(1) کرشن چندر نے کسی کہانی میں کہا تھا۔ ’’اس نے بُھنے ہوئے مرغ کی ٹانگ کو وسکی کے پیگ میں بھگوتے ہوئے سوچا۔ ہمارا ملک بُہت غریب ہو چُکا ہے۔ اکبر الٰہ آبادی نے اسی خیال کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’رنج لیڈر کو بہت ہیں مگر آرام کے ساتھ‘‘ یہ سوچ وہ لیڈر بھی رکھتے ہیں جو سورج غروب ہوتے ہی طلوع ہو جاتے ہیں۔ دخترِرز سب غم سمیٹ لیتی ہے۔ وہ بھی جنہیں ’’نیم باز آنکھوں میں ساری مستی شراب کی سی ہے‘‘ میسر ہوتی ہے۔ ملکی معیشت کے وہ راز جنہیں یہ سوچ کر ساری رات نیند نہیں آتی کہ بیس کروڑ پسی ہوئی مخلوق کی رگوں میں ہنوز قطرہِ خون باقی ہے۔ داتا دربار مرجع خلائق ہے۔ اُنکے نام کے طفیل لاکھوں لوگ شکم پُری کرتے ہیں۔ ’’پیر مَغاں‘‘ کی سبیل صبح شام جاری رہتی ہے باایں ہمہ وہ یہ سوچ کر ضرور مضطرب اور مضمحل ہوتے ہونگے کہ چند چالاک لوگ انکے پاک نام کو کس طرح اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ ’’ہجویری دس اینڈ ہجویری دَیٹ‘‘
(2) سمجھ میں نہیں آتا کہ قصہ کہاں سے شُروع کیا جائے اور کہاں ختم ہو! سب لیڈر ایک قماش کے ہیں اور ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ اگر فرق ہے تو وہ مواقع اور استعداد کا ہے۔ شیکسپیئر نے کہا تھا (Opportunity Thou Falt is Great) ان میں ایسے بھی ہیں جو ٹین پرسنٹ سے شروع ہو کر سینٹ پرسنٹ ہو گئے‘‘۔ ’’سینما ٹکٹ بلیک‘‘ کرتے کرتے اسمبلیوں کے ٹکٹ بیچنے لگے۔ انکے نائبین بھی ایسے جو اُسترا چلاتے چلاتے خود ’’اُسترا‘‘ بن گئے۔ کس سے، کس وقت، کس قدر بٹورنا ہے انہیں یہ فن خوب آتا تھا۔ بعض لوگ مجبوراً جھوٹ بولتے ہیں، کچھ مصلحتاً کذب بیانی سے کام لیتے ہیں۔ یہ عادتاً جھوٹ بولتے ہیں۔ بقول شخصے سیب کھا رہے ہوں تو فون پر فرماتے ہیں۔ کیلا نوش جاں کر رہا ہوں۔ کسی نے آج تک یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ ایک مجرم اشتہاری کیونکر ملک کے اہم ترین عہدے پر فائز ہو گیا، کیونکر اُس کا شمار امیر ترین لوگوں ہونے لگا۔ کیسے سائیکل کے پنکچر لگانے والے نے ملکی معیشت کو پنکچر لگانے شروع کر دیئے ہیں۔ ملک کے امیر ترین آدمی کو اب تک سمجھ نہیں آ رہی کہ اُسے کیوں نکالا گیا ہے۔ ہر جگہ ایک ہی واویلا، ہر وقت ایک ہی گردان، بات پانامے سے شروع ہوئی تھی، اقامے پر کیوں ختم ہوئی؟ اب اُن سے کون پوچھے۔ حضرت کیا پانامہ ختم ہو گیا ہے؟ یہ جو آپ ہر ہفتے عدالتوں میں پیشیاں بُھگت رہے ہیں یہ کس چیز کا شاخسانہ ہیں؟ ذرا دلیل دیکھیں! پنڈی سے لاہور تک کے جلوس نے ثابت کر دیا ہے کہ عوام کو یہ فیصلہ منظور نہیں۔ اس پر حلقہ نمبر 120 کی جیت نے مہر لگا دی ہے۔ کیا نرالی منطق ہے! کیا یہ لوگ بیس کروڑ عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ جو مخالف جماعتیں لاکھوں کے مجمعے روز اکٹھے کرتے ہیں۔ آپکے خلاف ہاتھ اٹھوا کر ووٹ لیا جاتا ہے۔ اُسے کیا نام دینگے؟ کل اگر پشاور، کراچی، ملتان، رحیم یار خان، ٹنڈو محمد خان یا حیدرآباد سے آپکی پارٹی ضمنی انتخابات میں ہار گئی تو اُس وقت آپ کا بیانیہ کیا ہو گا؟ ایک وقت تھا جب اپوزیشن الزام لگاتی تھی تو یہ اِترا کر کہتے ۔ میاں! عدالتوں میں جاؤ۔ قانونی چارہ جوئی کرو! اب جب قانون حرکت میں آیا ہے تو انہیں چار سُو سازش کی بُو آنے لگی ہے۔ عمران خان نے مینار پاکستان پر بُہت بڑا جلسہ کیا۔ پانچ لاکھ چیختے، چلاتے، احتجاج کرتے لوگ۔ اس پر حاکموں نے کہا یہ پانچ لاکھ لوگ بیس کروڑ عوام کی نمائندگی نہیں کر سکتے۔ وہ فارسی زبان کا محاورہ دہرانا تو شاید غیر مناسب ہو، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان لوگوں کا حافظہ کمزور ہے ابھی کل تک میاں صاحب آمروں کے منظور نظر تھے۔ ضیاء الحق نے انہیں اقتدار کے علاوہ اپنی بچی کُھچی عمر بھی تحفتاً دے دی۔ جنرل حمید گُل کس طرح ممد اور معاون ثابت ہوئے۔ جونیجو سے کیسے انہوں مشرقی شاعری کے روایتی محبوب کی طرح آنکھیں پھیر لیں۔ اِدھر وہ معزول ہوئے، اُدھر انہوں نے ان کے خلاف مسلم لیگ کا کنونشن بُلا لیا۔ ڈپٹی کمشنروں کی ڈیوٹیاں لگیں کہ ممبران کی کنونشن میں شرکت یقینی بنائیں۔
(3) محترمہ کے خلاف جب تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو گھوڑوں کے چارے کیلئے رقم کہاں سے آئی؟ وہ بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی ہوئی تھی۔ انکے نہلے پر دہلا دے مارا۔ نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز! گھوڑوں کے وارے نیارے ہو گئے۔ پہلا چارہ تو کھا ہی چکے تھے، سرسبز چراگاہ کی تلاش میں سوات چلے گئے۔ سواتی مہم کامیاب رہی۔ کسی کو سوچنے کا یارا نہ تھا کہ اتنی خطیر رقم حکومت کے خفیہ فنڈ کی کس مد سے ادا کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ کا ذکر کرنا خالی از دلچسپی نہ ہو گا۔ رحیم یار خان سے (ن) لیگ کے دو ایم این اے، رئیس بشیر اور احمد عالم انور محترمہ بے نظیر کے کیمپ میں سوات چلے گئے۔ میاں صاحب بڑے جزبز ہوئے۔ ہم نے ان کا غُصہ کم کرنے کیلئے لیاقت پور میں ایک بہت بڑے جلسے کا اہتمام کیا۔ بتیس ہزار کا مجمع تھا۔ میاں صاحب خوب گرجے، برسے! ان دو حضرات کو میر جعفر اور میر صادق کا خطاب دیا۔ غداروں کیلئے کڑی سزا تجویز کی۔ جوشِ خطابت میں جب یہ کہا۔ ارے ان سے تو پیپلز پارٹی کا بھگوان داس بہتر تھا جس نے ہمیں مکمل تعاون کا یقین دلایا تھا۔ اس پر سارا پنڈال تالیوں سے گونج اُٹھا۔ کچھ لوگوں نے بھگوان داس زندہ باد کے نعرے بھی لگائے۔ جس کسی نے بھی ’’جیسی رُوح ویسے فرشتے‘‘ کا محاورہ وضع کیا تھا وہ یقیناً واقفِ حال ہو گا۔
(4) ہمارے دوست ملک صاحب کہنے لگے۔ سب لیڈر ایک ہی قماش کے ہیں صرف انیس بیس کا فرق ہے۔ محترم زرداری صاحب کے دو شبد بڑے مشہور ہوئے پاکستان کھپّے! جمہوریت بہترین انتقام ہے! محترمہ کی شہادت کے بعد سندھ میں شدید ردِّعمل ہوا۔ اگر وہ لاڑکانہ میں پاکستان کھپے نہ کہتے تو کیا کہتے؟ اسی پاکستان نے انہیں صدر پاکستان بنایا۔ اسی ملک میں اُن کی پارٹی کا رکن وزیراعظم بنا۔ سندھ کی وزارت اعلیٰ پکی ہوئی کھجور کی طرح اُنکی جھولی میں آن گری۔ لندن کے محلات، فرانس کے شیطو! سویٹزرلینڈ کے بینک اکاؤنٹ، گمنام جزیروں میں ارتکازِ زر! اسی پاکستان کی وجہ سے کھپ گئے ہیں۔ البتہ جمہوریت بہترین انتقام ہے، والی بات درست ہے۔ جمہور سے اس سے بڑا انتقام نہیں لیا جا سکتا۔ عزیزی بلاول جب اپنی نیم توتلی زبان اور ٹوٹی پھوٹی اردو میں للکارتے ہوئے نواز شریف کو کہتا ہے۔ ’’میاں تھاب! اب دما دم مست قلندر ہو گا‘‘۔ تو بوڑھے انکلوں کے تالیاں بجا بجا کر ہاتھ دُکھنے لگتے ہیں۔
(5) پرویز مشرف بھی کسی سے کم نہ تھے۔ آئین کا تیا پانچہ کرنے کے بعد جب مُکا لہرا کر کہتے میں کسی سے نہیں ڈرتاورتا، تو پوری قوم پر خوف و ہراس طاری ہو جاتا۔ ویسے تو اُسکے کارناموں کی فہرست خاصی طویل ہے۔ لیکن ایک واقعہ بُھلائے نہیں بھولتا۔ 12 مئی کو افتخار چودھری کی کراچی آمد پر جو قتل و غارت ہوا، اس کا محرک تلاش کرنے میں چنداں دشواری پیش نہ آئی۔ ابھی سینکڑوں لوگوں کی تجہیز و تکفین بھی نہ ہو پائی تھی کہ ٹی وی پر مُکہ لہراتے ہوئے موصوف بولے۔ ’’دیکھا، میری طاقت‘‘!
(6) خان بابا کی خیرات کے متعلق تو دو آرا نہیں ہو سکتیں۔ وہ یقیناً عزم و ہمت کا استعارہ ہے، البتہ اُس کی سادہ لوحی محل نظر ہے۔ جسے ہمارے انگریزی دان دوست ملک صاحب (Naivety) کہتے ہیں سیاسی ناپختگی۔ پچھلے الیکشن میں اُسے ’’تھاپڑا‘‘ مروایا گیا۔ ’’خان۔ تو انقلابی آدمی ہے۔ نیک اور ایمان دار لوگ کو ٹکٹ دو۔‘‘ نتیجہ سب نے دیکھ لیا۔ ہم نے پہلے بھی لکھا تھا کہ مولوی نور دین اور متلی جنت میں تو جا سکتے ہیں۔ اسمبلیوں میں داخلے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اب جبکہ انہوں نے عملیت پسندی کی راہ اختیار کی ہے تو اسے ’’گندے انڈوں‘‘ کا تاجر قرار دیا جا رہاہے۔ عمران بھی احتساب کی پُل صراط سے گزر رہے ہیں۔۔
دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گُہر ہونے تک