یہ کتاب نہیں ملک محمد جعفر کی معطر یادوں سے مہکتا دبستان ہے جو ہزاروں'لاکھوں کتابوں پر بھاری ہے۔ یہ کتاب راہ ہدایت کے متلاشیوں کیلئے توشہ خاص ہے۔ طالب علموں کو آداب زندگی سکھلانے کا نصاب حیات ہے۔ یہ پاکستان سماج میں جاری تبدیلیوں کے ارتقاء کی داستان ہے‘ یہ 70 سے 77 کے طلاطم خیز دورِ ستم کی مستند دستاویز ہے جس کو عقیدت کی بجائے حقیت کی نگاہ سے قلم بند کیا گیا۔کہتے ہیں 70 کے انتخابی غلغلے سے ذرا پہلے بھٹو مرحوم نے ترنگ میں ملک صاحب سے استفسار کیا کہ کالم نویسی اور عملی سیاست میں آپ کی ترجیح اوّل کیا ہوگی۔ ملک جعفر نے کہا کالم نویسی پیشہ پیغمبری ہے۔ سیاست اس سامنے کیا چیز ہے لیکن بھٹو صاحب نے ٹکٹ ملک جعفر کو ہی دیا۔ ملک جعفر کا 70 والا قومی اسمبلی کا حلقہ سینکڑوں کلومیٹر پر محیط تھا جو کیمبل پور سے جہلم تک پھیلا ہوا تھا جس میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے جڑواں شہر بھی شامل تھے اس ایک حلقے سے قومی اسمبلی کے موجودہ 5 حلقوں نے جنم لیا ہے۔ یہ کتاب نہیں طلسم ہوش ربا ہے۔ گذشتہ ماہ کئی بے اماں راتیں اسے پڑھتے ہوئے گزاریں۔ بارہا ایسا بھی ہوا کہ نیند کی یلغار سے بے بس ہوا تو کتاب بیگم صاحبہ پرجاگری‘ انکی سخت سست سننا پڑی۔یہ کسی سنسنی خیز جاسوسی ناول کی طرح قاری کو پکڑ لیتی ہے۔ یہ عقیدہ ختم نبوت اورقادیانیوں کی ریشہ دوانیوں کی مستند داستان ہے یہ پاکستان کی تاریخ کے کئی گم گشتہ ابواب کو نئے پیرائے سے بیان کرتی ہے یہ 70 اور80 کی دہائی میں جاری اقتدار کے کھیل کی ہوش ربا کہانی ہے۔ یہ 1973 کے آئین کی تخلیق کی مستند دستاویز ہے یہ اس قوم کے نامور فرزند ملک محمد جعفر کی داستان حیات ہے جسے ہم نے بڑی آسانی سے بھلا دیا ہے لیکن ملک جعفر کی اولاالعزم صاحبزادی ریٹائرڈ بیوروکریٹ بے باک اور طرح دار ،ہماری آپا ساجدہ جعفر دوبارہ اپنے عظیم المرتبت والد ملک محمد جعفر کو "زندہ وجاوید''کرکے منظر پر لے آئیں ۔ شاید اسی لئے کہتے ہیں کہ نیک اولاد اللہ کی بڑی نعمت ہوتی ہے ’’جس روزوں درویش ہوئے ہم‘‘ سابق وفاقی وزیر ملک محمد جعفر کے دوستوں، ساتھیوں، رشتہ داروں اور اہل خانہ کے تاثرات پر مبنی تاریخی دستاویز ہے جو بہت سے مغالطوں کو درست کرتی ہے لیکن سب سے پہلے یہ کہ ملک محمد جعفر تھے،کیا تھے کون تھے نئی نسل کو ان کا تعارف کرانا ناگزیر ہے۔ ملک محمد جعفر، ٹھیٹھ مزاج کے پنجابی دانشور تھے۔ 70 کی دہائی میں پاکستان ٹائمز میں قانونی اورآئینی اُمور پر لکھنے والے نمایاں کالم نگار تھے۔ کامیاب وکیل تھے حقیقی ترقی پسند اور روشن خیال راہنما تھے ساری زندگی قناعت اور درویشی میں بسر کردی ‘مال دولت اوردنیاوی ترغیبات کی طرف آنکھ اُٹھاکر نہ دیکھا ۔سب سے بڑھ کر یہ کہ 1973کے آئین کے حقیقی خالق تھے کہ غلط العام 73کے آئین کے ازخود خالق بن جانے والے مرحوم عبدالحفیظ پیرزادہ کی عمر اس وقت 34 برس تھی لیکن ہمارے یہاں حقائق کی جانچ پڑتال کا کوئی رواج ہی نہیں ہے جو بلند آہنگ ہوکر بات کرے، مسلسل جھوٹ بولے یا لکھے سچا قرار پاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 1973کی تدوین وترتیب میں مرحوم میاں محمود علی قصوری کے ساتھ ملک محمد جعفر کا بنیادی کردار تھا۔ میاں محمود علی قصوری تو آئین کی منظوری کے بعد بھٹومرحوم کی متلون مزاجی کا شکار ہوکر بہت جلد پیپلزپارٹی کو خدا حافظ کہہ گئے۔ ملک جعفر کوکریڈٹ لینے اورشہرت حاصل کرنے کا شوق نہیں تھا ‘اس لئے آئین کی تخلیق کا سہرا عبدالحفیظ پیرزادہ نے اپنے سر سجا لیا‘ وہ خدا بھلا کرے میڈم ساجدہ کا' وہ تاریخ کے طاقچے میں پڑے گردآلود حقائق کو جھاڑ پونچھ کر ملک محمد جعفر کی یادوں کے روشن چراغ کرنے والی کتاب ''جن روزوں درویش ہوئے ہم''کے ذریعے سامنے لے آئی ہیں۔ ملک محمد جعفر پیدائشی قادیانی تھے‘ متحدہ ہندوستان کے ربوہ میں ابتدائی تعلیم کیلئے بھیجے گئے عین جوانی میں اللہ تعالی نے ایمان کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ اپنی ذاتی تحقیقی اورجستجو سے مرزاغلام احمد قادیانی کے باطل عقائد اورنبوت کے سحر سے آزاد ہوئے اور قادیانیت کے باطل عقائد کے تاروپو بکھیرتے ہوئے 'تحریک احمدیت'کے نام سے معرکہ آراء کتاب لکھی جس کے لاتعداد ابتدائی ایڈیشن قادیانیوں نے منظم سازش کرکے مارکیٹ سے غائب کرادیئے تھے۔ یہاں تک کہ انکے آبائی گاؤں پنڈوری کے ایک ایک گھر سے بھی اس کتاب کو غائب کرا دیا گیا‘اس کی ششدرکردینے والی کہانی کو میڈیم ساجدہ نے اپنی مرتب کردہ کتاب میں مختلف کرداروں کے قلم سے جزیات سمیت بیان کردیا ہے جس میں بتایاگیا ہے۔ ملک جعفر نے چند جلدیں کیسے اپنی صاحب ایمان اہلیہ، شریک حیات کے پاس محفوظ کرادیں اور اس نیک بخت خاتون نے کیسے نصف صدی تک انکی دل وجان سے حفاظت کی اور تحریک ختم نبوت ملتان نے یہ تاریخی دستاویز 50 سال بعد، شائع کی جو فتنہ قادیانیت پر مستند ترین دستاویز سمجھی جاتی ہے اورمارکیٹ میں دستیاب ہے۔
یہ ایک یتیم بچے کی داستان حیات ہے جو اپنی ذاتی محنت سے، محض محنت سے قانون کی دنیا میں نامور اور سربلند ہوا، کالم نگار، مصنف اورکامیاب سیاستدان قرار پایا اور ضیا مارشل لاء کے نفاذکے بعداز خود سیاست سے ریٹائرڈ ہوئے اور پھر پیچھے مڑکر نہ دیکھا، مرحوم ضیاء الحق نے انہیں مجلس شوریٰ اور کابینہ میں شامل کرانے کیلئے مکر و فریب کی کئی چالیں چلیں لیکن ملک جعفر نے سب کو ناکام بنا دیا۔ جناب فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی اور زیڈ اے سلہری جیسے نابغہ ہائے روزگار انکے حلقہ ارادت میں شامل تھے۔ علوم و فنون سے متعلقہ تمام ادارے، مقتدرہ قومی زبان اکادمی آف لیٹرز، نیشنل بک فاونڈیشن، لوک ورثہ، نیشنل کونسل آف آرٹس جناب ملک محمد جعفر کے ذہن رساکی تخلیق تھے وہی ان تمام اداروں کے بانی مبانی تھے، آپا ساجدہ جعفر کی مرتبہ کتاب پاکستان کی ہمہ جہت قسم کی تاریخ ہے جس میں واقعات نہایت صحت سے بیان کئے گئے۔ دیانتدار ایسے تھے کہ بھٹوکابینہ کے واحد وزیر تھے جن کی دیانت کا اعلان ضیاالحق کے قرطاس ابیض میں کیاگیا تھا۔ ریڈیو اور ٹی وی پر نشر کیا گیا۔ یہ کتاب دوسگے جرنیل بھائیوں کی داستان حیات بھی ہے جو 65ء کی جنگ کے ہیرو تھے ایک فاتحِ چھمب جوڑیاں تھا تو دوسرا فاتح کھیم کرن تھا یہ کہانی ہے جنرل اختر ملک اور جنرل عبدالعلی ملک کی، جو دونوں ملک جعفر کے فرسٹ کزن اور برادر نسبتی تھے۔ جنرل اختر ملک کو ملک جعفر کے بچپن کے ہم جولی اور ہم نوالہ، ہم پیالہ تھے دونوں ربوہ میں اچھے قادیانی بننے کیلئے زیرتعلیم رہے تھے۔ جنرل اختر ملک کی اہلیہ سمیت ترکی میں حادثے میں ہلاکت کی تفصیلات اورآبائی گاؤں پنڈوری کی بجائے ربوہ میں تدفین کی کہانی بھی بیان کی گئی کہ قادیانی ٹولہ انسانیت سے گرا ہوا مافیا ہے اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ جنرل اخترملک راسخ العقیدہ مسلمان تھے لیکن انکی اہلیہ قادیانی تھیں جن کی وصیت پر انہیں بھی ربوہ دفنا دیا گیا لیکن جنرل ملک کو کہیں باہر دفنایا گیا جبکہ انکی اہلیہ نے نام نہاد بسنتی مقبرے میں جگہ پائی ربوہ سکول کے واقعات اور ''مرزاکے باطل خاندان نبوت''کی چیرہ دستیوں کی کہانیاں شامل ہیں۔
مجھے ملک محمد جعفر میں اپنے مہاگرو انورعزیز چودھری کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ وہی درویشی، وہی استغنا، وہی سیاست، وہی ریٹائرمنٹ بس اتنا فرق ہے کہ ملک محمد جعفر نے از حد منظم زندگی گزاری جبکہ مہاگرو انورعزیز چودھری نے آج تک زندگی کو اپنی ٹھوکروں پر رکھا ہوا ہے۔ اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ تنگ دستی کے دنوں میں جناب فیض نے لاکھوں روپے جناب ملک جعفر پر وار دئیے تھے اور یہ بھی کہ زیڈ اے سلہری کی والدہ نے ساری زندگی ملک جعفر کے گھر بسر کی تھی۔ زیڈ اے سلہری مرغ بادنما تھے۔ بھٹو صاحب کا چڑھتا سورج دیکھ کر انکی طرف لپکے تو مرحوم بھٹو نے یہ کہہ کر راستہ دکھایا کہ ''مسٹر سلہری'' میرے اور تمہارے درمیان صرف زیڈ اے کے حروف مشترک ہیں چونکہ ملک جعفر سائنسی طرز فکر کے مالک تھے اسلئے اسلام قبول کرنے کے بعد وہ عقل پرستوں کے امام جناب غلام احمد پرویز کے مقلد ہوگئے اور ساری زندگی اسلام کے سائنسی انداز فکر کے تبلیغ واشاعت کرتے رہے کیا عجیب اتفاق ہے کہ ملک محمد جعفر کا روحانی سفر مرزا غلام احمد قادیانی سے شروع ہوکر جناب غلام احمد پرویز پر ختم ہوجاتا ہے۔