داد دینی پڑتی ہے بھارتی ڈپلومیسی کی جو آگ اور پانی کو اکٹھا کرنے کا ہنر جانتی ہے اور دونوں کو بیک وقت استعمال کر کے دونوں سے فائدہ اٹھاتی ہے ۔دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنی معتبری اور تھانیداری بھی قائم رکھتی ہے۔ کسی کو بھارتی چالوں پر اعتراض ہی نہیں ہوتا۔ مثلاً سعودی عرب اور ایران کے آپس کے تعلقات بہت خراب ہیں۔ دونوں نے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کر رکھی ہے۔ دونوں شام، عراق ،یمن،لبنان اور قطر میں ایک دوسرے کیخلاف بر سر پیکار ہیں۔ سعودی عرب اور ایران دونوں پاکستان کے قدیمی دوست ہیں ۔مسلمان ہونے کے ناطے دونوں سے برادرانہ تعلقات ہیں لیکن جب سعودی عرب نے یمن پر پاکستان کی مدد چاہی تو ایران نے پاکستان کو تعلقات کی خرابی کی دھمکی دے دی۔پاکستان کا پڑوسی اور برادر اسلامی ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان ایران سے تعلقات خراب کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔لہٰذا پاکستان کو سعودی عرب سے معذرت کرنا پڑی لیکن حیران کن بات بھارتی ڈپلومیسی ہے ۔دونوں ممالک سے اسکے بہترین تعلقات ہیں۔ ایران میں وہ کئی ایک تیل اور گیس کمپنیوں میں سرمایہ کاری کے علاوہ ایران کی ’’چاہ بہار‘‘ بندرگاہ بھی تعمیر کررہا ہے جس کیلئے بھارت نے 500ملین ڈالرز مختص کررکھے ہیں اور تعمیر جاری ہے۔ اب تک سعودی عرب کی جانب سے بھارت پر کسی قسم کا الزام بھی نہیں لگا بلکہ کچھ عرصہ پہلے جب بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی سعودی عرب کے دورے پر گیا تو اسے سعودی عرب کے سب سے بڑے سول ایوارڈ سے نوازا گیا اور کئی ایک تجارتی اور ثقافتی معاہدوں پر دستخط بھی کئے گئے۔ اب وہاں سعودی شہریوں کے بعد سب سے بڑی لیبر اور ٹیکنیکل فورس بھارتی ہیں جو وہاں سے بہر حال معقول زرِمبادلہ اپنے ملک بھیجتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان نے ایران سے سستے داموں گیس لی جبکہ یہ معاہدہ غالباً 2013میں کیا تھا۔ایران نے اپنے علاقے میں پائپ لائن تعمیر بھی کر دی لیکن چونکہ امریکہ کے ایران کے ساتھ تعلقات ٹھیک نہ تھے امریکہ نے پابندیاں لگا رکھی تھیں۔ لہٰذا امریکہ کی ناراضگی کے خوف سے پاکستان آج تک اپنے حصے کی پائپ لائن تعمیر نہیں کر سکا۔ ایران کی طرف سے بار بار یاددہانی اور آفر کے باوجود ہم اس معاہدے کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے۔ ملک میں گیس کی شدت سے قلت محسوس کررہے ہیں۔ تکلیفات اٹھا رہے ہیں لیکن گیس لینے سے قاصر ہیں جبکہ ہمارے مقابلے میں بھارت ایران میںشروع کئے گئے تمام پراجیکٹس پر کام کررہا ہے۔ ایران سے تیل بھی درآمد کررہا ہے اور چاہ بہار پر بھی کام جاری ہے جبکہ امریکہ اسے فطری اتحادی قرار دیتا ہے۔ امریکہ اور ایران دونوں کے ساتھ بہت قریبی تعلقات ہیں۔حالانکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف بہت سخت مئوقف اختیار کررکھاہے ۔حیران کن بات یہ ہے کہ بھارت کو نہ امریکی پابندیوں کا خوف ہے نہ ٹرمپ پالیسی کا اور نہ ہی سعودی عرب کی ناراضگی کا۔ وہ ان تمام سے بیک وقت فوائد اٹھا رہا ہے ۔وہ سب کا ناک کا بال بنا ہوا ہے۔
ہم شروع سے امریکی اتحادی ہیں لیکن بھارت روس کے ساتھ نتھی رہا یہاں تک کہ اس نے روس دوستی سے بے پناہ فائدہ اٹھایا ۔اپنے تمام بڑے بڑے منصوبوں پر بشمول ایٹمی توانائی روس سے مدد حاصل کی۔ یہاں تک کہ بھارتی فوج کا70فیصد اسلحہ روسی ساخت کا ہے۔ بھارت کے روس کے ساتھ تعلقات اس قدر گہرے تھے کہ 1971میں روس کی مدد سے مشرقی پاکستان کو پاکستان سے علیحٰدہ کر دیا ۔ہمارا اتحادی امریکہ دیکھتا رہا لیکن ہماری سلامتی کی حفاظت کے لئے آگے نہ بڑھا۔ پھر جب بھارت کو امریکی ہتھیاروں اور امریکی نیو کلیر ٹیکنالوجی کی ضرورت محسوس ہوئی تو امریکہ دوڑ کر بھارت کی مدد کیلئے آیا۔بھارت کی نہ صرف تمام ضروریات پوری کیں بلکہ کئی ایک اہم معاہدے بھی کئے۔ بھارت کو سول اور ملٹری ایٹمی ٹیکنالوجی ،جدید ترین ہتھیار اور جدید ٹیکنالوجی تک سب کچھ خوشی سے فراہم کیا۔یہاں تک کہ آج امریکہ بھارت کی زبان میں بات کرتا ہے اور امریکہ اسے ایک معاشی اور عسکری طاقت بنا کر جنوبی ایشیا میں لیڈرشپ کا کردار سونپنا چاہتا ہے ۔یہاں بھی بھارتی ڈپلومیسی اپنا کام دکھا رہی ہے۔ ہم اگر روس یا چین کی طرف رجوع کرتے ہیں تو امریکہ سخت ناراض ہوتا ہے اور ہمیں سبق سکھانے کی دھمکی دیتا ہے لیکن بھارت نے کئی سال روس کی گود میں بیٹھ کر ہر قسم کے فوائد حاصل کئے۔ جب وہاں سے دل بھر گیا تو امریکہ کی گود میں چلا گیا اور روس ناراض نہیں ہوا۔ اسوقت بھارت کی روس اور امریکہ سے بیک وقت دوستی چل رہی ہے اور وہ دونوں سے فوائد اٹھا رہا ہے۔ اور تو اور بھارت نے چین جیسے پاکستان دوست ملک سے بھی’’ برکس کانفرنس‘‘ کے موقع پر پاکستان مخالف بیان دلوادیا۔اسے بھارت کی کامیاب ڈپلومیسی نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟
بھارت اپنی ڈپلومیسی اپنے ملکی فوائد کیلئے تو استعمال کرتا ہی ہے لیکن ذاتی مقاصد سے بھی بڑھ کر بھارتی ڈپلومیسی کا رخ پاکستان کی طرف ہے۔ اس میں تو کسی پاکستانی کو کوئی شک نہیں کہ بھارت روزِ ازل سے ہی پاکستان مخالف ہے ۔ایسے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان مخالفت بھارت کی گھٹی اور بھارت کے خون میں شامل ہے۔ پاکستان کی مخالفت اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے وہ ہر وہ قدم اٹھانے کیلئے ہمیشہ تیار رہتا ہے جو اسکے بس میں ہو۔
بھارت کی کوشش ہے کہ افغانستان کی جنگ پاکستان میں شفٹ کی جائے۔ اسی لئے امریکہ ہمیں دھمکیاں بھی دے رہا ہے۔ دوسرا بھارت نے بلوچستان کو پاکستان سے علیحٰدہ کرنے کیلئے پاکستان میں دہشتگردی اور امریکہ اور یورپ میں اشتہارات کے ذریعے مہم شروع کررکھی ہے جس میں روز بروز تیزی آرہی ہے۔ ابھی تک ہماری ڈپلومیسی اس مہم کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔
اس مہم کیساتھ ساتھ بھارت کی ایک نئی چال پاکستان میں بننے والی بندرگاہ دوسرے لفظوں میں ’’سی پیک‘‘ منصوبے کو سیاسی چال سے ناکام بنانا ہے ۔اب تک اس مقصد کیلئے بھارت نے طرح طرح کی منصوبہ بندی کی۔ علاقے میں دہشتگردی پھیلائی ۔چینی مزدور اغواء کرائے۔ انہیں قتل کیا۔منصوبہ ناکام بنانے کیلئے ’’را‘‘ کو خصوصی فنڈز اور خصوصی اختیارات دئیے اور سب سے بڑھ کر افغانستان کو ساتھ ملا کر NDSکی مدد بھی حاصل کی مگر کامیابی نصیب نہ ہوئی ۔اب سی پیک کو ناکام بنانے کا نیا منصوبہ سامنے آیا ہے کہ ایران کی بندرگاہ ’’چاہ بہار‘‘ جسے بھارت تعمیر کررہا ہے کو فوری طور پر فنکشنل کر کے تجارت شروع کر دی جائے۔ویسے اس بندرگاہ نے اگلے سال کے آخر تک تیار ہونا تھا۔ اب اسے فوری طور پر جزوی حالت میں ہی سہی فنکشنل کیا جا رہا ہے۔ اس مقصد کیلئے ’’انڈیا گلوبل پورٹس لمیٹڈIGPL‘‘ کمپنی کھڑی کی گئی ہے جو فوری طورپر اسکا کنٹرول سنبھالے گی ۔یہ کمپنی فوری طور پر دو نئے ٹرمینلز تیار کریگی ۔ایک بحری جہازوں کیلئے اور دوسرا ملٹی پرپز چینل ہو گا۔ پہلی شپمنٹ جنوری میں ہو گی جس میں بھارت سات جہاز گندم کے افغانستان بھیجے گا ۔اس طرح یہ بندرگاہ گوادر سے پہلے چالو ہو جائیگی۔ افغانستان اور اس سے آگے وسط ایشین ریاستیں اس پورٹ سے اپنی تجارت شروع کر دیں گی تو انہیں ’’سی پیک‘‘ استعمال کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جائیگا۔اس بندرگاہ کے ذریعے ایران اور وسط ایشیائی ریاستوں میں سیاسی اثر ورسوخ بڑھا کر ’’سی پیک‘‘ کا منصوبہ ناکام بنا نے کی کوشش کی جائیگی۔