی لیکن آپﷺ نے اُف تک نہ کی ۔
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان امتحانات، آزمائشوں اور قربانیوں کا اصل مقصد کیا ہوتا ہے اور ان قربانیوں سے ہمیں کیا پیغام ملتا ہے؟ یہ پیغام بہت ہی سیدھا اور سادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کے تقریباً ہر مسلمان کوآزمائش اور تکالیف میں ڈالتا ہے۔ دنیا کے ہر مسلمان کوزندگی میں بڑی بڑی تکالیف اور مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جو لوگ اللہ کے زیادہ قریب ہوتے ہیں اللہ انہیں باقیوں کی نسبت زیادہ کڑی آزمائش میں مبتلا کرتا ہے تاکہ وہ دیکھ سکے کہ کون اس سے کتنی محبت کرتا ہے؟ لہٰذا اِن آزمائشوں پر کڑھنے اور شکوہ کناں ہونے کے بجائے اپنے رب کی رضا پر خوش ہونا چاہےے اور اِن تکالیف اور مصائب کا بڑے دل، حوصلے، صبر اور شکر کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہےے۔
ایک نظر عالم اسلام کو دیکھیں تویوں لگتا ہے کہ جیسے دنیا کے تمام مسائل، پریشانیاں، آلام اور دکھ صرف مسلمانوں کیلئے ہی رہ گئے ہیں، لیکن مسئلہ تو یہ بھی ہے کہ مسلمان اِن آزمائشوں پر پورا اترنے کی بجائے کڑھنے لگتے ہیں اور شاعر مشرق کی معرکہ الارا نظم شکوہ جواب شکوہ کا پہلا حصہ ہی گنگناتے نظر آتے ہیں۔ یہ شکوہ کناں مسلمان یہ نہیں دیکھتے کہ معاشرے کی بقا و نمو کیلئے اساتذہ نے جو دس بنیادیں اور اساسات بتائی ہیں، ان سے ہمارا معاشرہ(اسلامی معاشرہ) تقریبا محروم ہوچکا ہے۔ تو ایسے میں بھلا اسلامی معاشرے کو ایک مکمل فلاحی معاشرے کے قالب میں ڈھالنے کی خواہش کس طرح پوری کی جاسکتی ہے؟ اساتذہ کے مطابق ” معاشرے کی بقا اور نمو کی ضامن پہلی اساس ”عصبیت“ ہے، یعنی اپنے معاشرے کے ساتھ یک جہتی ومکمل یکتائی کامضبوط احساس! جذبہ اخوت و شجاعت کو جنم دینے اور انسان کے اندر وفاداری کو پروان چڑھانے کا باعث بننے والی اس اساس کی موجودگی میں ایک انسان اپنے ملک کے وسیع ترمفادات کیلئے ہرقسم کی قربانی کوفخروانبساط کیساتھ انجام دیتاہے۔ دوسری اساس مساوات انسانی اورجمہوری کلچرہے، کس مطلب یہ ہے کہ تمام انسان دراصل اپنے حقوق میں برابرہیں اور کسی کوکسی دوسرے پرکوئی مستقل فضیلت حاصل نہیں۔تیسری اساس امانت ودیانت ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ معاشرے میں عام طورپرسچائی کا چلن ہو، تاجر،صنعت کار، سیاست دان ، بیوروکریٹ اورحاکم سچ بولیں اورسچ سنیں،ملاوٹ اوردھوکا دہی سے فضاعمومی طورپرپاک ہو، معاشرے کی چوتھی اساس انصاف ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ عدالتوں میں انصاف عملاً ہوتا ہوا نظر آئے، مظلوم کی دادرسی ہو، انصاف جلد اور سستاہو، پولیس کاسب سے اہم فریضہ مجرموں کی سرکوبی اورشریفوں کی اشک شوئی ہو۔ معاشرے کی پانچویں اساس محنت ہے، جس معنی ہیں کہ ہرپیشہ معززسمجھاجائے اورہرفردکسی نہ کسی مثبت سرگرمی میں مصروف ہو۔ معاشرے کی چھٹی اساس معیار ہے، جس کے مطابق افرادکوقابلیت و صلاحیت کی بنیاد پر جانچا جائے۔ معاشرے کی ساتویں اساس ملکی قانون کی پابندی ہے، یعنی ہرفرد وادارہ ملکی قانون کوہرچیز پربالادست سمجھے۔ معاشرے کی آٹھویں بنیادمحروم وکمزورطبقات کی مددکرنے کیلئے کمربستہ رہناہے، جن افراد کے پاس وسائل کی فراوانی ہے ، وہ محروم طبقات کی مددکواپنافرض سمجھیں اوراس مقصد کیلئے وسائل اورقوت کی قربانی دیں۔معاشرے کی نویں بنیاد تدبر اور حکمت ودانش ہے، یعنی یہ کہ ہرقومی ،اجتماعی یاانفرادی معاملے کوجذبات واشتعال کی نظر سے دیکھنے اوراس پرفوری ردعمل ظاہرکرنے کے بجائے اس کاپوراتجزیہ کیاجائے، تحمل ، رواداری اورشائستگی کواپنامزاج بنایا جائے اور باہمی مکالمے اورٹھنڈے غوروفکرکے بعد ہر مسئلے کاحل نکالاجائے۔ معاشرے کی دسویں بنیاد صبر و استقامت ہے، افراد اوراقوام کواپنی زندگی میں بہت سی مشکلات پیش آتی ہے، ایسے مواقع پرتکالیف کو صبر واستقامت کے ساتھ برداشت کرناضرور ہوتا ہے“۔
قارئین کرام!! بلا شبہ سارا عالم اسلام اس وقت شدید ابتلا میں ہے، شام سے لےکر مصر تک، اردن سے لیکر سعودی عرب تک ، پاکستان سے لیکر انڈونیشیا تک اور افغانستان سے لیکر ایتھوپیا تک ہر جگہ اسلام کے نام لیوا کہیں اپنوں اور کہیں غیروں کی وجہ سے ظلم، جبر اور استبداد کا شکار ہیں، عالم اسلام میں ہر جگہ آگ، اولاد ابراہیم اور نمرود کے درمیان کشمکش جاری ہے، کہا جاسکتا ہے کہ پوری اسلامی دنیا اس وقت کڑے امتحان سے گزر رہی ہے۔ دراصل اسی امتحان کا دوسرا نام قربانی ہے اور بلا شبہ اللہ یہ امتحان یا قربانی اپنے برگزیدہ لوگوں اور پیاری قوموں سے ہی لیتا ہے، اس لیے امتحانات، آزمائشوں اور قربانیوں سے گھبرانا نہیں چاہیے، عالم اسلام میں اس وقت بڑے پیمانے پر جو تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں،ان تبدیلیوں میں جغرافیائی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی تبدیلیاںبھی رونما ہونے کوہیں، لیکن ان تمام تبدیلیوں کے نتیجے میں جو نئے معاشرے وجود میں آئینگے یا آنے کی امید ہے، یہ معاشرے اُسی وقت مسلمانوں کی فلاح اور بقا کے ضامن ہوسکتے ہیں بشرطیکہ اس کے افراد اساتذہ کی بتائی ہوئی اساسات پر پورا اتریں۔ جو شخص انفرادی یا اجتماعی سطح پر اِن معاشروں کو اساتذہ کی بتائی ہوئی اساسات پر پورا اتارنے میں پوری ایمانداری کے ساتھ اپنا پورا حصہ ڈالے گا، اِس اور اُس دنیا میں وہی سرخرو ہے اور اسی کی قربانی قبول ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024